بغیر ہمزہ کے ’گاے‘ اور’ چاے‘۔

پاکستان میں روزِ اوّل سے اردو کو قومی زبان تسلیم کرنے کے بعد سے اس کے عملی نفاذ کی کوشش جاری ہے جو اب تک تو ناکام ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا۔ 1973ء کے آئین میں بھی ایسا ہی کچھ ہے، چنانچہ 2015ء میں عدالتِ عظمیٰ نے بھی حکم جاری کیا کہ دفتری زبان اردو ہوگی، لیکن خود عدالتوں میں اس کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ گزشتہ دنوں عدالتِ عالیہ لاہور کے ایک شجیع جج نے اردو میں فیصلہ لکھا۔ ممکن ہے بعد میں اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا گیا ہو۔ عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں جو بیشتر سائلین اور موکلوں کے سر سے گزر جاتے ہیں، صرف وکیل ہی سمجھ پاتے ہوں گے، اور وہ بھی ضروری نہیں کہ سب کی سمجھ میں آجائے۔ جعلی ڈگریاں تو وکیلوں کی بھی پکڑی گئی ہیں۔
گزشتہ دنوں یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ مقابلے کے امتحانات (C.S.S.P) اردو میں لیے جائیں۔ اس پر انگریزی سے عشق کرنے والے ارکانِ پارلیمان نے احتجاج بھی کیا، کیونکہ وہ اور اُن کی اولاد اردو میں فیل ہوجاتی، جس طرح بیشتر طالبانِ علم انگریزی میں فیل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ طے کیا گیا کہ اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی امتحان دیا جاسکتا ہے۔ یہ انگریزی کے غلاموں کی فتح ہے، کیونکہ اردو میں امتحان دینے والوں سے وہی سلوک ہوگا جو ہر ملازمت میں کیا جاتا ہے، کامیاب وہی ٹھیریں گے جو انگریزی میں اپنی قابلیت کا اظہار کریں گے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور مضحکہ خیز بات اور کیا ہوگی کہ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے لیے بھی انگریزی پر عبور ضروری ہے، جیسے انگریزی جاننے والے فوجی ہی ملک کا دفاع کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ کسی بھی جنگ میں زیادہ تر وہ سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جو انگریزی کی مدد سے نہیں، جذبۂ جہاد سے لڑتے ہیں۔ جانے یہ سابق آقائوں کی مسلط کردہ زبان کب جان چھوڑے گی۔
اردو کے نفاذ کی تحریک چلانے والے خود بھی اردو پر توجہ دیں تو کام آسان ہوجائے گا۔ ’’وی وانٹ اردو‘‘ کا لطیفہ تو اب بھی زندہ ہے، اور بقول دلاور فگار مرحوم ’’آئی ایم ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ‘‘۔ گزشتہ دنوں تحریک نفاذِ اردو پاکستان کے صدر کی طرف سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس پر لکھا تھا ’’بشرف نذر‘‘۔ ان کی یہ نذر ہم نے قبول تو نہیں کی لیکن ’نظر‘ کی جگہ ’’نذر‘‘ پڑھ کر اس لیے افسوس ہوا کہ دعوت نامہ تحریک نفاذِ اردو کے صدر کی طرف سے تھا۔ خبر کے متن میں ’’محمانِ خصوصی‘‘ کا ذکر بھی تھا۔ ممکن ہے یہ اغلاط کسی منشی کی طرف سے کی گئی ہوں، لیکن ان کی ذمے داری بہرحال صدرِ تحریک پر عاید ہوتی ہے کہ بغیر دیکھے اخبارات کو کیوں جاری کردی گئی۔ ایسے میں تحریک نفاذِ اردو کا مستقبل واضح ہے۔
