سینیٹ میں قراردا دکی منظوری بہت مستحسن، لیکن….؟
ڈاکٹر معین الدین عقیل
گزشتہ دنوں سینیٹ میں سینیٹر سراج الحق کی قرارداد پر مقابلے کے امتحانات اردو زبان میں لیے جانے کے حوالے سےایوان نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے بعدبالآخر قومی زبان کے نفاذ کی آرزو اور خواہش رکھنے والوں اور اس کے نتیجے میں قوم اور ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی کرتا ہوا دیکھنے کے دل دادہ لوگوں کی ایک دیرینہ تمنا اس حد تک تو پوری ہونے کے امکانات روشن ہوئے ہیں کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لیے منعقد ہونے والے امتحانات اب اردو میں بھی لیے جانے، یا امتحانی سوالات کے جوابات اردو میں بھی دینے کی اجازت شاید مل جائے گی۔ ’’شاید‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کرنا مناسب ہے کہ قبل ازیں قومی زبان کے نفاذ کے اصولی اور قانونی فیصلے متعدد بار ہوچکے ہیں، لیکن ان فیصلوں کے باوجود اور اس ضمن میں چار سال قبل سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی متعلقہ محکموں یا نوکر شاہی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی پروا نہ کی، اور ان احکامات کو حیلے بہانوں سے تعطل کا شکار رکھا، اور جو آج بھی تعطل ہی کا شکار ہیں۔ بلکہ اب تو شاید ذمے دار محکموں اور اُن کے افسران کو یاد بھی نہ رہا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے قومی زبان کے نفاذ کے بارے میں انھیںکیا حکم دیا تھا، اور اس کے نفاذ کے ضمن میں ان کا کیا کردار ہونا چاہیے تھا؟ یہ صورتِ حال پچھلی حکومت کے دور میں تھی لیکن اب موجودہ حکومت، جو’’ریاست مدینہ‘‘ کے طرز کی مملکت قائم کرنے کے خواب دکھا رہی ہے، اسے تو قومی زبان یا اس کے نفاذ سے کوئی دل چسپی ہی نہیں لگتی کہ کبھی بھولے سے بھی وہ یا اس کے کسی وزیر کو قومی زبان کے نفاذ کی ذمے داری یا اس ضمن میں سپریم کورٹ کے احکامات کا کوئی پاس یا لحاظ ہو۔
اگرچہ پچھلے عہدِ حکومت میں عدالت ِ عظمیٰ نے آئین ِ پاکستان کے نفاذ کی تکمیل کے مقصد سے ملک میں ۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعہ ۲۵۱ (۱) کے نفاذ کے لیے حکومت ِ پاکستان کو واضح احکامات دے کر اپنا وہ فرض ادا کردیا جو اب تک اس مناسب و مؤثرصورت میں قبل ازیں کسی عدالت سے ادا نہ ہوسکا تھا۔ جب کہ اس وقت تک کسی بھی حکومت نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہ تھا تو وہ عمل کیاکرتیں اور ملک و قوم کو قومی زبان کے نفاذ کے فوائد اور برکتوں سے کیا نوازتیں! اس ضمن میں آئینِ پاکستان کی دی ہوئی رعایت کی پندرہ سالہ مدت ۱۹۸۸ء میں گزرگئی، مگر کسی حکومت کو اور نہ کسی سیاسی جماعت کو اپنے دورِ اقتدار میں اس کا احساس ہوا، سوائے ایک ’’آمر‘‘ ضیاالحق کے، جس نے ملک کی پوری تاریخ میں آئین کی اس شق کے نفاذ کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوششیں