ڈیل کرنے والے یہ افراد یا ادارے آخر ہیں کون؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟
معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار ابراہیم کنبھر نے بروز منگل 7 مئی 2019ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
………٭٭٭………
’’ملک میں نوازلیگ سے ڈیل ہوجانے سے متعلق خبریں گردش میں ہیں۔ شہبازشریف کی لندن روانگی، پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے دست برداری، رانا تنویرکو اسمبلی کی بڑی کمیٹی کی سربراہی کے لیے نامزد کرنا، سیاسی سرگرمیوں کو معطل کرنے سمیت شہبازشریف کی اس پراسرار قسم کی گمشدگی اور خاموشی نے اس تاثر کو مزید تقویت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ شہبازشریف کا تو یہ بیان بھی آیا ہے کہ اب وطن واپسی اُسی وقت ہوگی جب میری صحت اس کی اجازت دے گی۔ یکے بعد دیگرے عدالتی ریلیف حاصل کرنا، اپنے بیٹے حمزہ شہباز کی کافی معاملات سے گلوخلاصی کروانا، اور دیگر کئی سہولیات لینے کے بعد شہبازشریف کا اس طرح سے ملک سے باہر چلے جانا لوگوں کے اس خیال کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے کہ واقعی نواز لیگ کی قیادت ’’ڈیل‘‘کرچکی ہے۔
نواز لیگ ہو یا پھر پیپلزپارٹی، ان پارٹیوں نے ہمیشہ ڈیل یا این آر او کو خوش آمدید کہا ہے۔ لیکن دو تین چیزیں سمجھنا ضروری ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں کس سے ڈیل کرتی ہیں؟ یا سیاسی جماعتوں سے ڈیل کرنے والے کون سے طاقتور (حلقے) ہیں؟ یہ ڈیلز یا این آر او کرنے کی آخر ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ این آر او کرنے والے غیرسیاسی عناصر اپنے گند کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سیاسی پارٹیاں گھٹن کے ماحول سے نکل کر کچھ ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ یہ ہوتا رہا ہے کہ اس قسم کی غیر آئینی، غیراخلاقی، غیرسماجی، غیرقانونی ڈیلز سے قبل سیاسی پارٹیوں کو خوب خجل خوار کیا جاتا ہے۔ اپنے من پسند ’’ہیروز‘‘ کو آگے لانے کے لیے ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کی کردارکشی کے لیے مہم چلائی جاتی ہے۔ ان پر سختیاں کی جاتی ہیں۔ ان کا میڈیا ٹرائل کرکے اور جھوٹے ’’بیانیے‘‘ تیار کرکے، اور بذریعہ الزام تراشی جھوٹے کیسوں کی بنیاد پر جیل میں ڈال کر انہیں غیر مرئی قوتوں کے سامنے جھکنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ قصہ کچھ آج کا نہیں ہے۔ اگرتلہ سازش کیس، حیدرآباد ٹریبونل، سیکورٹی رسک، غدار غدار کے الزامات کے تحت ہر وقت کوئی نہ کوئی سیاسی قوت دبائو کا شکار رہی ہے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی، اور کبھی کبھار تو دو تین سیاسی پارٹیوں کی قیادت نشانے پر ہوتی ہے، لیکن وقت کی گردش کے ساتھ وہ پھر ان کی نظروں میں پاک صاف بھی ہوجاتی ہے اور اقتداری کرسی کی شان و شوکت بن جاتی ہے۔ حب الوطنی یا غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والے یہ افراد یا ادارے آخر ہیں کون؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی اس روش نے ملک کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچایا ہے؟ اس کا تعین ہونا چاہیے۔
