’’صحیفہ‘‘ (شمارہ 230 تا 234)خصوصی اشاعت بہ سلسلہ سرسید احمد خاں

مجلہ : ’’صحیفہ‘‘
(شمارہ 230 تا 234)
خصوصی اشاعت بہ سلسلہ سرسید احمد خاں
مجلسِ ادارت : ڈاکٹر تحسین فراقی: صدرِ مجلس
افضل حق قرشی:مدیر
محمد ظہیر بدر: معاون مدیر
صفحات : 737، قیمت شمارہ خاص 750 روپے
رجسٹری سے 850 روپے
عام ڈاک سے 800 روپے
ناشر : مجلسِ ترقی ادب۔ نرسنگھ داس گارڈن،
2 کلب روڈ، لاہور
فون : 042-99200856
042-99200857
ای میل : majlis_ta@yahoo.com
ویب گاہ : www.mtalahore.com

مجلہ ’’صحیفہ‘‘ مجلسِ ترقی ادب لاہور کا علمی و ادبی مجلہ ہے۔ موجودہ شمارہ ضخیم خصوصی اشاعت کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ مجلہ، صحیفہ کے دوسرے خصوصی نمبروں میں بھی نمایاں مقام کا حامل ہے۔
مدیر افضل حق قرشی (ahqarshi@gmail.com) تحریر فرماتے ہیں:
’’سرسید احمد خاں (1817ء۔ 1898ء) ایک کثیرالجہت شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت ایک ممتاز مفکر، مدبر، ادیب، صحافی، مؤرخ، سماجی مصلح اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے دردمند دل رکھنے والے رہنما تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جنہوں نے جدید ہندوستان میں ایک نئے علم الکلام کی ضرورت کا احساس کیا۔ علامہ اقبال کے نزدیک ’’ان کی حقیقی عظمت اس حقیقت میں مضمر تھی کہ وہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جنہوں نے اسلام کی تازہ تعبیر کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لیے کام کیا۔ ہم ان کے مذہبی تصورات سے اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی حساس روح نے سب سے پہلے جدید عہد پر ردعمل کا اظہار کیا‘‘۔
جب ولیم میور (1819ء۔ 1905ء) کی متعصبانہ کتاب شائع ہوئی تو وہ تڑپ اٹھے۔ محسن الملک (1837ء۔ 1907ء) کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ان دنوں میں ذرا قدرے دل کو شورش ہے۔ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حال میں لکھی ہے اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلا دیا اور اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرتؐ کے سِیَر میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا، کتاب لکھ دی جاوے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجاوے اور میں فقیر بھیک مانگے کے لائق ہوجائوں تو بلا سے۔ قیامت میں یہ تو کہہ کر پکارا جاوے گا کہ ’’اس فقیر احمد کو، جو اپنے دادا محمد صلعم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا، حاضر کرو۔
مارا[ایں[ تمغہ شہنشاہی بس است‘‘
انہوں نے حالی (1837ء۔ 1914ء) سے مسدس لکھوائی جو ایک عہد آفرین کارنامہ ہے، جس نے انیسویں صدی میں مسلمانوں کے خوابیدہ احساس کو بیدار کرکے ان کے تنِ خُفتہ میں زندگی کی نئی روح پھونکی۔ وہ اسے اپنے اعمالِ حسنہ میں سے سمجھتے تھے اور یہاں تک کہاکہ ’’جب خدا پوچھے گا کہ تُو کیا لایا؟ میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں‘‘۔ ان کی عین آرزو مسلمانوں کی ترقی اور عزت کی تھی۔
جب بنارس کے سربرآوردہ ہندوئوں نے سرکاری عدالتوں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط موقوف کرکے بھاشا زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھے جانے پر اصرار کیا اور اس کے لیے باقاعدہ مہم جوئی شروع کی تو اس پر ان کا ردعمل یہ تھا:
’’اب ہندو، مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملاکر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔ اب مجھ کو یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہوسکیں گی۔ ابھی تو بہت کم ہے، آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، بڑھتا نظر آتا ہے۔ جو زندہ رہے گا، وہ دیکھے گا‘‘۔
سرسید کا یہ ارشاد ملہمانہ ثابت ہوا۔
انہوں نے اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر مبذول رکھی۔ ان کی کوششوں کو سبھی نے سراہا۔ پنڈت جواہر لال نہرو (1889ء۔ 1964ء) لکھتے ہیں:
’’سرسید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کردینی چاہئیں، یقینا درست اور صحیح تھا۔ بغیر اس تعلیم کے میرا خیال ہے کہ مسلمان جدید طرزِ قومیت کی تعمیر میں کوئی مؤثر حصہ نہیں لے سکتے تھے، بلکہ یہ اندیشہ تھا کہ وہ ہندوئوں کے مقابلے میں غیر مؤثر بن جائیں گے جو تعلیم میں بھی ان سے آگے تھے اور معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط تھے‘‘۔