کیں اور ضروری اقدامات بھی کیے، اور اسے بہ حیثیت ذریعہ ٔ تعلیم اور بطور دفتری زبان نافذ کرنے کی ضرورت کو محسوس بھی کیا اور ہر دو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔ سابقہ حکومتوں نے اردو کی ترقی کے لیے چند ادارے ضرور قائم کیے، لیکن کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کیا جسے اردو زبان یا ادب کی ترقی سے بڑھ کر اردو کے نفاذ یا اس کی ترویج کا کام سپرد ہوا ہو، جیسا ضیاالحق نے اپنے دور ِ حکومت کے دوسرے ہی سال’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ قائم کرکے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل ِ قدر کام کیا، اور اس کو زیادہ سے زیادہ فعال و خودمختار بنانے کے لیے اس کی تشکیل و کارکردگی کے اعتبار سے اسے کسی وزارت کے ماتحت نہیں بلکہ راست صدر ِ مملکت کے ماتحت رکھا تھا، تاکہ وہ اپنی سفارشات کو راست صدر مملکت سے منظور کرواکے نفاذ کے قابل بنادے۔ ضیاالحق نے ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کو فروری ۱۹۸۱ء میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایسی سفارشات مرتب کرے کہ مرحلہ وار قومی زبان سرکاری و دفتری معاملات میں رائج ہوسکے۔ چناں چہ مقتدرہ نے ہنگامی بنیادوں پر فوراً ہی ایسی سفارشات مرتب کرکے پیش کردیں کہ تین سال کی مدت میں اردو بتدریج ہر سطح پر رائج ہوجاتی (راقم الحروف اُس زمانے میں مقتدرہ سے کئی حیثیتوں سے منسلک تھا اور ان مراحل کی ترتیب کا ایک راست اور چشم دید گواہ بھی تھا)۔ ان سفارشات کو کابینہ ڈویژن کے اجلاس منعقدہ ۳۱ ؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو تمام صوبائی حکومتوں، ڈویژنوں اور وزارتوں کے نمائندوں نے اصولاً منظور بھی کرلیا اور یہ توقع پیدا ہوگئی کہ ان سفارشات کو اسی سال کابینہ کے سامنے پیش کرکے منظور کرا لیا جائے گا، اور یوں ۱۹۸۴ء میں قومی زبان ان سفارشات کے مطابق نافذ کردی جائے گی۔ لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ نوکر شاہی نے یہ سفارشات دو سال تک کابینہ کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ ہونے دیں۔ بصورتِ مجبوری و اصرار بالآخر یہ ایک ایسے عاجلانہ اجلاس میں پیش کی گئیں جب صدر مملکت بیرون ِ ملک روانہ ہونے والے تھے، اُن کے پاس وقت کم تھا، چناں چہ صرف چند شقوں پرگفتگو ہوسکی تھی کہ اجلاس ختم ہوگیا، اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد خود ضیاالحق کا دور بھی ختم ہوا۔ اس کے بعد یہ سفارشات کبھی کابینہ میں پیش نہ کی گئیں، بلکہ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ضرورت کے تحت جب پچھلی حکومت کے دور میں ان سفارشات کو ایک بار تلاش کیا گیا تو متعلقہ دفتر میں دستیاب بھی نہ ہوئیں اور مقتدرہ کے دفتر سے منگوائی گئیں۔ یہ تھا ہماری مغرب زدہ انتظامیہ یا نوکر شاہی کا، یا بحیثیتِ مجموعی ہماری حکومت کا عمل!
