ڈالر مکمل طور پر بے لگام ہوچکا ہے، اس کی پرواز ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے، اس کے مقابلے میں روپے کی بے قدری بھی تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ صورتِ حال اس قدر ابتر ہوچکی ہے کہ جس کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ڈالر ڈیڑھ سو روپے کی حد عبور کرچکا ہے، جب کہ مختصر عرصے میں اس کے 165 روپے فی ڈالر کی شرح تک پہنچنے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، بلکہ بعض لوگ تو دو سو روپے کی شرح تبادلہ کی باتیں بھی کررہے ہیں۔ اس کے برعکس روپے کی ناقدری کا عالم یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک خطے کے تمام ممالک میں مستحکم کرنسی کہلانے والا روپیہ آج خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں کم ترین حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اِس وقت کے معاشی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ڈالر 70 روپے، بنگلہ دیش میں 84 ٹکے اور نیپال میں 112 روپے مالیت کا بتایا جاتا ہے، حتیٰ کہ علاقے کے جنگ زدہ اور سب سے غیر مستحکم ملک افغانستان میں بھی ایک ڈالر 79 افغانی میں دستیاب ہے۔ پورے خطے میں جس تیزی سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی ہے یہ امر کسی معمول کی معاشی سرگرمی کا حصہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کے اثرات علاقے کے دیگر ممالک میں بھی نظر آتے۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں ذلیل و خوار کرنے کا یہ سلسلہ کسی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے، جس کے پسِ پردہ خوفناک عزائم کارفرما ہونے کو بلا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص طور پر ان حالات میں جب کہ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کا ’’اسلامی ایٹم بم‘‘ پوری دنیا کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر قبل ازیں پاکستان کو ناقابلِ برداشت دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی قوم اس آزمائش میں سرخرو رہی۔ اب پاکستان کو جس طرح معاشی دہشت گردی کا شکار بنایا جا رہا ہے اُس کے پسِ پشت بھی یقینا پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو نشانہ بنانا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی اونچی اڑان کے سبب ملک کی پوری معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور حکمران خواہ ’’غریب آدمی متاثر نہیں ہوگا‘‘ کا جتنا چاہے راگ الاپتے رہیں، عملی طور پر اس صورت حال نے ہر ہر پاکستانی کو متاثر کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے، اور اس کی اوسط شرح ایک سال میں 3.8 فیصد سے بڑھ کر سات فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ بری طرح مندی سے دوچار ہوئی ہے، سونا آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے اور صرف دو تین دنوں میں ڈالر کے نرخ میں اضافے سے ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 687 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 1.5 فیصد اضافہ کرکے اسے 12.25 فیصد تک پہنچا دیا ہے، اور یوں تباہ حال ملکی معیشت کو سہارا دینے کے بجائے اس پر ایک تباہ کن حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوگا جس کا لازمی نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گا، یوں یہ شیطانی چکر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔
آزاد اقتصادی ماہرین کی رائے ہے کہ ڈالر کی یہ بلند پروازی اور مہنگائی کا سونامی حکومت کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے حالیہ معاہدے کا نتیجہ ہے، جب کہ حکومتی وزراء اور ماہرینِ معاشیات اس کی تردید کرتے ہیں اور اسے سابقہ حکومتوں کے حاصل کردہ اندھا دھند قرضوں، ان کے سود اور ماضی کے حکمرانوں کی بدعنوانیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ دونوں میں سے کس کا مؤقف درست اور مبنی بر حقیقت ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس سونامی کے سامنے بند باندھنے اور پاکستانی روپے کی ناقدری کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر اقدام کیوں نہیں کیا؟ ماضیِ قریب میں امریکہ اسی قسم کا ڈالر حملہ ترکی پر بھی کرچکا ہے، مگر دنیا نے دیکھا کہ پوری ترک قوم نے اپنے صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں متحد ہوکر اس حملے کا منہ توڑ جواب دیا اور ’’ڈالر‘‘ اور اس کے سرپرستوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس کے برعکس ہمارے حکمران ملکی معیشت اور اسٹیٹ بینک جیسے اداروں کو آئی ایم ایف کے ماہرین کے حوالے کرکے خود یوں الگ تھلگ ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ جیسے اب ان کے کرنے کا کوئی کام نہیں رہ گیا۔ عوام میں ہر دل عزیز ہونے کے دعوے دار وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر نہ تو قوم سے درآمدی اشیاء کا استعمال ترک کرنے کی کوئی اپیل کی، نہ درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے ہی کے لیے کوئی مؤثر اقدام تاحال سامنے آیا ہے، بلکہ ملکی معاشی اداروں کو آئی ایم ایف ماہرین کے سپرد کرنے سے قبل وزیراعظم کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک کے دوروں اور جوابی دوروں کے نتیجے میں جو حوصلہ افزا اعلانات سامنے آئے تھے، ان ممالک کی جانب سے مختلف تجارتی رعایتیں دیئے جانے، ادھار ڈالر ہمارے خزانے میں جمع کرانے، پیٹرول کی تاخیر سے ادائیگی پر فراہمی، پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ملک ملازمتوں کی فراہمی، اور خصوصاً چین کے ساتھ ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی میں دو طرفہ تجارت کے اعلانات پر اگر حقیقت میں عمل درآمد ہوجاتا تو ملک کی معاشی صورت حال کو یقیناً سہارا ملتا اور ملک کے معاشی حالات اس قدر ابتر نہ ہوتے۔ مگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر یہ اعلانات تو سننے میں آئے، مگر ان پر عمل درآمد کی کوئی صورت تاحال سامنے نہیں آسکی، جس کا سبب حکمرانوں کی بے بسی، بے حسی یا مجبوریاں کچھ بھی ہوسکتا ہے، مگر قوم کو اس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکمران بے عملی کو ترک کریں۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان سنجیدگی سے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرکے ملک کی گمبھیر معاشی صورت حال اور اپنی مجبوریاں اُن کے سامنے رکھیں، اور تمام سیاسی قوتیں مل کر ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس سے ملک کی سسکتی معیشت کو سنبھالا مل سکے۔ قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور اُن کے قائدین بھی معیشت کی زبوں حالی پر حکومت کو مورد الزام ٹھیرانے اور اسے رگیدنے کے بجائے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر اپنا دستِ تعاون حکومت کو پیش کریں۔ ورنہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کوئی بھی خود کو نتائج سے بری الذمہ نہیں ٹھیرا سکے گا۔
(حامد ریاض ڈوگر)