ابوسعدی
حضرت ابراہیم علیہ السلام (2160ق م۔1985 ق م) عراق کے موجودہ شہر بصرہ کے جنوب میں واقع ایک قدیم شہر ’’اُر‘‘ میں پیدا ہوئے۔ یہاں کسدیوں کی آبادی تھی، جو مذہباً صابی تھے۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی کی تحقیق کے مطابق، یہ لوگ ابتداً خدا پرست تھے، مگر بعد میں یہ بت پرست ہوگئے۔ اسی شہر کے سب سے بڑے پجاری آزر کے ہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ جدید تحقیقات سے علم ہوتا ہے کہ آپ حمورابی کے عہد میں تھے۔ تورات کی ایک روایت کے مطابق آپ کی عمر پونے دوسو سال تھی۔ قرآن مجید میں آپ کا قدرے تفصیل سے تذکرہ ملتا ہے، جسے مختلف تفاسیر اور قصص انبیا کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ عرفانِ حق، بعثِ نبوت، ماحول سے تصادم، بت شکنی، آتشِ سوزاں، نمرود کی حکمرانی، ہجرتِ شام و کنعان و مصر، ولادتِ اسمٰعیل، ولادتِ اسحق اور تعمیر حرم مشہور واقعات ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی فارسی اور اردو شاعری میں آپ کا متعدد مقامات پر تذکرہ کیا ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
روزی کے بارے میں حضرت بایزید کا مؤقف
حضرت بایزید بسطامی کبائر صوفیہ میں سے تھے۔ ان کے بعض اقوال روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتے ہیں:
تکبر کی علامت یہ ہے کہ لوگوں سے اپنے آپ کو افضل سمجھا جائے۔ جس نیکی سے نور یا علم کا پھل حاصل نہ ہو، اسے نیکی نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس گناہ کے سرزد ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا خوف لاحق ہوجائے اور توبہ کی سعادت حاصل ہوجائے، اسے گناہ نہ سمجھا جائے۔
آپ نے ایک امام کے پیچھے نماز ادا کی۔ بعد نماز امام نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کی روزی کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ذرا صبر کرو، پہلے میں نماز کا اعادہ کروں، اس کے بعد جواب دیتا ہوں۔ اعادۂ نماز کے بعد آپ نے فرمایا: جو شخص روزی دینے والے کو نہ جانے، اس کے پیچھے نماز روا نہیں۔
(اصلاحِ نفس کا لائحہ عمل۔محمد موسیٰ بھٹو)
ہمسایوں کے باغیچے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو افراد ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں رہتے تھے۔ ان میں سے ایک ریٹائرڈ ٹیچر، جبکہ دوسرا انشورنس ایجنٹ تھا۔ دونوں نے اپنے باغیچوں میں مختلف اقسام کے پودے اگا رکھے تھے۔ ریٹائرڈ ٹیچر اپنے پودوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور ان کو زیادہ پانی بھی نہیں دیتا تھا۔
دوسرا ہمسایہ جسے ٹیکنالوجی میں بھی دلچسپی تھی، اپنے پودوں پر بھرپور توجہ اور پانی بھی وافر مقدار میں دیتا تھا۔ ریٹائرڈ ٹیچر کے پودے سادہ لیکن اچھے دکھائی دیتے تھے۔ انشورنس ایجنٹ کے پودے بھرپور اور زیادہ سرسبز تھے۔ یہ ایک رات کی بات ہے، بھرپور بارش اور طوفان نے بستی کو آلیا۔ اگلے دن دونوں باہر نکلے تاکہ اپنے باغیچوں کا معائنہ کرسکیں۔ جو ہمسایہ انشورنس ایجنٹ تھا، اس نے دیکھا کہ اس کے باغیچے کے پودے جڑوں سے اکھڑ پڑے ہیں جبکہ ریٹائرڈ ٹیچر کے پودے صحیح سلامت لہلہا رہے تھے۔ انشورنس ایجنٹ یہ دیکھ کر حیران ہوا۔ وہ ریٹائرڈ ٹیچر کے پاس گیا اور پوچھا: ’’ہم دونوں نے وہی پودے اکٹھے اگائے تھے۔ میں نے تمہارے مقابلے میں اپنے پودوں کی زیادہ دیکھ بھال کی اور زیادہ پانی دیا، اس کے باوجود میرے پودے جڑوں سے اکھڑ گئے، جبکہ تمہارے پودوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا، اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘
ریٹائرڈ ٹیچر مسکرایا اور بولا: ’’تم نے اپنے پودوں کو زیادہ توجہ اور پانی دیا، اس باعث انہیں خود سے زیادہ کام نہیں کرنا پڑا۔ تم نے ان کے لیے آسانی پیدا کردی۔ میں نے کم پانی دیا اور انہیں اپنے آپ پر چھوڑ دیا کہ وہ خود سے اپنی جڑوں کو پھیلائیں اور پانی تلاش کریں۔ ان کی جڑیں گہرائی میں چلی گئیں اور مضبوط ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسم کی سختی کے باوجود میرے پودے قائم رہے‘‘۔
اس کہانی میں والدین کے لیے سبق ہے۔ اگر وہ اپنے بچوں کو ہر چیز فراہم کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں سیکھ پائیں گے کہ چیزوں کے حصول کے لیے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ خود سے کام کرنا نہیں سیکھیں گے، نہ ہی محنت کی قدر کریں گے۔ بعض اوقات دینے کے بجائے بچوں کی رہنمائی کرنا بہتر ہے۔ اپنے بچوں کو چلنا سکھائیں، لیکن انہیں اپنے رستے پر خود چلنے دیں۔
(مرتب: علی حمزہ۔بشکریہ: اقدارِ ملت، اسلام آباد)