بیمار نظام! تبدیلی کیسے آئے گی؟۔

پاکستان کا بنیادی مسئلہ جمہوری حکمرانی اور ایک ایسا منصفانہ اور شفاف سیاسی، انتظامی، قانونی اورمعاشی نظام ہے جو لوگوں کی بنیادی نوعیت کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ کیونکہ کوئی بھی نظام بنیادی طور پر لوگوں کی ضرورتوں اور خواہشات سے ہی جڑا ہوتا ہے، اور اگر کوئی نظام لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرسکے تو اس کی اہمیت اور ساکھ پر سوالات اٹھ جاتے ہیں۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں لوگوں میں نظام کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں اور وہ نظام سے نالاں نظر آتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ جو نظام یہاں کئی دہائیوں سے رائج ہے اس میں لوگوں کا مختلف حوالوں سے استحصال کیا جاتا ہے۔
ہمیں لوگوں کی اس رائے کو جس میں وہ نالاں نظر آتے ہیں، محض جذباتیت کی بنیاد پر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سوچنا ہوگا کہ لوگ جو سوچ رہے ہیں اس کے پیچھے کیا حقائق ہیں، اور وہ کون سے محرکات ہیں جو لوگوں کو اپنے ہی نظام سے نالاں یا لاتعلقی پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے سماجی اور معاشی شعبے کے سرکاری یا ریاستی اعداد وشمار دیکھیں تو ان میں ایک خوفناک محرومی اور پس ماندگی کے گہرے بادل نظر آتے ہیں۔ یہ جو معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی اور بالخصوص معاشی خلیج ہے، یا امیر اور غریب میں موجود عدم توازن ہے وہ لوگوں کو مایوس کرتا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف جیسے بنیادی نوعیت کے مسائل پر ریاست کا اپنی ذمہ داریوں سے دست برادر ہونا یا مجرمانہ غفلت کرنا خود ایک بڑا سنگین مسئلہ ہے۔
جب معاشروں کو چلانے کی بنیادی سوچ یا فکر میں طبقاتی تقسیم ہو تو لوگوں کو یکجا کرنا یا ان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ممکن نہیں ہوتا، اور یہ عمل لوگوں میں ریاست کی افادیت کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح آج کی دنیا میں جدید ریاستوں کے جو تصورات ہیں، یا جو ہم حکمرانی کے نظاموں میں نئے تجربات دنیا میں دیکھ رہے ہیں اُن سے سیکھنے کے بجائے ہم پرانی، فرسودہ اور روایتی طرز پر مبنی سیاست اور حکمرانی کی مدد سے نظام کو چلائیں گے تو نتائج وہی ہوں گے جو آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دنیا جس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اتنی ہی تیزی سے ہمیں بھی اپنی فکر کو درست سمت میں لے جانا ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنی سابقہ اور موجودہ غلطیوں کو قبول کریں، اور ان غلطیوں سے سیکھ کر کوئی نیا سبق پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
سب فریقین کو یہ بنیادی نکتہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم جس بیمار اور لاچار نظام کو چلارہے ہیں اُس سے کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی ممکن نہیں۔ کیونکہ آپ کی نیت درست ہو اور آپ کچھ اچھی پالیسیاں بھی بنالیں، مگر جس عمارت یعنی سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو بنیاد بناکر سب کچھ چلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہی بڑا مرض ہے۔ چھ معاملات ایسے ہیں جن پر ہمیں زیادہ سوچ بچار کرنا ہوگی:
(1) انتظامی یا یعنی بیوروکریسی کا نظام، جو عملاً اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی چاہتا ہے۔
(2) وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم، بالخصوص محروم طبقات کو بنیاد بناکر ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا۔
(3) ادارہ جاتی عمل کی شفافیت اور افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی سمیت سیاسی مداخلتوں کا خاتمہ۔
(4)ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا اور اعتماد کی بحالی۔
(5) مربوط معاشی نظام، جس میں اغیار پر ہی سارا انحصار نہ ہو، بلکہ خود بھی وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔
(6) سیاسی نظام اور سیاست میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے عمل کو بنیاد بناکر ایک بڑی سرجری، جو جمہوری سیاست کو مضبوط کرے۔
عمومی طور پر سیاسی نظام میں سیاسی توقعات کا بنیادی مرکز بھی سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی عملی سیاست قومی معاملات یا مفادات سے جڑی ہونی چاہیے۔ لیکن ہماری سیاست انتشار، محاذ آرائی، نفرت، دشمنی، تعصب، منافرت، کردارکشی سمیت دیگر امراض سے جڑی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے مزید غلطیوں کو پیدا کرنا ہی اپنی سیاست سمجھ لیا ہے۔ جب آپ سیاست میں کسی کے وجود کو ہی تسلیم نہ کریں چاہے آپ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں، تو نظام کی درستی کا عمل مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں یا خاندانی سیاست کے نام پر داخلی جمہوریت سے جڑے ہوئے مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ پر ضرور تنقید کریں اور ہونی بھی چاہیے، لیکن خود اپنی سیاسی ادائوں اور طرزِعمل کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ موجودہ خرابیوں میں ہمارا اپنا کتنا حصہ ہے۔