ضیاالحق کو قومی تقاضوں کے تحت قومی زبان کے نفاذ سے اس حد تک دل چسپی تھی کہ مقتدرہ کی سفارشات کے ترتیب پانے کے عرصے ہی میں انھوں نے اپنے ماتحت اداروں کو ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنے معاملات زیادہ سے زیادہ قومی زبان میں انجام دیں، اور خود بھی ملکی و بین الاقوامی پُرتکلف تقریبات میں اردو کو استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے افسران کے اس احساس ِ کمتری کے لیے ایک مثال قائم کی کہ وہ انگریزی زبان پر انحصار چھوڑ دیں۔ انھوں نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی، چین اور کیوبا وغیرہ میں اردو زبان میں تقریریں کرکے اپنی قومی زبان کو صرف قومی نہیں، بین الاقوامی حیثیت بھی دے دی۔ بعد کے کسی جمہوری حکمران نے ایسا نہ کیا، بلکہ ۲۰۱۳ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس نے تو ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ ہی کو ختم کردیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! اسے ختم کرکے اردو کے ایک عام اور بے اثر سے ادبی ادارے کی حیثیت دے کر اسے ’ادارہ ٔ فروغ ِقومی زبان‘ کا نام دیا جیسے اس طرح کے متعدد اداروں کے ہونے کے باوجود اس کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی تھی! ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا خاتمہ دراصل پیپلز پارٹی کی ’’جمہوری‘‘ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ اسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تھا جس نے ماضی میں سندھ میں قومی زبان کو سرکاری سطح پر بلوچستان، صوبۂ سرحد اور پنجاب کی طرح… جنھوں نے کھلے دل سے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا… سرکاری زبان بننے نہ دیا تھا۔
اگرچہ ذاتی جذبے و احساس اور قومی تقاضوں سے مجبور ہوکر فرض ِ کفایہ ادا کرنے کے لیے لاہور کے محمد اسمٰعیل قریشی نے ۱۹۹۱ء میں، اور بعد میں اسلام آباد کے ایک شہری جناب کوکب اقبال خواجہ نے عدالت ِ عالیہ سے رجوع کرکے قومی زبان کے نفاذ کے لیے دہائی دی ہو اور عدالت ِ عالیہ نے حکومت کو قومی زبان نافذ کرنے کا واضح حکم دے دیا ہو، اور بالآخر حکومت عدالت ِ عالیہ کے حکم کو ماننے پرمجبور ہوئی ہو تو بھی حکومت کی جانب سے قومی زبان کے نفاذ کا معاملہ وعدے وعید تک ہی رہا! جو وعدے پچھلی حکومت نے عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے ۲۰۱۶ء میں ۵؍جون اور ۸؍ جولائی کے اجلاس میں کیے، اور پھر ۱۹؍ اگست کو یہ اعلان کیا کہ حکومت نے نفاذ اردو کے لیے مجلسیں (کمیٹیاں) قائم کردی ہیں جو ان اعلانات پر عمل کریں گی، جس پر عدالت ِ عالیہ نے برہمی کا بجا طور پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت کو کسی فیصلے یا حکم پر عمل کرنا منظور نہیں ہوتا تو وہ بلا ٹالنے کے لیے ایسی مجلسیں بنادیتی ہے تاکہ یہ مجلسیں منجمد اور مجہول رہیں اور معاملے کو طول دیتی رہیں تاآں کہ معاملہ رفت گزشت ہوجائے۔ کیوں کہ یہ ثابت ہے کہ ایسے وعدے ماضی میں ضیاالحق کے زمانے میں نوکر شاہی بار بارکرتی رہی ہے اور ضیاالحق کو اردو کے نفاذ کا یقین دلاتی رہی ہے لیکن عمل اور نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔
