سانحہ نیوزی لینڈ،ایک فرد کی جسارت یا تہذیبِ مغرب کا اظہار ِ تحکم

مولانا عبید الرحمن شاہجہاں پوری
”ملتِ اسلامیہ، ملتِ کفر کى سیاسی ہمدردی سے دھوکہ نہ کھائے۔۔۔ تہذیبی تصادم و فکرِ مغرب کو سمجھے۔۔۔ اور پھر اپنے تہذیبی تصلب و تہذیبی عصبیت سے سرشار ہو کر تہذیبی جہاد کے لیے میدانِ کارزار میں اتر جائے۔۔۔

رکو نہیں، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر
نئے سرے سے چھڑ چکی جہاں میں رزمِ خیر و شر“
…………..

وہ قومیں جو تاریخ کے کسی موڑ پر استعمار کی غلام رہی ہوتی ہیں اُن کے زاویہ نظر اور غلامانہ نفسیات میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے عروج کو زوال اور زوال کو عروج سے تعبیر کرنے لگتی ہیں۔ فکر و نظر کی اس تنزلی کی مثال سانحہ نیوزی لینڈ کے بارے میں مسلم حلقوں میں پایا جانے والا تاثر ہے۔ چنانچہ ہمارے مذہبی حلقوں میں شہدائے نیوزی لینڈ کی بابت اظہارِ غم و تاسف سے زیادہ خوشی کا اظہار اس امر پر ہورہا ہے کہ ریاست نیوزی لینڈ نے ہم سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ تاثرِ افرنگ کے مارے ان مسلمانوں کا احساسِ کمتری پر مبنی یہ زاویہ فکر تشکیل پایا ہے کہ چلو کچھ بھی ہوا بالآخر بابو انگریز نے ہمیں گلے تو لگایا، ایک دن اذان تو دینے دی، پارلیمنٹ میں تلاوت تو کروادی، کچھ اموال و فلوس سے تو نواز دیا۔ یہاں تک کہ اب مغربی نیم برہنہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دے کر، تاثرِ افرنگ کا مارا یہ مغربی طبقہ ان کے نیم برہنہ اجسام کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر نشر کررہا ہے اور اس سب کو غلبہ اسلامی کے مظاہر سے تعبیر کیا جارہا ہے! یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ابھی کچھ عرصہ قبل بُش و اوباما مسلمانوں کو رمضان المبارک میں وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر پارٹی کرا رہے ہوتے تھے اور اسی وقت ان ہی کے حکم سے افغانستان کے مسلمانوں پر کارپٹ بمبنگ کے ذریعے آگ برسائی جارہی ہوتی تھی، اور مسلمانوں کا یہی ماڈرن طبقہ فکر وائٹ ہاؤس میں افطار کرلینے کو غلبہ اسلام پر محمول کررہا ہوتا تھا! سو بار تف ہے اس مغربی تصورِ مذہب پر، بقول اقبال مرحوم:

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

یہ وہ وقت تھا کہ جب مغرب سے ہماری تہذیبی کشمکش پوری قوت کے ساتھ آشکار ہوگئی تھی۔ ایسے میں ہمارے مذہبی طبقوں کو چاہیے تھا کہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے تہذیبی بیانیے کو واشگاف الفاظ میں بیان کرتے، لیکن ہوا وہی کہ جس کا خوف تھا کہ۔۔۔

یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا

یہ وقت درحقیقت وقتِ قیام تھا! اس وقت اِن یورپی طواغیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے ضمیر پر دستک دی جاتی اور ان سے چند اصولی نوعیت کے سوال کیے جاتے، مثلاً یہ سانحہ فرد کا فعل ہے یا تہذیبِ مغرب کے اجتماعی فلسفہ و نظریے کا اظہار ہے، جسے ہارورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن اپنی کتاب Clash of Civilizations میں بہت پہلے بیان کر چکا ہے، بالخصوص جبکہ آلہ قتل پر خود قاتل نے سلطنتِ عثمانیہ اور اس کے بعد کے تاریخی واقعات تک نقش کیے ہوئے ہوں؟ اس لعین قاتل نے اس کارروائی سے پہلے The Great Replacement کے نام سے 74صفحات پر اپنے فعل کا پورا نظریاتی و تہذیبی بیانیہ تحریر کیا ہے۔ اس کے بیانیہ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ مشہور مغربی سیاسی مفکر جان رالس (John Rawls) کا پیروکار ہے جس نے کہا تھا کہ جو لوگ مغرب کے تصور آزادی کے قائل نہیں ہیں انھیں اس زمین کے صفحہ ہستی سے ایسے مٹادیا جائے جیسے جراثیم کو مٹایا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ نمود پاتا ہے کہ اس قاتل کا یہ فعل، فعلِ محض ہے یا فکری جرم (Ideological crime) ہے؟ وہ فکر جو آج یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی ہے۔ پھر یہی قاتل مغربی فلاسفہ کے امام کانٹ (Immanuel Kant) کے نظریہ سفید فام پرستی کا بھی داعی ہے۔ مغرب میں سفید فام پرستی ایک سائنسی حقیقتِ واقعہ کے طور پر بھی تسلیم کی گئی ہے، جبھی مغربی مفکرین بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نظریہ ڈارون ایک سائنسی تھیوری ہونے سے زیادہ سیاسی فلسفہ تھا، اور سائنس کی آڑ میں یہ تاثر فکر و نظر کی دنیا میں قائم کرنے کی جسارت تھی کہ کالے یا گندمی رنگ کا انسان غیر مہذب و غیر ترقی یافتہ ہے، یہاں تک کہ وہ سفید ہوجائے۔ لہٰذا ہم (انگریز) ہند پر قبضہ کرنے نہیں جارہے بلکہ غیر مہذب اقوام کو تہذیب و ترقی کے مدارج طے کرانے جارہے ہیں۔ ایسے میں شدت سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ سائنس و فلسفہ کے نام پر اہلِ یورپ نے جو فساد فی الارض کا سامان مہیا کیا ہے جس کی کڑی سانحہ نیوزی لینڈ ہے، تعلیم کے نام پر تخریب کاری کے یہ نظریات فرد کے فعل تک محدود ہیں یا مغربی تصورِ علم کے غماز ہیں؟ قاتل بیٹرن ہیری سن نے بدھ کے دن ہی اپنے فیس بک پر اسلحہ کی نمائش کی تھی اور واقعہ سے پہلے ہی تحریری بیانیہ بھی گوگل پر پی ڈی ایف پر جاری کردیا تھا۔ تاہم اس لعین کو گرفتار نہیں کیا گیا، ایسے میں سزا کا مستحق صرف قاتل ہے یا مغربی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی مجرمانہ خاموشی (criminal negligence) کے سبب سزا کی مستحق ہے جو تاحال صرف مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف ہے؟ ان ظالم مغربی قوتوں سے یہ بھی سوال بنتا ہے کہ تم ہمارے ممالک سے سونا چاندی چوری کرکے گئے، یہاں تک کہ تمھاری حکومتوں نے ہماری معیشت کو کھوکھلا کرکے پیپر کرنسی کو رواج دیا، غربت کے مارے ہمارے لوگ جب تمہاری دہلیز پر پہنچے تو تمہارے سرمایہ دارانہ نظام نے انھیں ذلیل کیا۔ انھیں پاکی پاکی (Paki Paki) کہہ کر پکارا، ان سے ان کا خاندانی نظام چھین لیا گیا، ان پر مغربی اقدار کو مسلط کیا گیا، یہاں تک کہ ان سے یہ حق بھی چھین لیا گیا کہ وہ حاکمیتِ خداوندی کا ورلڈ ویو (World View) رکھیں۔ یوں تم نے اپنی حاکمیت کی وفاداری کے حلف تک ان سے لیے، حالانکہ نصِ قرآنی کی رو سے اور دیگر نصوصِ قرآنیہ کی رو سے بھی یہ توحید حاکمیت سے انحراف تھا۔
ترجمہ:”کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس چیز پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی، وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ شیطان سے کرائیں، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں، اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور لے جائے۔“ (النساء:60)