یہ جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ہے یا اس کا اثر ہماری سیاست پر بہت غالب ہوگیا ہے، اس کی وجہ جہاں اسٹیبلشمنٹ سے جڑے افراد کی سوچ ہے، وہیں خود اہلِ سیاست بھی اس کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ جب سیاست عملی طور پر لوگوں میں اپنی ساکھ ہی قائم نہ کرسکے اور حکمرانی سے جڑے مسائل کو اپنی سیاست کی بنیاد نہ بنائے تو اس سے سیاسی نظام میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے، اور عملاً اس خلا کی موجودگی میں پس پردہ قوتیں زیادہ متحرک اور فعال ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سیاسی مداخلت کے تناظر میں کمزور کرنا ہے تو پھر اہلِ سیاست کو بھی اپنے اندر بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا۔ محض اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا کر مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ہمیں خود بھی ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ درکار ہے کہ ہم بھی اپنا رویہ تبدیل کریں۔ خود اسٹیبلشمنٹ سے جڑی طاقتوں کو بھی غورکرنا ہوگا کہ وہ بھی اس وقت اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ کیونکہ اگر کسی بڑی تبدیلی کی طرف پیش رفت کرنی ہے تو اس کے لیے سب فریقین کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا اور ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔کیونکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ یا سیاست دانوں کا نہیں، بلکہ خود پاکستان کا ہے، اور پاکستان کو ہر صورت بہتر انداز میں تبدیل ہونا ہے۔
مسئلہ اسٹیبلشمنٹ، فوج، بیوروکریسی، سیاست دانوں اور دیگر فریقین کا نہیں ہے، اصل مسئلہ سب فریقین کا مشترکہ ہے جو ادارہ سازی سمیت قانون کے دائرۂ کار میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ جو ہماری ناکامی ہے یہ مشترکہ ناکامی ہے، اور سب فریقین کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ بھی ان موجودہ حالات کے بگاڑ میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ جو ہمارا معاشی بحران ہے یہ کسی ایک حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ ہماری داخلی کمزور سیاست اور معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ جو کڑوے فیصلے ہمیں معاشی تناظر میں درکار ہیں وہ ہم کرنے کے لیے تیار نہیں، اور روایتی انداز میں معاشی کھیل کو چلا کر مستقبل کے لیے اور زیادہ خطرات پیدا کررہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ’’معاشی معاہدہ ‘‘ درکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سلوک ہماری دو بڑی جماعتوں نے ماضی و حال میں میثاقِ جمہوریت کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد اُن سے توقع رکھنا مشکل لگتا ہے۔ اس لیے مسئلہ کسی نئے معاہدے کا نہیں بلکہ سیاسی نیتوں کا ہے۔ جب تک ہماری ترجیحات درست نہیں ہوں گی، ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔
کیونکہ مسئلہ جہاں اتفاقِ رائے پر مبنی چارٹر کا ہے، وہیں بڑا مسئلہ ہماری سیاسی اور دیگر قیادت کے طرزعمل کا بھی ہے جو اصلاحات تو کرنا چاہتی ہیں لیکن ان اصلاحات میں خود کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرا ان کے اپنے رویوں میں غیر جمہوری سیاست اور عوام دشمنی پر مبنی سیاست کی سوچ اور فکر غالب ہے۔ ہر سطح پر قائم بگاڑ ایک بڑے مرض یعنی کینسر جیسے مرض کی نشاندہی کرتا ہے، اور عملاً ایسے مرض کا علاج ایک بڑی سرجری ہے جو ناگزیر ہے۔ لیکن ہم ایسے ڈھیٹ ہیں کہ کینسر جیسے مرض کا علاج سر درد کی گولی سے کرنا چاہتے ہیں جو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو طاقت رکھتے ہیں لیکن ان کی سوچ اورفکر مسائل کے حل کے بجائے ان میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تبدیلی کا عمل آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جاتا ہے جو اس ریاستی نظام کے لیے سود مند نہیں ہوتا۔
اب سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟کیونکہ باتیں کرنا آسان ہے اور مسئلے کی نشاندہی اور اس کے حل کی جانب مؤثر پیش قدمی ایک مشکل کام ہے۔ ہم مشکل کام سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہلکے پھلکے انداز میں ہمارا مسئلہ حل ہو، جو ممکن نہیں ہوتا۔ عملی طور پر سیاست اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سماج کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی جو اہلِ دانش کی مدد سے پیدا ہوتی ہے اس کا فقدان ہے۔ لیکن ہمیں مایوس ہونے کے بجائے یہ تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہے کہ موجودہ نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے اور اس کو درست کرنے کے لیے اصلاحات پر مبنی سیاست درکار ہے۔ لیکن بہتر طور پر اصلاحات اسی صورت میں ممکن ہوتی ہیں جب سماج ایک بڑے دبائو کی سیاست پیدا کرتا ہے۔ اس لیے دبائو کی اس سیاست کو پیدا کرنے کے لیے رائے عامہ بنانے والے افراد کو ایک بڑے منظم کام کی ضرورت ہے، اور یہ کام علمی و فکری تحریک کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟کیونکہ ہم جن سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ لوگ یا ادارے بڑی تبدیلی کے لیے کلیدی کردار ادا کریں گے ان کو جھنجھوڑنا اور درست سمت میں ان کا چلنا بھی خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ جب خود تبدیلی کے کارندے تبدیلی کے عمل میں رکاوٹ بن جائیں اور ایسے افراد یا اداروں سے گٹھ جوڑ کرلیں جو تبدیلی کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں، تو پھر تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