عدالت ِ عالیہ کے مذکورہ اقدام سے اس حد تک تو مثبت صورت ِ حال بظاہر سامنے آئی ہے کہ بالآخر پچھلی حکومت نے تازہ ملکی سیاسی حالات میں اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے، اور کچھ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے، مجبوراً اردو کو نافذ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں یقین دہانیاں کرانے ہی میں عافیت سمجھی تھی، اور بعض خوش گوار اعلانات بھی کردیے۔ واقعتاً یہ بظاہر اعلانات بھی، جن کی سنجیدگی حکومتوں کے سابقہ رویوں کو دیکھتے ہوئے مشکوک لگتی تھی لیکن پھر بھی قدرے اطمینان بخش تھی، مگرصورت حال قوم کے سامنے ہے۔ ان اعلانات کی رو سے اگرچہ سابق وزراء پابند رہے کہ وہ ملک اور بیرونِ ملک اپنی تقاریر اردو میں کریں گے، بیشتر قوانین کے تراجم اردو میں کردیے جائیں گے، سرکاری و انتظامی مجلسوں کے اجلاس کی کارروائیاں اردو میں ہوں گی اور ان کا ایجنڈا اور رودادیں بھی اردو میں جاری ہوں گی۔ ان فیصلوں کے تحت ملازمتوں کے سولہویں گریڈ تک تمام امتحانات اردو میں ہوں گے۔ صوبوں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اردو کو اپنے قومی معاملات میں ترجیح دیں اور علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج سے بھی غافل نہ رہیں۔ لیکن یہ اعلانات محض اعلانات نظر آئے، نہ دفاتر میں سرکاری مراسلت اردو میں جاری ہوئی، نہ رودادیں اردو میں لکھی گئیں، نہ ایجنڈے اردو میں جاری ہوئے، نہ بیرونی دوروں میں وزراء نے اردو میں تقریریں کیںکہ ذرائع ِابلاغ سے اس کا کوئی ثبوت ملتا۔ ان اعلانات کے بعد پچھلے اور موجودہ وزیراعظم نے کئی ملکوں کے دورے کیے ہیں لیکن کسی میں بھی اردو میں تقاریر نہیں کیں جو علانیہ توہین ِ عدالت کے مترادف ہے۔
اس صورت میں قوم کو یہ ڈر ہے کہ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات اردو میں لیے جانے کے فیصلے کا کیا نتیجہ نکلے گا جب کہ یہ ابھی ایک قرارداد ہے جسے نافذالعمل ہونے کے مراحل طے کرنے ہیں، اور جب طے بھی ہوجائیں گے تو عمل کون یقینی کرے گا؟ اور کون کروائے گا؟ اردو میں امتحان لینے کی یہ قرارداد اور یہ فیصلہ عدالت ِ عظمیٰ کے مذکورہ فیصلوں اور احکامات کی طرح کیا لاحاصل نہ رہے گا؟کہ جس نوکر شاہی نے صدارتی حکم بلکہ عہد ِ ضیاالحق کے بار بار کے احکامات کے باوجود نفاذِ اردو کی شقوں کو کابینہ کے اجلاسوں میں ایجنڈے ہی پر آنے نہ دیا، اور وہ بعد کے ہر دور میں بھی اس جانب سے بے نیاز رہی اور عدالت ِ عظمیٰ کے روبرو حیلے بہانے کرنے سے نہ چُوکی، کیا سینیٹ کی اس قرارداد کو روبہ عمل آنے دے گی؟ چناں چہ میں اس ضمن میں چند تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں، جن میں سے سب پہلے تو یہ کہ
۱۔ کوئی درد مند اور مخلص ادارہ یا افراد ایک ’’حلقہ ٔ دباؤانداز‘‘ (پریشر گروپ) تشکیل دیں جو سنجیدگی و مستعدی سے سینیٹ کی منظور کردہ اس قرارداد کا تعاقب کرکے اس کے نافذالعمل ہونے کے تمام ضروری مراحل کی کامیابی کو یقینی بنائے۔
۲۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے نفاذِ اردو کے فیصلوں کے ذیل میں عدالت ِ عظمیٰ کے روبرو نفاذ ِ اردو کے ضمن میں حکومت نے جو وعدے کیے تھے، ان میں سب سے قابلِ اعتراض حکومت کا یہ رویہ تھا کہ ان وعدوں میں سول سروس کے امتحانات اردو میں لیے جانے سے صاف پہلوتہی کی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ سولہویں درجے تک کے سرکاری ملازمین کے امتحانات تو اردو میں لیے جائیں گے لیکن سول سروس کے نہیں لیے جائیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان وعدوں کے پیچھے نوکر شاہی کی مصلحتیں اور حکمتیں پوری طرح کارفرما تھیں۔ اگر اردو نافذ ہوگی تو ان کے بچوں کا کیا بنے گا جو انگریزی ذریعہ ٔ تعلیم کے اداروں میں یہاں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں حکومت کے اعلیٰ عہدوںپر براجمان ہوجاتے ہیں۔اس لحاظ سے جب تک سول سروس کے امتحانات اردو میں نہیں ہوں گے اُس وقت تک کالے انگریز ہی اعلیٰ انتظامی مناصب سنبھالے رہیں گے اور درمیانہ طبقہ انتظامیہ یا اقتدار میں کبھی نہ آسکے گا۔ اس افسوس ناک فیصلے کے خلاف اس حلقے کو فعال ہونا چاہیے کہ سول سروس کے امتحانات اگر انگریزی میں ضروری سمجھے جائیں تو ساتھ ہی اردو میں بھی لیے جائیں، اور ان کے انٹرویو بھی اردو میں دیے جانے کی اجازت ہو۔