جبھی امام یوسف الدجوی المالکی اور امام حرم علامہ سبیل الحنبلی نے ان یورپی حلف ناموں کو ”ایمان بطاغوت“، امام حسن البناء نے ”اکبر الکبائر“ اور محدث و محقق شام امام بوطی شہید نے ”عقیدہ موالات“ سے انحراف قرار دیا۔ چنانچہ ان سے ان کا عقیدہ، تہذیب، معاش چھیننے کے بعد بھی اور ان سے ان کا ورلڈویو کا حق سیکولر حلف ناموں کے اقرار کے نتیجے میں چھیننے کے بعد بھی تمہاری تہذیب نے انھیں تھرڈ ورلڈ سٹیزن ہی کا خطاب دیا، اور اس سب کے بعد بھی جب وہ اپنے رب کے حضور جھکے تو تمہارے ہی تہذیب شناسا فرد نے تمہارے ہی تصورِ قومیت کو نظریاتی اساس بناتے ہوئے انھیں Immigrant invaders قرار دے کر شہید کردیا، یا اسفا! آج یورپی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی شناخت تہذیب (Identity Crisis) کے مفقود ہو جانے کے سبب ڈپریشن کی مریض بن چکی ہے۔ پس ایسے میں ہمیں تمہاری کسی عزت افزائی و ہمدردی کی حاجت نہیں، ہمیں تم بس یہ بتاؤ کہ ہمارے ممالک سے ہمارا لوٹا ہوا مال اور ہمارا حق یورپی اقوام کب واپس کررہی ہیں؟ تاکہ ہم تمہاری نظریاتی، قانونی، تہذیبی اور معاشی غلامی سے نکل کر اپنے اقبالی تصورِ خودی کے تحت عزت کی زندگی جی سکیں۔ اس وقت پورا مغرب الکفر ملۃ واحدۃ کے مصداق سرمایہ دارانہ نظام و مغربی ریاستی قوم پرستی پر مجتمع ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امریکہ میں اس شخص کو انتخابات لڑنے کی اجازت ملتی ہے جو Manifest Destiny کا حلف اٹھائے۔ اس حلف کی رو سے امریکہ کا امریکہ کی سرحدوں سے نکل کر دیگر اوطان پر قبضہ کرنا، ایک متعین و معلوم نظریاتی ہدف ہے۔ نیز یہ معلوم ہے کہ حالیہ صلیبی جنگ میں نیوزی لینڈ امریکہ کا مضبوط اتحادی تھا۔ ایسے میں سانحہ نیوزی لینڈ پر وہاں کے لادین حکمران اگر واقعی امت مسلمہ کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں اور ادھر طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکہ کا مؤقف بھی بدل گیا ہے تو کیا نیوزی لینڈ کی حکومت عالم اسلام کے سامنے اس امریکہ کی سرپرستی میں امتِ محمدیہ کے قتلِ عام پر معافی مانگے گی، یا صرف سانحہ نیوزی لینڈ ہی پر مگرمچھ کے آنسو بہائے گی؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تم ہمارے قاتل کو کب قتل کی سزا سنا رہے ہو؟ یہ دلیل نہیں چلنے والی کہ یورپ میں موت کی سزا نہیں۔ ایمل کاسی کو کس قانون کی رو سے موت کا انجکشن لگایا گیا تھا؟ گوانتانامو بے کے پاک بازوں کو کس قانون کی رو سے موت کے گھاٹ اتارا گیا؟ غازی اسلام ممتاز قادری کو سزائے موت دینے کے لیے ساری یورپی طاقتیں کیوں ڈٹی رہیں؟ اسامہ کو یورپ سے امریکی جہاز پاکستان آکر کس قانون کی رو سے قتل کرتا ہے؟ ہزاروں ریڈ انڈین کا قتلِ ناحق کرکے کس قانون کی رو سے اس پر ریاست امریکہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے؟ غرض یہ کہ اس بابت بہت سے دلائل دئیے جاسکتے ہیں۔
مرکزی خیال و خامہ:پس جب تک اقوام افرنگ ہمارے ان بنیادی یعنی اصولی، قانونی اور تہذیبی سوالات کا جواب نہیں دیتیں اُس وقت تک ان کی خیرسگالی یا ہمدردی کا تاثر مگرمچھ کے آنسو سے زیادہ ”تاثر“ کا حامل نہیں، اور اصطلاحی زبان میں social condolence in political context کی ”حیثیت“ سے زیادہ حامل نہ ہوگا۔ یہ ناٹک امریکہ بھی روز کرتا ہے فلسطینیوں کی شہادت پر، یعنی وہ مظلوم فلسطینیوں پر تو بعض اوقات اظہار تاسف کردیتا ہے، لیکن صہیونی نظریہ (Zionism) جو اس قتل و ظلم کی اساس ہے اس کی مذمت نہیں کرتا! یہی مطالبہ ہمارا ان اربابِ نیوزی لینڈ سے ہے کہ وہ قتلِ عام و فساد فی الارض کے اس مغربی نظریہ تہذیب کی بھی مذمت بلکہ اس سے اعلانِ برات کریں! وہ نظریہ جو معصوم پُرامن نمازیوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے بھی نہیں چوکتا! بہرکیف جواب تو سرمائے کے یہ غلام کیا ہی دیں گے، اہلِ نظر جانتے ہی ہیں تہذیب مغرب کا مبادیاتی سانچہ ہی سراپا فساد ہے، گویا کہ