ٹی وی چینلوں پر دینی پروگراموں میں نمودار ہونے والے بظاہر ’علما‘ عربی کے عام الفاظ کا غلط تلفظ ادا کرتے ہیں جو اردو میں عام ہیں۔ مثلاً ظلم کو ’ظُ۔ لم‘، علم کو ’عِ۔ لم‘ یا عیلم۔ ایک عام آدمی یا ہمارے سیاستدان ان جیسے الفاظ کا غلط تلفظ ادا کریں تو حیرت کی کوئی بات نہیں، لیکن دینی پروگراموں میں شریک بظاہر علما نے عربی تو پڑھی ہوگی، قرآن و حدیث کا مطالعہ تو کیا ہوگا۔ ان کی یہ غلطیاں قابلِ معافی نہیں ہیں۔ ٹی وی چینلز پر دینی پروگراموں کا اہتمام کرنے والے اس پر توجہ دیں، کیونکہ ٹی وی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے نوجوان نسل صحیح تلفظ بھی سیکھتی ہے۔ زیر، زبر کی غلطیاں تو کثرت سے ہیں مثلاً استعفا، اس میں ’الف‘ اور ’ت‘ دونوں بالکسر ہیں یعنی ’’اِستِعفا‘‘۔ مگر ’’اَستَع فا‘‘ کہا جارہا ہے۔ اسی طرح ’عندیہ‘ میں ’ع‘ بالکسر ہے یعنی ’ع‘ کے نیچے زیر ہے۔
ہم اردو کے نفاذ کے دعویدار ہیں لیکن حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے نام انگریزی میں ہیں۔ پہلے انہیں تو درست کرلیں۔ مثلاً ادارہ ترقیات کراچی ’’کے ڈی اے‘‘ ہوگیا۔ پہلے بلدیہ کراچی کہا جاتا تھا وہ ’’کے ایم سی‘‘ ہوگیا۔ ’’واٹر اینڈ سیوریج بورڈ‘‘ کو ’ادارہ فراہمی و نکاسی آب‘ کہنے سے ادارے کا رعب ختم ہوجاتا ہے۔ سیوریج کا معقول ترجمہ ’’گنداب‘‘ کیا گیا تھا مگر شاید مزا نہیں آیا۔ کئی اداروں کے انگریزی نام اور ان کے مخففات کو سمجھنے کے لیے دماغ لڑانا پڑتا ہے۔ مثلاً MTI۔ یہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ہے۔ RHA اور DHA ریجنل ہیلتھ اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ہے۔ بورڈ آف گورنرز، بیسک ہیلتھ یونٹ، رورل ہیلتھ سینٹر، اور ان سے بڑھ کر آل پارٹیز کانفرنس۔ ’کل جماعتی اجتماع‘ یا اجلاس کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ادارہ قومی احتساب ’’نیب‘‘ ہوگیا، اور ’کرپٹ‘ و ’کرپشن‘ تو اب اردو ہی کا حصہ ہوگئے۔ ایسے میں نفاذِ اردو کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔
اردو املا اور تلفظ کے بارے میں رشید حسن خان مرحوم نے بڑی جامع اور منظم کوشش کی ہے۔ ان کی ضخیم کتاب ’اردو املا‘ حرفِ آخر نہ سہی حرف، معتبر ضرور ہے۔ لیکن یہ بڑی گنجلک کتاب ہے، اور ہم نے جس کو بھی پڑھنے کے لیے دی اُس نے بھاری پتھر سمجھ کر چوم کے چھوڑ دیا کہ سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ رشید حسن خان نے یہ کتاب بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھی ہے، عام طالب علم کے لیے نہیں۔ وہ حیات ہوتے تو اُن سے آسان ترجمے کی فرمایش کی جاسکتی تھی۔ یہ کتاب مجلس ترقی ادب، 2کلب روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ سمجھ میں آجائے تو بہت مفید ہے۔ اس کے ناشر شہزاد احمد نے پیش لفظ لکھا ہے اور مختصر سی تحریر میں ایسی غلطیاں کی ہیں جو رشید حسن خان کی نظر سے گزری ہوتیں تو تلملا گئے ہوتے، مگر یہ کام ان کی وفات کے بعد ہوا۔ مثلاً ناشر صاحب نے ’’اہالیان اردو‘‘ لکھا ہے، جب کہ ’اہل‘ کی جمع ’’اہالیان‘‘ بالکل غلط ہے۔ اردو میں ’’اہلیان‘‘ لکھا جارہا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ ’اہل‘ بجائے خود جمع ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے، یہاں صرف ’اہلِ اردو‘ لکھنا کافی تھا۔ اسی پیش لفظ میں املا کو مونث لکھا ہے، ’’الفاظ کی املا‘‘۔ آگے چل کر یہ املا مذکر ہوگیا کہ ’’رشید حسن خان نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ اردو املا کے قواعد…‘‘ ممکن ہے یہ ’’کے‘‘ قواعد کے لیے آیا ہو، لیکن خود بھی لکھا کہ ’’اردو زبان میں الفاظ کے املا کی معیار بندی…‘‘ ناشر شہزاد احمد خود طے نہیں کرپائے کہ املا مونث ہے یا مذکر۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ناشر صاحب پیش لفظ کسی پڑھے لکھے شخص سے لکھوا لیتے، نام بے شک اپنا دے دیتے۔ مصنف نے پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کے حقوق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو تفویض کردیے تھے۔ علمی و ادبی دنیا میں جناب رفیع الدین ہاشمی کا نام اورکام دونوں ہی بہت بڑے ہیں۔ وہ ہی اس پیش لفظ پر ایک نظر ڈال لیتے۔ اُمید ہے کہ دوسری اشاعت میں پبلشر صاحب اپنی غلطیاں درست کرلیں گے۔
رشید حسن خان ہمزہ کے دشمن ہیں، چنانچہ ان کے ہاں گائے بغیر ہمزہ کے ’’گاے‘‘ ہے جس سے ایسا لگتا ہے جیسے گائے بغیر سینگوں کے ہو۔ انہوں نے اس میں بابائے اردو کو بھی شامل کرلیا جو خود ’’باباے‘‘ ہوگئے۔ دوسرا زور انہوں نے الفاظ کو توڑنے پر لگایا ہے جیسے ’’بل کہ‘‘، ’’چناں چہ‘‘۔ غنیمت ہے کہ ہمدرد صحت والوں نے اُن کا املا قبول کرکے ’’ہم درد‘‘ نہیں کیا، گو کہ ہمدرد کے رسالے نونہال نے یہ املا قبول کیا ہے۔ اس پر یہ مشہور شعر یاد آتا ہے:

اس نے پہلے مس کہا، پھر تق کہا، پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کردیے

رشید حسن خان سے متاثر ہوکر ایک صاحب اپنا نام ’’مس، عود، ان، ور‘‘ لکھنے لگے ہیں۔ ابدالی ’’اب دالی‘‘ ہوگئے۔ ہمزہ کے بارے میں رشید حسن خان لکھتے ہیں ’’کہانیوں کہاوتوں میں ایک کردار خوامخواہ یا خدائی فوج دار کی طرح جہاں دیکھیے وہاں براجمان ملے گا اور اکثر مقامات پر اس کا وجود غلط املا کا سبب بن جاتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی مرحوم کا حوالہ دیا ہے کہ ’’بناو سنگھار، بھاوتاو، نبھاو، گھاو، کڑھاو میں ہمزہ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح چاے، گاے، راے، ہاے، واے میں ہمزہ نہ چاہیے۔ ہمزہ الف کا قائم مقام ہے، پس جب حرفِ علت اپنی اپنی آواز الگ دیں تو ان کے بیچ میں ہمزہ آسکتا ہے، نہیں تو نہیں۔ اس لیے آئو جائو، گیت گائو، دو لڑکے آئے، آپ آئے، میں آئوں تو کیا لائوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آرام سے سوئوں وغیرہ میں ہمزہ لکھنا چاہیے‘‘۔ یہ علما کی رائے ہے جس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں کہ چائے پر ہمزہ نہ ہو تو چائے پینے کا مزا ہی نہیں آتا۔ جو الفاظ بغیر ہمزہ کے درست قرار دیے گئے ہیں، ان پر ہمزہ لگانے سے ہاتھ نہیں رکتا۔ جب بہت سے الفاظ کا املا بدل گیا تو گائے اور چائے بھی بدل دیں، الفاظ کا بھی تو ایک بنائو سنگھار ہوتا ہے۔