ڈاکٹر عبدالقدیر خان بکس ایوارڈ

قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کے تحت اے کیو خان انسٹیٹیوٹ جامعہ کراچی میں باوقار تقریب

اسلامی اساس اور نظریہ پاکستان کے فروغ میں کوشاں قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان معروف اہل قلم اصحاب کی نمائندہ تنظیم ہے اس کے بانی جلیس سلاسل ملک کے معروف صحافی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اصلاحِ احوال کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً محفلیں سجاتے رہتے ہیں جس سے گلڈ کے اراکین بھی متحرک رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں گلڈ کے تحت اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جامعہ کراچی میں فخر پاکستان، محسن پاکستان ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان بکس ایوارڈ‘‘ دینے کے لیے ایک باوقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے دستِ مبارک سے ایوارڈ یافتگان کو ایوارڈ دیے۔ تقریب اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوئی، صائمہ ناز نے تلاوت کلام پاک سے آغاز کیا، عبدالاحد سہروردی نے نعت مبارک پیش کی، خطبہ استقبالیہ پروفیسر شکیل فاروقی نے دیا آپ نے کہا کہ آج ہم اپنے وطن میں بلاخوف و خطر رہ رہے ہیں یہ ہماری ایٹمی قوت کی بدولت ہے جو ڈاکٹر صاحب کی محنت، صلاحیت اور مشکلات کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کا ثمر ہے، ڈاکٹر صاحب پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں۔ ہم آج جن کتابوںکے مصنفین کو ایوارڈ دے رہے ہیں ان کی کتابیں مختلف نوعیت کی ہیںاور مختلف موضوعات پر ہیں مگر ان کتابوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ حب الوطنی اور حب اسلام کی شناخت بھی رکھتی ہیں۔ گلڈ کے جسٹس پینل کے 40 اراکین جو معروف اہل قلم ہیں نے 1993ء سے 2018ء تک شائع ہونے والی 50 منتخب کتابوں کو ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں گلڈ کے تمام عہدیدارون و اراکین ایوارڈ کمیٹی کا جنہوں نے میرے نام سے بکس ایوارڈ کا اجرا کیا، میں نے جسٹس پینل کے معزز اراکین کے فیصلوں کی توثیق کے لیے ایوارڈ یافتگان کو جاری ہونے والی اسناد پر الگ الگ دستخط اس وقت کر دیے تھے جب جلیس سلاسل بھائی اسلام آباد میری رہائش گاہ پر اسی مقصدکے لیے آئے تھے، میں تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارک باد دیتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی ایسی کتابیں لکھتے رہیں گے جو ہماری نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا بھی باعث ہوں اور زندگی کی تاریکیوںمیں مشعل راہ ہوں، ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران ’’قل ھو اللہ‘‘ بھی نہیں پڑھ سکتے، ساری خرابی ہمارے نظام تعلیم کی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن حکیم کو اپنا رہنما بنا لیں خود بھی روزانہ ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں، ہماری زندگی پرسکون ہو جائے گی۔ اس موقع پر گلڈ کے عہدیداران نے جلیس سلاسل کی سربراہی میں ڈاکٹر صاحب کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی۔
تقریب میں بڑی تعداد میں ارباب دانش کے ساتھ وقار احمد زبیری، پروفیسر ہارون رشید، ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری، مدیر فرائیڈے اسپیشل یحییٰ بن زکریا صدیقی، ڈاکٹر مزملہ شفیق، رضیہ سلطانہ ایڈوکیٹ، عابدرضوی، ضیا الرحمن گلرو، حلیم شرر، اویس اریب انصاری، سلیم احمد ایڈوکیٹ، خالد بن آزاد نے بھی شرکت کی۔ کوآرڈنیٹر صدف بنتِ اظہار نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین محمد حلیم انصاری نے اپنے اراکین ارشاد راحت، یاسمین حبیب صدیقی، بینش محبوب، ڈاکٹر جویریہ یوسف، حماد جلیس، شفق ناز، سید آفتاب احمد، محمد قاسم، یسری طارق، عائشہ جلیس، ردا عارف اور راقم الحروف عبدالصمد تاجی کے ساتھ پروگرام کی کارروائی ترتیب دی۔ تقریب کی نظامت پروفیسر شازیہ ناز عروج نے کی۔ گلڈ کے صدر خلیل احمد خلیل ایڈوکیٹ نے اظہار تشکر کیا، وسیم الدین بھوپالی نے تمام حاضرین کے لیے عصرانے کا اہتمام کیا گیا۔ پروفیسر آزاد بن حیدر علالت کے باوجود لیاقت نیشنل اسپتال سے ایوارڈ وصول کرنے کے لیے تشریف لائے۔
