بلوچستان اسمبلی میں متحدہ حزبِ اختلاف یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اسمبلی فورم پر حکومت پر کڑی تنقید کرتی رہتی ہیں، اور مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ چناں چہ 17مئی کو حزبِ اختلاف سڑکوں پر بھی نکل آئی۔ انجمنِ تاجران نے ان سے تعاون کیا۔ ان سب کی اپیل پر شہر کوئٹہ میں شٹر ڈائون ہڑتال ہوئی۔ ہڑتال سے قبل ان جماعتوں کے رہنما اور اراکین اسمبلی مختلف شاہراہوں پر گئے اور دکان داروں، رکشہ والوں اور راہ چلتے لوگوں کو پملفٹ تھمائے، جس میں ہڑتال کی اپیل اور احتجاج کا جواز اور وجوہات تحریر تھیں۔ ہڑتال صوبائی پی ایس ڈی پی کے لیپس ہونے، سی پیک میں بلوچستان کو نظرانداز کرنے، گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مجموعی مہنگائی کے خلاف کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) حزبِ اختلاف کا حصہ ہے۔ اسمبلی میں صرف نواب ثناء اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کررہے ہیں۔ لیکن نواب زہری غیر فعال ہیں، اس بنا پر حزبِ اختلاف میں اُن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ نواب اسلم رئیسانی متحرک ہیں، وہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں اور حزبِ اختلاف کا حصہ ہیں۔ 17مئی کے احتجاجی مظاہرے میں جو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ہوا، نواب رئیسانی شریک تھے جہاں انہوں نے خطاب بھی کیا۔ حزبِ اختلاف کا احتجاج عین عوام کا مطالبہ بھی ہے۔ یقینا مہنگائی عوام کو پیس رہی ہے۔ وفاقی حکومت خود کہتی ہے کہ مہنگائی کا مزید طوفان بھی آنے والا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو یقینی طور پر حکومت کے خلاف ملک بھر میں عوامی احتجاج منظم ہوگا۔ یہاں بلوچستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھرپور احتجاج پر قادر ہیں۔ ان کے پاس عوام کی طاقت ہے۔ ضروری ہے کہ اس طاقت کو جماعتی مقاصد سے ہٹ کر فی الواقع عوام اور صوبے کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔ اگر یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ جمہوری قوتوں کے بجائے غیر جمہوری لوگ صوبے پر مسلط کیے گئے ہیں، تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اِن غیر جمہوری لوگوں اور آلہ کار اراکین کو بھی اپنے نزدیک پھٹکنے نہ دیں، ان کی سازشوں کا حصہ نہ بنیں، اورنیشنل پارٹی کو جو اِس وقت اسمبلی میں نمائندگی نہیں رکھتی، اپنی اس تحریک و احتجاج میں شرکت پر آمادہ کریں۔ نیشنل پارٹی صوبے کی ایک بڑی جماعت ہے جو اپنے طو رپر احتجاج کربھی رہی ہے۔
حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج بدامنی کے خلاف بھی ہے۔ یہاں سوچنا چاہیے کہ بدامنی کا مسئلہ تنہا حکومت کا نہیں، بلکہ اس سے صوبہ اور عوام دوچار ہیں۔ کوئی بھی حکومت خواہ وہ موجودہ ہو یا ماضی کی، یا اس سے بھی پہلے کی حکومتیں… سب کی کوشش رہی ہے کہ اس عفریت سے نمٹا جائے۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جب امن کی صورتِ حال بہتر ہوتی ہے توحکومتیں بڑے فخر سے اس کا کریڈٹ لیتی ہیں۔ خرابی کی صورت میں الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر تھوپا جاتا ہے۔ لہٰذا امن و امان کے حوالے سے موجودہ حکومت پر تنقید کے بجائے سماج دشمن گروہوں کے خلاف تحریک کی ضرورت ہے۔ اس صورتِ حال سے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، سیاسی جماعتوں، عوام اور سیکورٹی اداروں کو باہم یکجا ہوکر نبرد آزما ہونا ہے، کیونکہ یہ جنگ صوبے اور عوام کی جنگ ہے۔ متحدہ حزبِ اختلاف کی اپیل پر احتجاج یقینا پُراثر تھا۔ بہرحال یہ بڑی بات ہے کہ متحدہ حزب اختلاف رمضان المبارک میں سڑکوں پر نکل آئی اور کوئٹہ پریس کلب کے باہر جلسہ منعقد کیا، جس سے نواب اسلم رئیسانی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائم مقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ، پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، نواب زادہ لشکری رئیسانی، رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان کاکڑ، سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی، رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے، جمعیت علمائے اسلام کے رکن اسمبلی اصغر ترین، صوبائی کنوینر وڈیرہ عبدالخالق اور انجمن تاجران بلوچستان کے صدر عبدالرحیم کاکڑ نے خطاب کیا۔ رہنمائوں نے کہا کہ پورے نظام کو خطرات لاحق ہیں اور فیڈریشن کو بچانے کے لیے صوبے کے سیاسی اکابرین متحرک ہوگئے ہیں۔ پارلیمنٹ بے اختیار ہے اور صوبوں کی حکومتیں بھی بااختیار نہیں ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت ان پالیسیوں کا تسلسل ہے جن کے ذریعے بلوچستان کو پسماندہ رکھا جارہا ہے۔ ملک میں جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی اور صوبائی و مرکزی حکومتوں کے اختیارات کی جنگ آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ پاکستان اقتصادی بدحالی اور لاقانونیت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اربوں روپے امن و امان پر خرچ ہونے کے باوجود امن وامان کی صورت حال ابتر ہے۔ ژوب سے گوادر تک بلوچستان میں عوامی حقوق کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ موجودہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عوام پر مسلط کیاگیا ہے۔