قصہ نواز لیگ کی ڈیل یا این آر او لینے کا چل رہا ہے۔ اگر نوازشریف کی ضمانت میں سپریم کورٹ توسیع کرتی تو یہ یقینی سمجھ لیا جاتا کہ ڈیل ہوچکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ نوازشریف کو کچھ وقت کے اندر عدالتوں ہی سے ریلیف مل جائے، وہ علاج کروانے کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں۔ اس کے لیے نوازلیگ اپنی تنظیم سازی بھی کرچکی ہے، اور ممکن ہے کہ اس تنظیم سازی کے پسِ پردہ بھی کوئی ایجنڈا کارفرما ہو۔ نوازشریف کو یہ اندازہ ہوچکا ہو کہ کہیں صرف میری وجہ سے ہی پارٹی ختم نہ ہوجائے۔ کل کلاں کو میں موجود ہوں یا نہ ہوں، میری پارٹی تو قائم اور موجود رہے۔ نوازشریف کی ڈیل کو تسلیم کر بھی لیا جاتا، لیکن دو تین باتیں ایسی ہوئی ہیں اِس وقت، جس کی بنا پر نوازشریف سے حکومت بلکہ بااختیار مقتدر حلقوں کی ڈیل کے اس تمام مجموعی تاثر کو زک پہنچتی ہے (اور جس نے اس سارے تاثر کو رد کردیا ہے)۔ سپریم کورٹ سے نوازشریف کی ضمانت میں اضافے کی نظرثانی پر مبنی درخواست کا خارج ہونا، مریم نوازکی وہ ٹویٹ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قوم نوازشریف پر اعتبار کرے، نواز لیگ کی پارٹی کی تشکیل میں نواز لیگ کے ہم خیال افراد کو اہم عہدوں کا ملنا، شہبازشریف کا ملک سے باہر چلے جانا، اور اس سے بھی کہیں بڑی دلیل چودھری نثار کا پارٹی کو الوداع کہنا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ان سب معاملات کے ہوتے ہوئے نوازشریف کے ساتھ کوئی بھی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ انہیں ایک سو مرتبہ ڈیل کی پیشکش ہوچکی ہے۔ شرائط ان کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ ایک سو میں سے 95 شرائط نوازشریف کی مرضی سے طے کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ تو تصدیق شدہ حلقوں کی خبر ہے کہ ڈیل کروانے کے لیے شہبازشریف سرگرم عمل رہے ہیں۔ سیاستکتنی بے رحم حقیقت ہے کہ نوازشریف کو توڑنے، جھکانے اور کمزور کرنے کے لیے صرف اُن کے بھائی کو ہی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس بھائی کے ذریعے ان کی ضعیف العمر والدہ کو بھی استعمال کیا گیا۔ اس مضمون کو پڑھنے تک میاں نوازشریف چھے ہفتوں کی ضمانت کی معیاد مکمل ہونے پر جیل میں واپس جاچکے ہوں گے۔ 26 مارچ کو سپریم کورٹ نے طبی بنیادوں پرمیاں نوازشریف کو چھے ہفتوں کی ضمانت دی تھی، جس کی معیاد اب ختم ہوچکی ہے۔ (اور میاں نوازشریف دوبار جیل جا چکے ہیں۔ مترجم)۔ اس لیے اب یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف یا شہبازشریف کے ساتھ ڈیل دو الگ الگ افواہیں ہیں۔ شہبازشریف تو اپنے بھائی کی نااہلی کے بعد سے نوازشریف کے نہیں بلکہ بڑے بھائیوں کے بھائی رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں بڑے بنگلے میں دورانِ حراست بھی ایسے غیر سیاسی افراد سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، جنہیں ان کی اپنی پارٹی کی قیادت بھی نہیں پہچانتی، بلکہ انہوں نے تو اپنی پارٹی کے رہنمائوں سے بھی یہ کہا تھا کہ آپ جن کے خلاف بولتے ہیں بے شک بولیں، میں محض عمران خان تک ہی محدود رہوں گا۔ آگے چل کر ضمانت ملنے کے بعد انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت پر بھی تنقید کرنے سے انکار کردیا، بلکہ موصوف پارلیمنٹ میں تشریف لانے سے پہلے ہی دست بردار ہوگئے۔ موجودہ قومی اسمبلی وہ اسمبلی ہے، جس میں قائدِ ایوان کے بعد قائدِ حزبِ اختلاف بھی گم شدہ ہوچکے ہیں۔ حالیہ ڈیل والے قصے سے بھی لگتا ہے کہ شہبازشریف کی خواہش پوری ہوچکی ہے۔ شہبازشریف تو نواز لیگ میں اس دھڑے کے آدمی رہے ہیں جس کے ایک اہم مخالف رائے کے حامل چودھری نثار ہیں۔ ان دونوں کا مؤقف روزِ اوّل ہی سے نوازشریف سے متضاد رہا ہے، بلکہ یہ دونوں حضرات پہلے دن سے ہی نوازشریف کو پنڈی کی سمت (مراد جی ایچ کیو) دھکیلتے رہے ہیں۔ جب کہ دوسرے دھڑے میں مریم نواز، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، پرویز رشید، مشاہد اللہ خان سمیت کچھ دیگر بھی ہیں۔ پارٹی کی تشکیل کسی بھی پارٹی کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ نوازشریف کسی عدالتی فورم سے ریلیف لے کر باہر چلے جائیں، وہ کچھ عرصے کے لیے ملک میں واپس بھی نہ آئیں، لیکن نوازشریف اگر ڈیل کے لیے راضی ہوجاتے تو شہبازشریف اس طور طریقے سے باہر نہ چلے جاتے اور نہ ہی چودھری نثار پارٹی سے الگ ہوتے۔ ان دونوں ہم خیالوں کی جانب سے نوازشریف سے الگ ہوجانے سے یہی لگتا ہے کہ نوازشریف اس ڈیل کو قبول نہیں کررہے، جس کی انہیں پیشکش کی جارہی ہے۔
نوازشریف پر سخت دن آئے ہوئے ہیں، اور ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ایام ان کے منتظر ہوں۔ لیکن ان کا زوال اُس دن سے شروع ہوا، جب وزارتِ عظمیٰ جانے کے بعد نوازشریف کی سیاسی نااہلی کے باعث پارٹی صدارت کا ہما شہبازشریف کے سر پرآبیٹھا۔ اس کے پیچھے بھی نوازشریف کی سیاسی مجبوری سے زیادہ خاندانی مجبوری تھی۔ نوازلیگ کوئی ایسی سیاسی منظم مارکسی پارٹی تو ہے نہیں جس میں نوازشریف کی جگہ پر کسی بھی شخص کو صدر یا سربراہ مقرر کردیا جاتا، اور اس طرح سے سیاسی سمندر میں یہ سیاسی کشتی تیرنے لگ جاتی۔
دوسرا یہ کہ اس سارے خطے میں سیاسی قیادت کا سیاسی ورثے کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔ لیکن اس وقت کی صورت حال میں بھی نوازشریف اور شہبازشریف کا کیس الگ الگ ہے۔ شہبازشریف اس وقت پاکستانی سرزمین کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اُن کے بیٹے کا نام بھی ای سی ایل سے نکل چکا ہے اور ان پر سے نیب کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ پارٹی کے صدر کے طور پر شہبازشریف خود کو موجودہ فیصلوں کی بنیاد پر کئی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرچکے ہیں۔ دوسری طرف نوازشریف جو بیمار بھی ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت بھی ہے، ذاتی طور پر کئی صدمات سے دوچار بھی ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ خاموش ہیں لیکن پھر بھی زیرعتاب ہیں۔ نوازلیگ اپنے خوف، مجبوری، بے بسی اور شہبازشریف اور چودھری نثار جیسوں کے باعث اس کنارے پر آن پہنچی ہے جہاں سے واپسی کے لیے اب محض بہتر وقت کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں پر اس قسم کے دن آتے رہے ہیں، نوازلیگ نے پرویزمشرف کے دنوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی تو 90ء کی دہائی یا پھر پرویزمشرف کے دور اقتدار میں اس سے بھی زیادہ برے دن دیکھ چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی ایک وقت میں اپنے پہلو سے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز نامی تنظیم بنانی پڑ گئی تھی۔ یہ سیاسی حکمت عملیاں ہوا کرتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں سختی کے ایام میں یہ حکمت عملیاں تشکیل دیتی آئی ہیں اور دیتی رہتی ہیں تاکہ وہ مشکل حالات سے نکل سکیں۔ اگر پارٹیاں ہی باقی نہ رہیں تو وہ آنے والے بہتر وقت میں کس طرح سے چل پائیں گی اور اپنا کردار نبھا سکیں گی! اصل ٹارگٹ کل بھی نوازشریف تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ شہبازشریف تو کل بھی مزے میں تھے، آج بھی مزے میں ہیں۔ نوازشریف کو محض اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈالنا ہی مقصد نہیں تھا، بلکہ اُن کی قیادت میں کام کرنے والی اس پارٹی کا ’’کریا کرم‘‘ کرنا مطلوب تھا، لیکن ان ساری کوششوں کے باوصف نوازلیگ آج بھی موجود ہے۔