جسٹس پینل کے معزز اراکین نے جن 50 کتابوں کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ان کی تفصیل درج ہے۔
بیسویں صدی کا موسم، نورجہاں نوری۔ وسط ایشیانئی آزادی نئے چیلنج، آصف جیلانی۔ سخن ور، سلطانہ مہر۔ رتی جناح، خواجہ رضی حیدر۔ پاکستان شاعری میں قومیت کا اظہار، ڈاکتر نگہت منیر۔ اردو صحافت انیسویں صدی میں، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود، قرآن اور ماحولیات، شفیع حیدر دانش۔ اللہ کے بغیر، خان آصف۔ بات سے بات، سبگتین صبا۔ کچے دھاگوں سے بندھی یادیں، توصیف چغتائی۔ شہر ہنر مندان، صفورا خیری۔ کراچی تاریخ کے آئینے میں، عثمان وموہی۔ نوبل انعام یافتگان، باقر نقوی۔ عورت، مرد کہانی، پروفیسر خیال آفاقی۔ یقین، عارف شفیق۔ نہ حکایتیں نہ شکایتیں، راشدہ نثار۔ کڑی دوپہروں کی سرزمین۔ اردو زبان و ادب، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی۔ امریکہ مسرت کی جستجو میں، قیصر سلیم۔ پی ٹی وی کے ڈراموںکے بچوں پر اثرات، ڈاکٹر نسرین پرویز۔ سایہ خدائے ذوالجلال، ڈاکٹر معین الدین احمد۔ جاگتے لمحے، جسٹس (ر) حاذق الخیری۔ تحقیق کے طریقے، پروفیسر نثار احمد زبیری۔ رسول اعظمؐ، پروفیسر خیال آفاقی۔ وجہ تخلیق کائنات، آسیہ سحر۔ اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالعزیز خان عزیز احسن۔ فکاہی کالم اور نصر اللہ خان، ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی۔ اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ، ڈاکٹر نزہت عباسی۔ تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ (سرسید سے قائداعظم تک) پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ۔ ریڈیو پاکستان کے تیس سال، انور سعید صدیقی۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا تحریک پاکستان میں کردار، پروفیسر شاہین حبیب صدیقی۔ اسلام کا نظام صرف دولت اور انفاق، پروفیسر فائزہ احسان صدیقی۔ سلیم احمد، خواجہ رضی حیدر۔ بنگلہ دیش کی تخلیق فسانے اور حقائق، ڈاکٹر جنید احمد۔ پاکستان … سیاست اور اسلامی قانون، پروفیسر حفیظ الرحمن صدیقی۔ خطبہ حجتہ الوداع، پروفیسر حافظ محمد ثانی۔ مسلم حکومتیں کیسی بلندی، کیسی پستی، رضی الدین سید۔ تہذیبوں کا تصادم، شاہ نواز فاروقی۔ سیاست دوراں، محمد حلیم انصاری۔ کراچی کی آواز، عارف شفیق۔ مغربی دنیا کے اردو اہل قلم، تسلیم الہٰی زلفی۔ عظمتوں کے مینار، اعجاز رحمانی۔ علامہ ابوالجلال ندوی، احمد حاطب صدیقی، دکھ پیغمبری کے، ملکہ افروز روہیلہ۔ تذکرہ شخصیات بھوپال، شگفتہ فرحت۔ حوصلوں کی سحر، عقیلہ اظہر۔ سربازار می رقصم، نسیم انجم۔ سائنسی حقیقتیں اور افسانے، پروفیسر نسیم احمد سندہلوی۔ اردو شاعری میں ظرافت نگاری، پروفیسر شوکت اللہ جوہر۔ رفاقتیں کیا کیا، خالد معین۔
زیادہ تر ایوارڈ مصنفین نے خود وصول کیے۔ بیرون کراچی کے ایوارڈ یافتگان اور مرحوم مصنفیں کے ایوارڈ ان کے نامزد افراد اور ورثا نے وصول کیے۔
نورجہاں نوری کا ایوارڈ ریحانہ خاتون، باقر نقوی کا ایوارڈ نسیم احمد شاہ، مرحوم خان آصف کا ایوارڈ (راقم الحروف) نے وصول کیا اور گلڈ کے بانی اپنی علالت کے باعث پروگرام میں دیر سے تشریف لائے مگر ان کی ٹیم نے ان کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ گلڈ کے اراکین نے ڈائریکٹر جنرل اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہرکا خصوصی تعاون پر شکریہ ادا کیا۔