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
یورپ کے دعوتی حلقوں سے مخلصانہ گزارش

سانحہ نیوزی لینڈ کے اس تہذیبی تصادم کے موقع پر لوگوں کی ایک اچھی تعداد نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس سے پہلے افغانستان کے خلاف امریکہ کا اعلانِ جنگ ہو یا حجاب پر پابندی کا فیصلہ، تہذیبی تصادم کے یہ وہ لینڈ مارکس ہیں جن کے تناظر میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ زاویہ یورپ کے ماڈرن دعوتی طبقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دعوتِ اسلام کی تاثیر سے آپ لوگوں کی دعوت کیوں خالی ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کی دعوت تہذیبی اسلام کی دعوت نہیں بلکہ تہذیب کو مشرقی ملائیت قرار دینے کے سبب اور اسلام کو مغربی تہذیب کے پس منظر میں بیان کرنے کے نتیجے میں آپ کی دعوت ”مغربی اسلام“ کی دعوت قرار پائی ہے! جبھی ڈاکٹر یاسر قاضی ہوں یا ڈاکٹر طارق رمضان، یا پروفیسر حمزہ یوسف یا دیگر مغربی داعی۔۔۔۔۔ یہ سب حضرات اسلام کو مغربی تہذیب سے برآمد ہونے والے نظریات کے تحت بیان کرتے ہیں۔ مثلاً، نظریہ تکثیر حق (Pluralistic Approach)، نظریہ تقارب ادیان (Interfaith dialogue)، نظریہ بقائے باہمی (Coexistence) وغیرہ وغیرہ۔ مغربی تہذیب سے برآمد ہونے والے یہ تمام تصورات، مذہب کو مغرب کے مخصوص لبرل تصورِ مذہب کے تناظر میں بیان و متعین کرتے ہیں۔ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب مذہب کو عنوانِ حق و باطل کے تحت نہیں برتتی بلکہ فرد کی پسند و ناپسند کی پروڈکٹ کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یوں مذہب سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف نہیں، آلہ کار قرار پاتا ہے، کیونکہ اس نظام کے تحت فرد کی مذہب سے وابستگی آلاتی (Instrumental) اور سرمایہ دارانہ نظام سے وابستگی نظریاتی (Ideological) ہوجاتی ہے، فتدبر!! چنانچہ اسی مغربی تصورِ اسلام کو خود یورپی یونین کمیشن کی رپورٹ Eurislam سے تعبیر کرتی ہے، اسی کو جدید مغربی مفکرین Protestant Islam یا American Islam سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
پس ایسے میں مادہ پرستی سے تنگ مغربی اقوام کے لیے اس مغربی اسلام میں جاذبیت نہیں رہی، یہاں تک کہ تہذیبی تصادم کے نتیجے میں وہ اصل روحانی تہذیبی اسلام کی مہک ان تک پہنچتی ہے تو وہ لپک کر صدائے فطرت پر لبیک کہتے ہیں۔ اس لیے دعوتِ اسلام کے اس ماڈرن طبقہ فکر کو ہمارا یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے تناظر میں مغربی اسلام پیش کرنے کے بجائے تہذیبی اسلام، تہذیبِ اسلامی کی اساس پر پیش کریں! یہ مغربی تحریف سے پاک حقیقی اسلام ہے۔ آپ اعلان کردیں کہ ہمارا افکارِ مغرب سے اختلاف اصولی، اعتقادی اور تہذیبی ہے۔ آپ لوگ دجالی تہذیب کی دجالی جنت کو آگ کا انگارہ ہی قرار دیں، نہ کہ یورپ کو دارالامان قرار دے کر اس کو مثالی تصور کریں۔ یورپ کس قدر بڑا دارالامان ہے اس دعوے کا پانی بھی اس زیر بحث واقعہ نے مار دیا ہے۔ دعوت تہذیبِ اسلامی کا یہی منہج ملتِ ابراہیم کا ہے، جس میں صرف کفار کے کفر ہی سے نہیں بلکہ خود اس کافرانہ تہذیب کے حاملین یعنی ملتِ کفر سے بھی برات کی جاتی ہے۔ قرآن مجید اس تہذیبی اسلوبِ دعوت کو باقاعدہ بیان کرتا ہے:ترجمہ: ”بےشک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے اصحاب میں، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا: بےشک ہم بیزار ہیں تم سے اور اُن سے جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ ہم تمہارے منکر ہوئے اور ہم میں اور تم میں دشمنی اور عداوت ظاہر ہوگئی ہمیشہ کے لیے جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ!“(سورة الممتحنة : 4)
