چوتھی ادب اطفال قومی کانفرنس

بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی اور کتب پر ڈاک خرچ کم کرنے کے مطالبات

بچوں کے لیے لکھنا یا بچوں کا ادب تخلیق کرنا یقینا بچوں کا کھیل نہیں… یہ نہایت محنت طلب اور پِتّہ ماری کا کام ہے، کیونکہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور قیمتی اثاثہ ہوا کرتے ہیں، ان کی عمدہ تعلیم و تربیت اور اعلیٰ کردار سازی ایک قومی فریضہ ہے کہ اسی کے ذریعے ہم نئی نسل کو اچھا انسان اور سچا مسلمان بناکر ملک و قوم کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ مگر اس ضمن میں عملی اور حقیقی صورتِ حال کیا ہے اس کا اندازہ ’’چوتھی ادبِ اطفال قومی کانفرنس‘‘ کے رابطہ کار ماہنامہ پھول کے مدیر اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر محمد شعیب مرزا صاحب کے ان جملوں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے کانفرنس کے مجلہ میں ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ کے عنوان سے حالِ دل بیان کرتی طویل تحریر میں کیا ہے:
’’بچوں کا چونکہ ووٹ نہیں ہوتا اس لیے وہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ بچوں کا ادب چونکہ حکومت اور اربابِ اختیار کو طنز و تنقید کا نشانہ نہیں بناتا، اس لیے یہ بے ضرر سا شعبہ حکومت یا سرکاری اداروں کی توجہ حاصل نہیں کرسکا، حالانکہ بچوں کا ادب نئی نسل کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر کی حیثیت سے بچوں کے رسائل کی مالی مشکلات کی طرف حکومت کی توجہ دلانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جس کی وجہ سے گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران بچوں کے کئی رسائل بند ہوچکے ہیں…‘‘
اس حوصلہ شکن صورتِ حال میں محمد شعیب مرزا اور ان کے پُرعزم ساتھی داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ مایوس نہیں ہیں اور ’’ہاں ہم کرسکتے ہیں‘‘ کے عزم صمیم کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے عزائم اور حوصلوں کی عکاس ’’چوتھی ادبِ اطفال قومی کانفرنس 2019ء‘‘ کا انعقاد پانچ مئی کو لاہور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں کیا گیا، جس کا موضوع ’’قومی تعمیر و ترقی میں بچوں کے رسائل اور ادیبوں کا کردار‘‘ تھا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر عمران مرتضیٰ نے کی، جب کہ ان کے علاوہ ڈاکٹر فضیلت بانو، حلیمہ سعدیہ، صوبہ خیبر سے محمد اسحاق برکت اور محمد شعیب مرزا بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اجلاس میں حاضرین و سامعین کے لیے کلماتِ استقبالیہ و تشکر کے علاوہ کانفرنس کے اغراض و مقاصد واضح کیے گئے، جس کے بعد پُرتکلف چائے کا وقفہ تھا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر فرحت عباس نے کی، جب کہ میاں ساجد علی نے کلامِ اقبال میں بچوں کے لیے نظموں کے حوالے سے اپنی گفتگو میں ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ کو موضوع بنایا اور اس بات پر زور دیا کہ فکرِ اقبال کا محور قرآن حکیم کی تعلیمات ہیں، حتیٰ کہ بچوں کے لیے بظاہر اس سادہ سی مگر پُراثر نظم میں بھی وہ اس حد تک پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح ہر مسلمان ہر نماز میں سورہ فاتحہ میں اپنے خالق و مالک سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے اسی طرح اس نظم میں بھی بچہ اپنے معصوم الفاظ میں ’’نیک جو راہ ہو اسی راہ پہ چلانا مجھ کو‘‘ کی دعا کرتا سنائی دیتا ہے۔ پروفیسر ریاض قادری کا کہنا تھا کہ بچوں کے تعمیری ادب کے فروغ کے ذریعے ہی معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ پی ٹی وی کے بچوں کے مقبول کردار ’’عینک والا جن‘‘ کے تخلیق کار حفیظ طاہر نے زور دیا کہ انسان کو اپنے اندر کے بچے کو مرنے نہیں دینا چاہیے، کیونکہ یہ بچہ ہی زندگی کی امید اور رونق ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ادیب عبداللہ نظامی نے کانفرنس کے عزم ’’ہاں ہم کرسکتے ہیں‘‘ کو سراہتے ہوئے علاقائی سطح پر بھی ایسی کانفرنسوں کے انعقاد کی ضرورت کا احساس دلایا اور جنوبی پنجاب میں جلد بچوں کے ادیبوں کی کانفرنس منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تربت بلوچستان سے بچوں کے ادیب حسن اختر نے بھی بلوچستان میں ایسی کانفرنس کے انعقاد کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ خاتون ڈرامہ نگار پروفیسر مسرت کلانچوی نے اپنی گفتگو میں خواتین کو اصلاحی اور معلوماتی ڈرامے لکھنے کی جانب متوجہ کیا اور کہا کہ ایسے ڈراموں کے ذریعے نئی نسل کو ’’سوشل میڈیا‘‘ کی خرابیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ صدرِ مجلس پروفیسر ڈاکٹر فرحت عباس کا موضوع ’’بچوں کے شعری ادب کی اہمیت و افادیت‘‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی شاعری سے بے اعتنائی ایک سنگین مسئلہ ہے، ہمیں بچوں کی مثبت بنیادوں پر نشوونما کے لیے شیریں لہجے میں بامقصد شاعری کی تخلیق پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے ابتدائی نصاب کی تشکیل میں بچوں کے ادیبوں سے رہنمائی لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
نماز ظہر اور ظہرانہ کے وقفے کے بعد کانفرنس کا تیسرا اور اہم ترین اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت گورنر پنجاب کی اہلیہ بیگم پروین سرور نے کی، جب کہ مہمانانِ خصوصی میں ’’اخوت‘‘ کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب، ممتاز افسانہ نگار سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ رحمن، نابینا کالم نگار سید سردار احمد پیرزادہ، نابینا پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ رسول، چلنے پھرنے کے لیے وہیل چیئر کی محتاج نوعمر گل افشاں رعنا، اور منہاج یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے سربراہ پروفیسر مختار احمد عزمی شامل تھے۔ سعید احمد سعیدی نے سندھ کے بچوں کے ادیبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شریک ہوکر احساس ہوا ہے کہ بچوں کا ادب اتنا بھی یتیم نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف علمی و ادبی اداروں میں بچوں کے ادیبوں کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے جلد کراچی میں بھی ادبِ اطفال کانفرنس منعقد کرانے کے عزم کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے پُراثر اور پُرمغز خطاب میں دنیا بھر میں قرضِ حسنہ کے اپنے سب سے بڑے ادارے ’’اخوت‘‘ کے قیام اور کامیابیوں کی روشن اور حوصلہ افزا کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ادارے کا آغاز 2001ء میں صرف دس ہزار روپے کے ایک قرض سے کیا گیا تھا، اور آج ہم پورے ملک کے 33 لاکھ گھرانوں کے ڈیڑھ کروڑ افراد میں 83 ارب روپے سالانہ قرض بلاسود دیتے ہیں جس کی واپسی کی شرح 99.9 فیصد ہے، اور یہ پاکستان کے معاشرے کی نہایت روشن تصویر ہے کہ یہاں امانت و دیانت کے پیکر کتنے ایمان دار لوگ آباد ہیں، جو محنت کرکے نہ صرف اپنا کاروبار چلاتے اور ہمارا قرض واپس کرتے ہیں بلکہ ان میں سے 60 سے 70 فیصد لوگ ہمارے مددگار و معاون بھی بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ دنیا کو حیران کردینے والا ہمارا یہ سارا نظام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’مواخات‘‘ کے تصور پر استوار ہے۔ اس نظام کے تحت اب ’’اخوت یونیورسٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جہاں 600 طلبہ بغیر فیس کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد یونیورسٹی کے دوسرے مرحلے کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ ہم نے خدا کے فضل سے عمل سے ثابت کیا ہے کہ قومیں دولت کی کمی یا غربت سے زوال آشنا نہیں ہوتیں، بلکہ ناامیدی سے مرتی ہیں۔ اس موقع پر اخوت یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے حصہ ڈالنے والے بچوں اور بڑوں میں ’’اخوت دوست ایوارڈ‘‘ بھی تقسیم کیے گئے۔
