سب خسارے میں ہیں!۔

مغربی معاشروں کے سماجی مسائل کی تفہیم کے لیے ایک معاون کتاب

’’کس قدر تعجب کی بات ہے! رابطے جتنے آسان ہوگئے، لوگ اُتنی زیادہ نفرت ایک دوسرے سے کرنے لگے، کیوں؟ حیرت ہے کہ ’خبریں‘ ہمیشہ اندیشوں میں مبتلا کردیتی ہیں، کیوں؟ عجیب بات ہے کہ زندگی آسان ہورہی ہے مگر لوگ مایوس ہورہے ہیں، کیوں؟ ہم بہت ہی انوکھے دور میں جی رہے ہیں۔ مادی اعتبار سے سب کچھ بہترین ہے۔ ہم سے زیادہ کوئی آزاد نہیں۔ انسانی تاریخ میں ہم سے زیادہ صحت مند اور دولت مند کوئی نہ گزرا۔ مگرافسوس ہے، روئے زمین پر ہر جانب تباہی ہے۔ زمین کی گرمی بڑھ رہی ہے، حکومتیں ناکام ہورہی ہیں، معیشتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔ ہرکوئی ٹوئٹر پر ناراض نظرآتا ہے۔ تاریخ کے اس لمحے میں، جب ہماری اُس ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، وہ تعلیم اور ابلاغ میسر ہے جس کا خواب تک ہمارے باپ دادا نہ دیکھ سکتے تھے، ہم میں سے اکثرمایوس ہیں۔ آخر یہ ہوکیا رہا ہے؟‘‘
( A Book about Hope by Mark Manson کے تعارف سے اقتباس)
مغرب مایوس ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ کفر تباہی ہے۔ تباہی واضح ہے۔ واضح احساس ہے۔ یہ امید چاہتا ہے۔ امید کیا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسے ہو؟ مغرب میں یہ سوالات رائج لبرل اقدار کو روند رہے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں میں ایک نمایاں نام نیویارک سُپربلاگر مارک مینسن کا ہے۔ مسٹر مینسن جدید دنیا کے باطن کی گندگی نمایاں کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی افیون کس طرح انسانی نفسیات برباد کررہی ہے، یہ ان کی تحریروں میں حال کی مثالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ ادبی اسلوب مدنظر رکھا جائے، تو مسٹر مینسن کی انگریزی روزمرہ امریکی بول چال کی زبان ہے، جس کی لغت قدرے ’غیر مہذب‘ نوعیت کی ہے۔ مگر اُن کی فکر، مشاہدہ اور تجزیہ حقیقت کے عکاس ہیں، جدید مغربی معاشرے کی نفسیات کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔ وہ مغربی معاشرے کی دُکھتی رگ پر اُنگلی رکھتے ہیں، اور مثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ محسوس کررہے ہیں اور بیان کررہے ہیں، اورحل ڈھونڈ رہے ہیں۔ اُن کی نئی کتاب، جس کا مناسب متبادل اردو عنوان ’’سب خسارے میں ہیں… کتابِ اُمید‘‘ ہوسکتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ’مایوسی‘ ہے۔ لہٰذا ’امید‘ کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کے مضامین کا بنیادی وصف مغربی اور مغرب زدہ سماج کی بربادی کا ’فطری احساس‘ ہے، جو ہر مرحلے پر ’دینِ فطرت‘ کی ضرورت واضح کرتا چلا جاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے ’عنوان‘ سے ظاہر ہے، انگریزی میں یہ عنوان انتہائی مایوسی میں منہ سے نکلنے والی’گالی‘ کی مانند ہے۔ مگر’دینِ فطرت‘ کے تناظر میں یہ دنیاوی زندگی کی وہ تباہی ہے، جو مکمل خسارے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اسلامی تناظر میں مغرب اور مغرب زدہ معاشروں کے سماجی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بھرپور معاون ہے۔ اسے جدید ’سماجی علوم‘ کی تحقیق میں بطور مثال استعمال کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر مضمون کا مقصد یہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے مضامین کا ترجمہ اور تجزیہ وقت کی ضرورت ہے۔ مسٹر مینسن کا مقدمہ یہ ہے کہ ’خوشی‘ کی تلاش میں مغربی معاشرہ انتہائی ’ناخوشی‘ سے گزر رہا ہے، اس کا بنیادی سبب زندگی میں کسی بھی قسم کی ’امید‘ کا نہ ہونا ہے۔ جدید سماجی مسائل پر اس کتاب کی نظر گہری ہے، مگر نتائج میں درستی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور حل کی اصلاح ناگزیر نظر آتی ہے۔ یہی اس کے ترجمے اور تجزیے کا مقصد ہے۔