اس آیت ِمبارکہ میں یہ نکتہ بھی محلِ تدبر ہے کہ کفار کے کفر سے پہلے اس آیت میں خود حاملینِ تہذیبِ کفر یعنی ملتِ کفر سے اعلانِ برات کا تذکرہ ہوا، اور پھر کس ٹھیٹھ ایمانی اسلوب میں عقائدِ کفریہ و ملت ِکفر (تہذیب ِکفر) دونوں ہی سے اعلانِ بغض و عداوت کیا گیا ہے، سبحان اللہ!
خلاصہ کلام :نیوزی لینڈ کا یہ واقعہ حادثہِ محض نہیں جیسا کہ عالمی لبرل میڈیا تاثر دے رہا ہے، بلکہ عرصہ دراز سے جاری تہذیبی تصادم کا یہ مظہر اتم ہے۔ اس حقیقت کی تصریح خود یہ قاتل اپنی کتاب میں کرتا ہے، ملاحظہ ہو:
“Why did you target those people? They were an obvious, visible and large group of invaders from a culture with higher fertility rates, higher social trust and strong, robust traditions…..”
(The Great Replacement, Pg. 10(
”تم نے ان لوگوں کو نشانہ کیوں بنایا؟ یہ تو واضح سی نظر آنے والی بات ہے کہ ہمارے ممالک میں حملہ آوروں کا ایک ایسا بڑا ہجوم داخل ہوتا ہے، جس کا تعلق ایسی تہذیب سے ہے جس کی شرح پیدائش بہت بلند ہے، اعلیٰ سماجی اعتماد ان کو حاصل ہے اور وہ قوی تہذیب و روایات کے حامل ہیں!“
پس ایسے میں امت مسلمہ کے ہر ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ تہذیبی تصادم کے اس معرکہ حق و باطل میں اپنا اپنا محاذ سنبھالے۔ تہذیبِ افرنگ جو ہمارے معاشروں پر مسلط کی گئی ہے اس کا ہر سمت سے مقابلہ کیا جائے، تہذیبِ اسلامی کی عصبیت کو پوری شدت کے ساتھ عام کیا جائے، تہذیبِ افرنگ کو پوری قوت کے ساتھ رد کیا جائے۔ مغربی تہذیب کی سیاسی علامات، لباسی علامات، معاشی علامات، سرمایہ دارانہ علامات، قانونی علامات، قومی علامات پر تہذیبِ اسلامی کے نشتر چلائے جائیں۔ آج سانحہ نیوزی لینڈ سے ہمارے قلوب غمزدہ ہیں، لیکن اس کا تدارک کسی گوری چمڑی والے کی مسکراہٹ سے نہیں ہونے والا،بلکہ کفار سے تہذیبی تصادم ہی اس کی واحد راہِ نجات ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید نے ملتِ اسلامیہ و ملتِ کفر کے اس تہذیبی تصادم کے پس منظر کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس میں امت آزمائی جائے گی، قربانیاں دی جائیں گی، استقامت اختیار کرنا پڑے گی اور پھر یہ غمزدہ قلوب اسی معرکہ حق و باطل کے ذریعے راحت پائیں گے! ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”تم ان سے لڑو، اللہ انہیں عذاب دے گا تمہارے ہاتھوں، اور انہیں رسوا کرے گا، اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کے قلوب ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دلوں کی گھٹن (جلن وغصہ) دور فرمائے گا، اور اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی چھوڑ دئیے جاؤ گے، اور ابھی اللہ نے پہچان نہ کرائی ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا محرم راز نہ بنائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔“ (سورۃ التوبة : 14 تا 16)
پس خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ اس معرکہ حق و باطل میں ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہمیں اس طائفہ حقہ میں شامل کرے جو تہذیبوں کے اس تصادم میں اہلِ زمانہ سے مفاہمت اختیار نہیں کرے گا، یہاں تک کہ لشکرِ امام مہدی سے جا ملے اور یوں حق کا اس جہاں میں پھر سے بول بالا ہو۔

عجب اک شان سے دربارِ حق میں سرخرو ٹھہرے
جو دنیا کے کٹہروں میں عدو کے روبرو ٹھہرے
بھرے گلشن میں جن پہ انگلیاں اٹھیں وہی غنچے
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے
اڑا کر لے گئی جنت کی خوشبو جن کو گلشن سے
انہی پھولوں کا مسکن کیوں ناں دل کی آرزو ٹھہرے