ملتان ویمن یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ رسول نے ’’ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا‘‘ کے تحت اپنی داستانِ حیات سنائی کہ کس طرح انہوں نے آنکھوں کی نعمت سے محرومی کو اپنی تعلیم و ترقی میں رکاوٹ نہیں بننے دیا، اور آج پی ایچ ڈی تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ویمن یونیورسٹی ملتان میں طالبات کو پیغام دے رہی ہیں کہ ہمت عطیۂ خداوندی ہے، مسائل کے سامنے ہمت اور حوصلہ نہ ہاریں تو زندگی میں آپ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغیات سے ایم اے کرنے کے بعد عملی صحافت کرنے والے ممتاز کالم نگار سید سردار احمد پیرزادہ نے بھی اپنی گفتگو میں کانفرنس کے شرکاء کو بینائی سے محروم اور دوسری معذوریوں کے حامل درجنوں لوگوں کی داستان سنائی جنہوں نے معذوری کو اپنے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا اور اپنے اپنے شعبوں میں بلند ترین مقام حاصل کیا۔ ان میں سے چند ایک، دنیا کا پہلا شاعر ہومر، روز ویلٹ، ڈاکٹر واجد، ڈاکٹر طہٰ حسین، ڈاکٹر سلمیٰ، ڈاکٹر صائمہ اعجاز، صائمہ سلیم اور پاکستان کے پہلے نابینا جج محمد یوسف ہیں۔ سید سردار احمد پیرزادہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بچوں کے ادب کو مستقبل میں زندہ رکھنے کے لیے اسے ڈیجٹلائز کرنے کا اہتمام کیا جائے اور بچوں کے ادب میں الگ سول صدارتی ایوارڈ دیئے جائیں۔ اس موقع پر سید سردار احمد پیرزادہ، ڈاکٹر شاہدہ رسول، گل افشاں رعنا، ندیم احمد، ساجدہ حنیف، ملک محمد ایاز اور ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی کو ’’ہمت ایوارڈ‘‘، جب کہ بشریٰ رحمن، ڈاکٹر مختار احمد عزمی، صدر الدین ہاشوانی، وسیم عالم، ڈاکٹر کامران اور عظمت ترین کو معمارِ وطن ایوارڈ دیئے گئے۔
ممتاز افسانہ نگار بیگم بشریٰ رحمن نے اپنی تقریر میں کہا کہ بچوں کے لیے لکھنا بچکانہ نہیں بلکہ نہایت ذمے داری کا کام ہے، کیونکہ بچوں کا ادب نئی نسل کی پرورش اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے چاروں صوبوں میں یکساں نصاب کی تجویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے تمام صوبوں میں پاکستانیت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ایک صوبائی زبان کے بچوں کے ادب کو دوسری صوبائی زبانوں میں ترجمہ کرنے اور نصاب پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے اخلاقیات کا درس دینے والی کہانیاں شاملِ نصاب کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی اہلیہ بیگم پروین سرور نے اپنی صدارتی تقریر میں کانفرنس کے منتظمین کی کوششوں کو سراہا اور تجویز پیش کی کہ ایسی کانفرنسیں دیگر شہروں میں بھی منعقد ہونی چاہئیں۔ گھر سے بچوں کی کردار سازی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین سے دور لے جارہے ہیں، تاہم ہمیں نیک نیتی سے آخرت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے، نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر بچوں کے ادب کے حوالے سے نمایاں کارکردگی کا مظاہر کرنے والے شرکاء میں ایوارڈز تقسیم کیے گئے، جب کہ منتظمین کی جانب سے کتابوں کی ترسیل پر ڈاک خرچ میں کمی، بچوں کے ادب پر ایوارڈز کے اجراء، بچوں کے رسائل کے لیے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے وسائل کی فراہمی اور اندرونی و بیرونی دوروں میں بچوں کے ادیبوں کو شامل کرنے کے مطالبات کے ساتھ یادگار کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