کتاب کی تعارفی ای میل میں مسٹرمینسن اپنے احساسات یوں الفاظ کی نذر کرتے ہیں:
’’مصنف ہونا عجیب تجربہ ہے کیونکہ اس طرح آپ کی زندگی مسلسل چکر کھاتی ہے۔ آپ ایک سے دوسال تک مکمل تنہائی میں غور و خوض کرتے ہیں۔ ہر دن ہر صفحے پر مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ تنہائی میں پریشان بیٹھے ہوتے ہیں۔ گزرنے والے وقت کو ’تلاشِ سچ‘کی صحیح کوشش ثابت کرتے ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں کبھی لایعنی نہیں رہا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میری نئی ’کتاب امید‘ شائع ہوچکی ہے۔ لوگوں نے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہارکیا ہے۔ یہ ردعمل بڑی حد تک مثبت ہے مگر بھرپور طور پر متحارب بھی ہے۔ یہ تفریحی بھی ہے کیونکہ میں نے ذاتی نوعیت کے رسک لیے ہیں، اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے، ناکام تعلقات کی کہانیاں سنائی ہیں، اورذاتی خدشات ظاہر کیے ہیں۔ گوکہ یہ بے چین کرنے والی کیفیت ہے، مگر لوگ آخرکار اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ میں جانتا ہوں اس کتاب کے بہت سے قاری مدمقابل ہوجائیں گے۔ ان ابواب میں کئی مقدس گائیں ذبح کی گئی ہیں۔ کئی مداحوں سے ناراضی مول لی گئی ہے۔ یہ کتاب زندگی کی معنویت اور مقصد پر سوال اٹھاتی ہے، اور کیا یہ سوال نقصان دہ ہیں؟ یہ سوال تاریخ، سیاسیات اور مذہب کی قلمرو میں دور تک نکل جاتے ہیں۔ یہ مشکل ہے، کیونکہ لوگ ان معاملات میں شدید جذباتی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کتاب ان ہی جذبات کو موضوع بناتی ہے۔ لوگوں کو اس موضوع پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے۔‘‘
کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا ’امید‘ ہے۔ اس حصے میں پانچ ابواب ہیں۔ یہ آغاز میں مغرب کے مسئلۂ ’مایوسی‘ کی تشخیص کرتا ہے۔ دوسرا حصہ ہر معاملے میں ’تباہی‘ کا جائزہ لیتا ہے۔ اس حصے کے چار ابواب ہیں۔ یہ’انسانیت‘کے فارمولے پر بحث کرتا ہے۔ عالمی معاشی صورتِ حال کے عام احساس کی تشریح کرتا ہے۔ آخری باب ’آخری مذہب‘ کی تجویز یا تعلیم دیتا ہے۔ مسٹر مینسن نے عام فرد کے احساس کو الفاظ دیے ہیں۔ مسئلۂ ’مایوسی‘ کا عمومی مشاہدہ پیش کیا ہے۔ بالکل اسی طرح وہ نتائج اور حل کی جانب بڑھ جاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ مغربی فلسفے کی تاریخ سے روایتی سا استفادہ کرتے ہیں جو ظاہر ہے مغرب میں تحقیق کا عام ’سقم‘ ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ دانش وروں میں یہ ’سقم‘ عام ہے۔ تجزیے میں یہ ’سُقم‘ دور کرنے کی سعی کی جائے گی۔ ترجمہ و تلخیص میں الفاظ کی اصل صورت اور مقدمہ قائم رکھا جائے گا، غیر ضروری تفصیل حذف کی جائے گی۔ حواشی میں تنقید و تجزیے کی توفیق بھر کوشش کی جائے گی۔ اس کتاب کے انتخاب کا بنیادی محرک مغربی ’مایوسی‘ کی تصریح اور مدعا ’امید‘ کی اسلامی صورت واضح کرنا ہے۔
اسلام کی تعلیمات میں ’مایوسی‘ کفر ہے۔ ’کفر‘ ایسی اتھاہ بے معنویت ہے مسٹرمینسن جسے شدت سے محسوس کرتے ہیں، اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ انسانی فطرت کا یہ ’خالی پن‘ مغربی فکر کی پوری تاریخ پر طاری رہا ہے۔ جرمن فلسفی نٹشے کے معروف جملے ہیں کہ ’’انسان کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ پیدا ہی نہ ہو، اور اگر پیدا ہوہی جائے تو جلد مرجائے‘‘۔ کم و بیش یہی مایوسانہ کیفیت ’فلسفہ‘ کی پوری کہانی پرچھائی ہے۔ ’کتابِ امید‘ اس کیفیت کا تسلسل ہے۔ اس کیفیت کا خاتمہ اور ’امید‘ انسانی دنیا کی عظیم ضرورت ہے۔