نواز لیگ کے خلاف عام الیکشن سے قبل، دورانِ الیکشن یا بعد از انتخاب جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے باوجود اسٹریٹ پاور نہ رکھنے والی یہ پارٹی ابھی تک موجود ہے۔ شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان کی موجودگی کے باوجود نوازلیگ تاحال اپنے منتخب نمائندوں کو اپنے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ پنجاب میں ایک ایم پی اے بھی حکومت کے ساتھ نہیں گیا ہے۔ جس شہبازشریف کے لیے پیپلزپارٹی نے ایم ایم اے سمیت ساری اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ ٹکر لے کر انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنوایا اُسی شہبازشریف نے اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ ساری اپوزیشن کو بھی اپنی اصلیت دکھا کر تحریک انصاف کے اس مؤقف کو سچ ثابت کردکھایا ہے کہ کسی ملزم کو احتساب کے فورم کا سربراہ نہیں بنایا جا سکتا۔
ملک کے وزیراعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی سے ڈیل کریں گے اور نہ ہی این آر او، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرسی بھلے سے چھن جائے لیکن وہ این آر او نہیں کریں گے۔ کتنے سادہ ہیں وزیراعظم! انہیں خبر ہی نہیں ہے کہ ملک کے قیام سے لے کر ہمارے ہاں این آر او ہوتے رہے ہیں۔ اس ملک کے وزیراعظم کو کون یہ سمجھائے کہ یہاں سیاسی حکومتوں نے کبھی کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ نہ این آر او اور نہ ہی کوئی ڈیل کی ہے، اور نہ ہی انہیں اس طرح سے کرنے کا کوئی اختیار حاصل ہے۔ ان کا کردار سہولت پیدا کرنے اور کچھ ڈھیل دینے تک ہوسکتا ہے۔ باقی سارے معاملات ’’اوپر‘‘ طے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحریک انصاف وزارتوں کی تبدیلی کے بعد اب وہ تحریک انصاف نہیں رہی ہے۔ وہ اب خود ایک ایسے این آر او کا شکار ہوچکی ہے، جس کی میعاد آج ختم ہو یا کل ختم ہوجائے۔ وزیراعظم نے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھنے والی وزارتِ خزانہ پر ایک ایسے شخص کو لا بٹھایا ہے، جو خود اُن کے بقول ماضی میں ملک کو بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا چکا ہے۔ جب کسی وزیراعظم کو دو الگ الگ فہرستیں دے کر کہا جائے کہ ان وزراء کو ہٹانا ہے اور ان کی جگہ پر اِن کو مقررکرنا ہے۔ جو وزیراعظم اپنی کابینہ میں اپنے وفاداروں کو نہیں رکھ سکتا، اُس کے پاس کسی ڈیل یا این آر او کا اختیار بھلا کس طرح سے ہوسکتا ہے؟ اس لیے جب کسی کو این ار او کرنا، یا ڈیل کرنی ہوگی تو وہ وزیراعظم سے اس کے بارے میں پوچھیں گے بھی نہیں۔ اب تک نوازشریف کو جتنی بھی پیشکشیں ہوئی ہیں، ان میں بھی تو عمران خان کی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ بھلا شہبازشریف کن شرائط پر بیرونِ ملک گئے ہیں، یا کن سے وہ اپنے معاملات طے کرکے گئے ہیں؟ کلاں کلاں کو اگر نوازشریف کے ساتھ بھی کوئی ڈیل ہوئی تب بھی وزیراعظم صاحب کو خبر نہیں پڑے گی۔ انہیںکرسی چاہیے۔ اب نہ کابینہ میں ان کا حصہ ہے، نہ اسٹیٹ بینک سے کوئی تعلق، اور نہ ہی ایف بی آر کے معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