خیبر ٹیچنگ اسپتال،ڈاکٹر ضیاء الدین پر تشدد

ڈاکٹروں کی ہڑتال۔ عوام پریشان

خیبر پختون خوا کے دوسرے بڑے اسپتال خیبرٹیچنگ اسپتال پشاور میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان اور ان کے محافظین کے ہاتھوں اسسٹنٹ پروفیسر سرجری ڈاکٹر ضیاء الدین پر تشدد اور ٹائون پولیس اسٹیشن پشاور میں ڈاکٹروں کو حبسِ بے جا میں رکھنے پر صوبے بھر کے اسپتالوں میں تادم تحریر ڈاکٹر برادری کی ہڑتال جاری ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے درمیان معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ منگل کے روز خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں وزیر صحت اور اُن کے محافظین کی جانب سے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین آفریدی کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ڈاکٹروں نے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں خدمات کو معطل کرتے ہوئے سڑک پر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد ٹائون پولیس نے ڈاکٹروں کو طلب کرکے تھانے میں مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے پر بدھ کے روز ڈاکٹروں نے مزید اشتعال میں آکر صوبے بھر میں او پی ڈیز اور آپریشن تھیٹرز سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا جس کی وجہ سے صوبے کے طول وعرض میں مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں نے آپریشن تھیٹرز میں بھی کام کو بند کیا اور خیبر ٹیچنگ اسپتال کے سامنے سڑک پر مرکزی سطح پر احتجاجی ریلی نکالی اور وزیر صحت اور اُن کے مشیر کو عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹروں نے ٹائون پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے خلاف بھی کارروائی اور ڈاکٹر ضیاء الدین پر تشدد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ڈاکٹروں نے اس حوالے سے صوبے کے سب سے بڑے تدریسی اسپتال ایل آر ایچ کو بھی مکمل طور پر بند رکھنے کا اعلان کیا۔
وزیر صحت اور ڈاکٹروں کے درمیان جاری تنازعے پر پچھلے ایک ہفتے سے پشاور کے اسپتالوں سمیت تقریباً تمام اضلاع کے بڑے اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں ڈاکٹروں نے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے او پی ڈیز اور وارڈز سے بائیکاٹ کررکھا ہے۔ ڈاکٹروں نے سرکاری ڈیوٹی سے انکار کے ساتھ ساتھ نجی کلینکس اور آپریشن تھیٹرز بھی بند کرانے کا اعلان کردیا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں مریضو ں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، البتہ اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں ڈاکٹر ڈیوٹی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اسپتالوں کی جنرل او پی ڈی کا رش بھی ایمرجنسی سروسز کی جانب منتقل ہوگیا ہے، البتہ ڈاکٹروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو وہ ایمرجنسی شعبے میں بھی خدمات کا سلسلہ معطل کرنے کا اعلان کردیں گے۔ خواتین ڈاکٹروں نے بھی احتجاج میں حصہ لے کر ڈیوٹی سے بائیکاٹ کیا، جب کہ بعض مقامات پر پیرامیڈیکس، نرسز اور کلاس فور ملازمین بھی ڈاکٹروں کی ہڑتال میں شریک ہونے کا اعلان کرچکے ہیں جس سے صورت حال مزید خراب اور پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جب تک وزیر صحت کو تبدیل اور اُن کے خلاف مقدمات کا اندراج نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ہڑتال جاری رہے گی۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے مذاکرات کے بجائے دھمکیاں دینے پر بھی ڈاکٹروں میں سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔
خیبرپختون خوا اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اکرم خان درانی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ڈاکٹروں پر تشدد کرنے پر وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک التواء جمع کرادی ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے اشتعال انگیزی اور جارحانہ رویّے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اکرم خان درانی کی جانب سے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع تحریک التواء میں مؤقف اختیار کیاگیا ہے کہ وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے اسپتال جاکر ڈاکٹر پر تشدد کیا جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اسپتالوں میں ہڑتال کی، اور ہڑتال کے نتیجے میں تمام اسپتالوں میں مریضوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ وزیر صحت کے کہنے پر اُن کے غنڈوں نے ایک سینئر ڈاکٹر کی بے عزتی کرکے انہیں مارا پیٹا جو غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک ہے۔ صوبائی حکومت بھی وزیر صحت کی اس غنڈہ گردی کی حمایت کررہی ہے جو باعثِ شرم ہے۔ اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کی جانب سے جمع تحریک التواء میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک جانب وزیر صحت ڈاکٹروں پر تشدد کرتے ہیں اور دوسری جانب حکومت اس غنڈہ گردی کی حمایت کرتی ہے، حکومت کا جارحانہ رویہ مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے، حکومت کی ڈاکٹروں کے خلاف انتقامی کارروائی اور بندوق کے زور پر احتجاج دبانا کسی صورت مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
دریں اثناء ڈاکٹروں کی ہڑتال کے خاتمے کے لیے حکومت نے ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کرلیا ہے، صوبائی حکومت نے منگل کو ہڑتالی ڈاکٹروں کے تحفظات اور اعتراضات پر تبادلہ خیال کے لیے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا ہے۔ جس میں ان سے مذاکرات کے لیے ہڑتال واپس لینے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کیونکہ ڈاکٹروں نے ہڑتال کے خاتمے کے لیے جو شرائط رکھی ہیں وہ اتنی سخت ہیں کہ انہیں تسلیم کرنے کا سیدھا سادا مطلب سیاسی خودکشی ہوگا۔ جب کہ مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں ڈاکٹراپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے جہاں اپنی اب تک کی سات روزہ ہڑتال کے جواز سے محروم ہوجائیں گے وہیں اس انتہا پر پہنچنے کے بعد اگر وہ ہڑتال کے خاتمے کی صورت میں اپنے سخت موئقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حکومت کے لیے نہ صرف ڈاکٹروں کی مرضی کے خلاف اپنے نام نہاد اصلاحاتی ایجنڈے پرعمل درآمد کروانے کا اخلاقی جواز فراہم ہوجائے گا بلکہ اسے زیادہ جارحانہ موڈ میں ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کے قیام کے نام پر ڈاکٹروں کی اتھل پتھل کا سرٹیفکیٹ بھی دستیاب ہوجائے گا۔ اس صورت حال میں حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت جس پر ہر لحاظ سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آگے بڑھ کر ڈاکٹروں کے ساتھ نہ صرف بامقصد اور غیر مشروط مذاکرات کا ڈول فی الفور ڈالے بلکہ ان کے بعض سخت مطالبات کو بھی کڑوا گھونٹ سمجھتے ہوئے غریب عوام کے وسیع تر مفاد میں حلق سے اتار کر اپنی پالیسیوں میں کچھ نہ کچھ نرمی ضرور لائے۔ اس اپروچ کے تحت ہی اس سنگین بحران کے ڈراپ سین کی توقع کی جاسکتی ہے، بصورتِ دیگر اس تنازعے کا خمیازہ صوبے کے غریب مریض ہی بھگتتے رہیں گے۔