سرسید کا شمار اردو ادب کے عناصرِ خمسہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو کو بھاری بھرکم عربی و فارسی تراکیب سے آزاد کرایا اور سادہ اور عام فہم اسلوب کو رواج دیا۔ ان کے کچھ مذہبی تصورات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی حمیتِ دینی اور مسلمانوں کی دنیوی بھلائی کی کوششوں سے انکار ممکن نہیں۔
پیش نظر ارمغان سرسید کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ ’’صحیفہ‘‘ کے اس خاص نمبر کے توسط سے سرسیدکی پوری شخصیت اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ منصۂ شہود پر آجائے۔ ہم مقالہ نگار حضرات کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور اپنی گراں قدر نگارشات ارسال کیں۔ امید ہے کہ صحیفہ کا یہ نمبر سرسید شناسی میں مددگار ہوگا‘‘۔
یہ سرسید نمبر بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے، اس میں درج ذیل مقالات شامل کیے گئے ہیں:
’’حیاتِ سرسید ماہ و سال کے آئینے میں‘‘ افضل حق قرشی، ’’سرسید، چند معروضات اور ان کے دوغیر مطبوعہ مکتوب‘‘ تحسین فراقی، ’’نوادرِ سرسید‘‘ افضل حق قرشی، ’’ذکر ایک نائب منشی کا‘‘ اقتدار عالم خاں، ’’سرسید کے پنجاب کے پانچ سفر‘‘ اصغر عباس، ’’مسدس حالی، سرسید احمد خاں اور فیروز الدین فائض‘‘ ارشد محمود ناشاد، ’’سید احمد خاں اور مغل عہد‘‘ ڈیوڈلیلی ویلڈ/ محمد شمیم الزماں، ’’سرسید کا تاریخی شعور‘‘ اقتدار حسین صدیقی/ جمشید احمد ندوی، ’’سید احمد خاں اور تاریخ نویسی‘‘ عرفان حبیب، ’’آثار الصنادید کی اشاعتی تاریخ مع تجزیاتی مطالعہ‘‘ رفاقت علی شاہد، ’’آثار الصنادید: آثاریات پر ایک نادر دستاویز‘‘ ضیاء الرحمن صدیقی، ’’موازنہ ’’آثارالصنادید‘‘ و ’’سیر المنازل‘‘ محمد فرقان سنبھلی، ’’کتاب فقرات یعنی صد پند فارسی‘‘ شمس بدایونی، ’’سرسید کے سفرنامے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کی لاہور اور علی گڑھ کی اشاعت کا تقابل‘‘ حمیرا ارشاد، ’’حیاتِ جاوید کی حمایت میں‘‘ علی محمد خاں، ’’سرسید احمد خاں اور فارسی زبان‘‘ انجم حمید، ’’سرسید کا علمِ کلام‘‘ حبیب اللہ غضنفر، ’’سرسید کا مذہبی شعور‘‘ شوکت سبزواری، ’’سرسید کی اسلامی بصیرت کا تنقیدی جائزہ‘‘ جمال خواجہ، ’’سرسید کا نظریۂ عقل و فطرت‘‘ اسلوب احمد انصاری، ’’سرسید کی سیرت نگاری: ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے حوالے سے‘‘ محمد یاسین مظہر صدیقی، ’’سرسید پر ولی اللہی تحریک اور وہابی تحریک کے اثرات‘‘ اقتدار حسین صدیقی، ’’عصرِ حاضر میں سرسید کے تعلیمی مشن کی معنویت‘‘ محمد سعود عالم قاسمی، ’’سرسید کا سیاسی شعور‘‘ نورالحسن نقوی، ’’سرسید کا سیاسی نقطہ نظر‘‘ شان محمد، ’’انیسویں صدی، نشاۃ ثانیہ اور سرسید‘‘ شمیم حنفی، ’’سرسید کا سب سے اہم کارنامہ‘‘ معین الدین عقیل، ’’مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال میں سرسید کی معنویت‘‘ محمد یاسین، ’’سرسید مرحوم اور اردو لٹریچر‘‘ شبلی نعمانی، ’’اردو کا شعری و ادبی سرمایہ اور سرسید کا اصلاحی و افادی نقطہ نظر‘‘ قمر الہدیٰ فریدی، ’’سرسید کا اثر ادبیاتِ اردو پر‘‘ سید عبداللہ، ’’سرسید کا اسلوبِ نثر‘‘ ابوالکلام قاسمی، ’’سرسید احمد خاں: معاصرین و متاخرین کی نظر میں‘‘ سی ڈبلیو ٹرول/ قاضی افضال حسین، ’’سرسید احمد خاں اور مولانا محمد قاسم نانوتوی‘‘ ظفر احمد صدیقی، ’’سرسید کے ایک مخالف: مولوی علی بخش خاں شرر‘‘ آل احمد سرور، ’’سرسید کے ایک معاصر عالم حافظ محمد لکھوی‘‘ امجد علی شاکر، ’’سرسید اور محمد حسین آزاد‘‘ اصغر عباس، ’’سرسید… اکبر اور سرسید‘‘ خلیق انجم، ’’تحریکِ سرسید کی ایک اہم شخصیت: شمس العلما سید ممتاز علی‘‘ نازنین اختر، ’’سرسید شناسی کا دورِ اوّل اور ظفر علی خان‘‘ زاہد منیر عامر، ’’تنقید سرسید: اکیسویں صدی میں‘‘ امجد طفیل، ’’سرسید کا مخالف اخبار: میئو میموریل گزٹ‘‘ محمد عتیق صدیقی، ’’سرسید احمد خاں‘‘ عنایت اللہ، ’’آنریبل سرسید احمد خاں بہادر غفرلہٗ‘‘ عبدالرزاق کانپوری، ’’سرسید کی زندگی کے چند واقعات‘‘ شیخ محمد عبداللہ، ’’سرسید احمد خاں کی زندگی کے چند روحانی گوشے‘‘ راشد عزیز وارثی۔
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع کیا گیا ہے، امید ہے کہ سرسید شناسی کے سلسلے میں حوالے کی شکل میں زندہ و پائندہ رہے گا۔
ناشر کے علاوہ ملنے کے پتے:
ریڈنگز،12-K ، مین بلیوارڈ، گلبرگ2، لاہور
کوآپرا بُک شاپ اینڈ آرٹ گیلری، شاہراہ قائداعظم، لاہور
کتاب سرائے، غزنی اسٹریٹ اردو بازار، لاہور
مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی اسٹریٹ اردو بازار، لاہور
سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئر مال، لاہور