۳۔ اس مقصد کے لیے ’’حلقۂ دباؤ انداز‘‘ کو اس شعبے سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے کہ جو امتحانات لینے کا ذمے دار ہے، اور مستعدی سے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا امتحانی سوالات یا پرچے اردو میں بھی بن رہے ہیں یا نہیں؟ یہاں انگریزی پرست افسران یہ عذر کرسکتے ہیں کہ سوالات کے جوابات اردو میں دیے جاسکتے ہیں لیکن سوالات تو انگریزی ہی میں دیے جائیں گے کہ انگریزی سوالات ہر شخص سمجھ سکتا ہے، اس لیے الگ سے سوالات کو اردو میں دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ فیصلہ قطعی مناسب نہیں۔ سوالات بھی لازماً اردو میں بھی ہونے چاہئیں تاکہ اردو والوں کو پوری طرح سمجھ میں آسکیں۔
۴۔سوال بنانے والوں کی اہلیت بھی ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ بالعموم اب اساتذہ میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک کے علاوہ دوسری زبان میں بھی مہارت رکھتے ہوں۔ جو انگریزی زبان کے عادی رہے ہیں وہ اس بات کے عادی نہیں ہوتے کہ اردو میں بھی کچھ لکھ پڑھ سکیں یا انگریزی سوالات کا اردو ترجمہ مناسب صورت میں کرسکیں۔ اس لیے وہ تو پہلوتہی کریں گے کہ سوالات کو انگریزی ہی میں ہونا چاہیے۔ لیکن ان کا ایسا کوئی نقطۂ نظر قبول نہیں کیا جانا چاہیے، اور انھیں پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ سوالات اردو میں یا تو ترجمہ کریں یا کسی دیانت دار اور اہل شخص سے ترجمہ کرائیں۔
قومی زبان کا نفاذ نہ ہونے ہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام بھی بے ثمر ہوکر رہ گیاہے۔ اسی کی وجہ سے ہماری شرح خواندگی بھی قطعی قابلِ اطمینان نہیں،متعدد پسماندہ ملکوں سے بھی کم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تعلیم ہی کی کمی کی وجہ سے ہمارا سارا معاشرتی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اب اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ انگریزی پر منحصر رکھنے کے بجائے اردو زبان سے فیض یاب ہونے کا موقع دے دینا چاہیے، اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں اور اعلیٰ تعلیم اردو میں دینا زیادہ مفید ومناسب فیصلہ ہوگا۔ اب ہر سطح کے تعلیمی ادارے پر لازم ہونا چاہیے کہ اس کا ذریعہ تعلیم اردو ہو، لیکن وہ انگریزی زبان کی مزید بہتر تعلیم کا بھی انتظام کرے تاکہ ہمارے طلبہ واقعی اچھی انگریزی استعداد بھی ضرورتاً پیدا کرسکیں۔ آج ہمارے طالب علم کسی ایک زبان میں بھی قدرت نہیں رکھتے۔ ہمارے تعلیمی نظام سے یہ عیب فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور ’’حلقۂ دباؤ انداز‘‘ اس ضمن میں سارے ملک کے لیے ایک بہتر تعلیمی نظام کی تشکیل اور ایک واحد وفاقی نصاب اور وفاقی نظام تعلیم کے لیے کوشش کرسکتا ہے، اور اسے ہر جامعہ کو اردو ذریعہ ٔ تعلیم کے لیے آمادہ کرنے کی ایک مؤثر تحریک چلانی چاہیے۔
اس ضمن میں ایک بہتر اور مؤثر تحریک یہ چلانی چاہیے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں سے تعلیم کو صوبائی قید سے نکال کر وفاقی سطح پر رائج ہونا چاہیے تاکہ ایک نظام اور ایک نصاب اور ایک زبان (اردو) ہر جگہ اور ہر سطح پر رائج رہے اور قوم اتحاد اور اتفاق کی فکری اور معاشرتی صفات سے متصف ہوتی رہے، اور ملک ترقی کی اُس سطح پر پہنچ سکے جو اس ملک کے بانیوں کا مقصد رہی ہے، اور آج کی ترقی یافتہ دنیاجس سے فیض یاب ہورہی ہے۔