کتاب : ’’ویاج‘‘ (سُود) بزبانِ سندھی
(ویاج جوحرام ھہجن قرآن ء حدیث جی روشنیٔ مہ)
مصنف : سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ
مترجم : غلام مصطفی مشتاق میمن
صفحات : 363 قیمت:500 روپے
ملنے کا پتا : سندھ مسلم سوسائٹی ، واگنودر، شکارپور
سُود موجودہ سرمایہ داری پر مبنی نظام کا ایک بدنما اور مکروہ تحفہ ہے، جس نے نہ صرف عالمی سطح پر، بلکہ اسلامی ممالک کو بھی بڑے عذاب اور اذیت سے دوچار کررکھا ہے۔ یہ عذاب بے روزگاری، اور دولت کا چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا ہے۔ ظاہر ہے جب اللہ سے جنگ کی جائے گی تو اس کے سنگین اور ہولناک مضمرات کا سامنا بھی تو حضرتِ انسان ہی کو کرنا پڑے گا، اور جو وہ آج کررہا ہے۔ سود کے تباہی پر مبنی نظام کی وجہ سے دنیا کی آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی محروم ہوچکا ہے۔
دورِ حاضر کے عظیم مفکر اور مجدد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے زیر تبصرہ کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ سود کے حرام ہونے سے متعلق شرعی دلائل و براہین کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے اور فی الواقع اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اسلام کے نام پر حاصل کردہ مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی سود کا تباہ کن نظام رائج ہے جس نے غریب کو غریب تر، اور امیر کو امیر تر بنا ڈالا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کو اس حوالے سے ذرہ برابر احساس ہے اور نہ ہی اسے جاری و ساری رکھنے سے متعلق کسی نوع کا کوئی خوفِ خدا ہی لاحق ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قرآن و احادیث کی روشنی میں، اور عقلی دلائل و امثال کے توسط سے دنیا و آخرت میں سود کے تباہ کن نتائج سے اپنی اس کتاب میں بہ خوبی آگاہ کردیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بے حد پُراثر اور جامع و مانع کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر صاحبِ ایمان کے لیے ازبس ضروری ہے۔ کتاب سلیقے اور نفاست کے ساتھ عمدہ کاغذ پر چھپی ہے۔ خوب صورت سرورق اور عمدہ لوازمہ پر مشتمل یہ کتاب سندھی اہلِ زبان کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
’’شاعری ء شخصیت میراث‘‘
کتاب : ’’شاعری ء شخصیت میراث‘‘
بزبانِ سندھی
آغا ممتاز حسین خان درانی
شاعر : آغا ممتاز حسین خان درانی مرحوم
مرتب : پروفیسر آغا وقار خان درانی
صفحات : 202 قیمت:300 روپے
مطبع : نئوں نیاپو اکیڈمی۔ D-1 سچل گوٹھ، گلشن اقبال ٹائون کراچی
موبائل : 0346-2103811-0302-281166
زیر تبصرہ کتاب آغاز ممتاز حسین خان درانی مرحوم کے فن، فکر اور شخصیت پر تحریر کردہ مضامین سمیت اُن کی خوب صورت اور پُراثر شاعری پر مبنی ہے۔ آغا صاحب مرحوم سندھی زبان میں نظم، گیت، غزل اور ابیات سمیت مختلف اصناف میں جو شاعری کیا کرتے تھے، اس سارے غیر مطبوعہ کلام کو ان کے لائق و فائق فرزندِ ارجمند پروفیسر آغا وقار حسین درانی نے بڑی محنت اور محبت سے ترتیب دے کر خوب صورت انداز میں طبع کروایا ہے۔ آغا ممتاز حسین مرحوم نے آج سے لگ بھگ چھ عشرے قبل سندھ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی ماحول کی ناہمواریوں سے متعلق جو پُراثر شاعری کی تھی اُسے آج بھی پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ گویا ہم موجودہ سندھ کے حالات کے بارے میں اُن کے جذبات بہ صورتِ شاعری پڑھ رہے ہیں۔ ساٹھ برس پہلے جس طرح بیوروکریٹس اور سیاسی رہنما بدعنوانی اور لوٹ مار… جبکہ پیر، میر، وڈیرے اور بھوتار عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک روا رکھتے تھے اُس کی عکاسی اور ترجمانی آغا صاحب مرحوم نے اپنی شاعری میں مؤثر انداز میں کی ہے۔ ان کی اتنا عرصہ پہلے کی گئی یہ شاعری آج بھی بالکل نئی اور تروتازہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب میں آغا مرحوم اور ان کے صاحب زادے کتاب کے مرتب کنندہ آغا وقار کی کئی یادگار اور تاریخی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ مشہور دانشور رسول بخش پلیجو مرحوم، ممتاز کالم نگار دستگیر بھٹی اور منظور سولنگی، حکیم آغا مرتضیٰ خان عباسی، سرمد چانڈیو، منیر سولنگی، سرکش سندھی، غلام مصطفی دل، اشرف الزمان، پیر چندامی اور علی احمد بروہی جیسی علمی و ادبی شخصیات نے آغا صاحب مرحوم کے فن، فکر اور شخصیت پر جو مضامین لکھے ہیں انہیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آغا ممتاز حسین درانی مرحوم کتنے بڑے شاعر، مصلح اور بے باک شخصیت کے مالک تھے۔ اس کتاب کی اشاعت پر مرتب داد کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ سرورق پر آغا مرحوم کی تصویر دی گئی ہے۔ سفید کاغذ پر سلیقے کے ساتھ چھپنے والی اس کتاب کی قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