پاکستان میں اہلِ سیاست کی بدعنوانیاں بے نقاب ہورہی ہیں اور وہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑے کیے جارہے ہیں۔ سرکاری افسروں کی رشوت خوری کا بھی حساب کتاب لیا جارہا ہے۔ صنعت کاروں اور تاجروں نے بینکوں اور دوسرے اداروں کے منتظمین کے ساتھ سازباز کے ذریعے جو لوٹ مار کی تھی وہ بھی سامنے آرہی ہے۔ یہ مطالبہ بھی ہے کہ احتساب کے دائرے میں فوجی جنرلوں کو بھی لایا جائے کہ بعض کور کمانڈر ’’کروڑ کمانڈر‘‘ کیسے ہوگئے۔ لیکن حکومت کس کس کا احتساب کرے گی! کرپشن کے حمام میں سبھی بے لباس ہیں۔ کیا امیر اور کیا غریب، جس کو جہاں موقع ملا، وہاں اس نے کرپشن کی۔ رکشا والے کا میٹر غلط ہے، گھروں میں بجلی کے میٹروں کی بھی ہیرا پھیری ہے، درزی کپڑا چرا لیتا ہے، دکان دار ناپ تول میں گڑبڑ کرتے ہیں۔ غرض ہر سطح پر کرپشن ہے، اور یہ خیال کہ حکومتی طاقت سے اس کرپشن کو ختم کیا جاسکتا ہے، غلط ہے۔ اس کے لیے تو حکومتی اقدامات کے ساتھ دل اور دماغ کی تبدیلی بھی ضروری ہے، مگر یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟
ہم مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب کو اس کرپشن کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کہ نظام سرمایہ داری نے ہر سینے میں ہوسِ دولت بھڑکا دی ہے، اور سادہ طرزِ زندگی کے بجائے تکلفات و تعیشات کی زندگی کے لیے کرپشن کی جارہی ہے۔ لیکن مغرب میں تو ایسی کرپشن نہیں ہے جو ہم مشرق میں دیکھتے ہیں۔ مغربی دنیا میں کسی کی کرپشن بے نقاب ہوجائے تو معاشرہ اُس کے خلاف نفرت کا اظہار کرتا ہے، اور وہ اس کرپشن کی سزا بھی پاتا ہے، خواہ یہ کرپشن ٹیکس چوری کی ہو یا غیر عورت سے تعلق کی۔ مگر ہمارے ملک میں کسی شخص کی کرپشن کے ہزار قصے بیان ہوں اور اُس کی بڑی بڑی بدعنوانیوں کا پردہ چاک ہوجائے، اُس شخص کے خلاف صرف اُس کے سیاسی یا ذاتی مخالفین ہی زبانِ طعن دراز کرتے ہیں، حامیوں کو اپنے گروہ یا جماعت کے رہنما کی کرپشن بری نہیں لگتی۔ عام لوگ بھی اسے کوئی خاص برائی نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے عوام کرپٹ لوگوں کو ہی اپنا رہبر و رہنما بناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیاست میں، کاروبار میں، دفتری زندگی میں، قانون اور اخلاق کے ضابطوں سے قطع نظر کرنا ہی ہوتا ہے۔ اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم اُن علما کو بھی منبر و محراب پر جگہ دیتے ہیں جو معلوم نہیں کہاں سے ایسی دولت لے آئے ہیں کہ شاندار کوٹھیوں میں رہتے ہیں، خدمت گاروں کا لشکر رکھتے ہیں، کاروں اور ہوائی جہازوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔
مغرب اور مشرق میں فرق یہ ہے کہ مغرب اپنی مادہ پرستی کے باوجود کرپشن کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن ہماری روایتی مذہبی ذہنیت بھی کرپشن کے بڑے بڑے اونٹ نگل جاتی ہے۔ اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کوئی قانون ایسا نہیں رہا جسے توڑا نہ جاسکے۔ اور جب یہ صورتِ حال ہوجاتی ہے تو آخرکار ہر فردکو اس کا نقصان ہوتا ہے، یا گھرانوں کے لیے اقتصادی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اور اخلاقی بھی۔ آپ دکان پر جاتے ہیں اور دکاندار کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں، گھر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اصلی کی جگہ نقلی چیز دے دی گئی۔ عام گاہک چھوٹے دکاندار سے، چھوٹا دکاندار تھوک کے بڑے تاجر سے، اور بڑا تاجر کارخانہ دار سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر کرپشن کا نقصان ہر شخص کے حصے میں آتا ہے۔ ایک شخص ایمان داری سے برآمدی تجارت کرتا ہے، لیکن دوسروں کی بے ایمانی کے سبب بیرونی منڈی میں اُس کے مال کی کھپت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اندرون ملک بھی یہ ہوتا ہے کہ آپ بیماری سے شفا کے لیے دوا خریدتے ہیں مگر دوا اور انجکشن جعلی ہوتا ہے۔ آپ بچے کو اچھی تعلیم کے لیے بڑے اسکول میں بھاری فیس دے کر بھیجتے ہیں، لیکن تعلیم کے تاجر اسے اچھی تعلیم نہیں دیتے۔ ٹھیکیدار پل، عمارت، سڑک بنانے میں بے ایمانی کرتا ہے، پیٹرول سے لے کر لال مرچ تک میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ کاریگر اور مزدور کچھ نہیں کرسکتے تو کام چوری کرتے ہیں۔ اس طرح سارا کلچر کرپشن کا ہوگیا ہے۔ اب یہ کلچر کیسے ختم ہو؟
اس کے لیے پہلی ضروری بات تو یہ ہے کہ ہماری قیادت اخلاقی معیارات پر پوری اترنے والی ہو۔ ان کے رہن سہن اور طور طریقے دیکھ کر دنیا یہ کہہ دے کہ واقعی یہ لوگ اصولوں کے پکے، کھرے اور دیانت دار ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ آج کے دور میں ہمارے حکمران حضرت عمرؓ کی طرح نہیں ہوسکتے کہ کپڑوں میں پیوند لگے ہوئے ہوں حالانکہ اُس وقت قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے تھے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہاکہ آپ اپنے لباس کی طرف توجہ فرمائیں، آپ کو دنیا کے سفیروں سے ملنا پڑتا ہے اور مسلمانوںکو شرم آتی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: افسوس تم دونوں امت کی مائیں ہوکر مجھے دنیاداری کی ترغیب دے رہی ہو۔ اے عائشہؓ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ تمہارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا جس کو دن میں بچھایا اور رات کو اوڑھ لیا جاتا تھا۔ اس پر امہات المومنین بے اختیار رو پڑیں اور دیر تک روتی رہیں۔ حضرت عمرؓ بھی رو دیئے تھے۔
یہ دور اب واپس نہیں آسکتا۔ زمانے کی قدریں بدل گئی ہیں۔ دراصل دوسری پارٹیوں کے منشور اور مینی فیسٹو کاغذی ہوتے ہیں۔ اسلام کا منشور عہدِ صحابہؓ کے زندہ اور چلتے پھرتے لوگ تھے۔ اس آئیڈیل کو چھونا ممکن نہیں ہے، لیکن اسے نظر میں رہنا چاہیے خاص طور پر مسلمانوں کی قیادت کے لیے۔ آج یہ تو ضرور ہوسکتا ہے اور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کی قیادت اگر مغربی ملکوں کی قیادت سے اخلاقی طور پر بہتر نہ ہو تو اُن کے برابر ہو۔ اگر ایسی قیادت ہوگی تو اوپر سے نیچے تک ہر جگہ نیا ذہن ہوگا اور مُردہ ضمیر جاگ سکیں گے۔ ورنہ اوپر کے لوگ لوٹ مارکرتے رہیں تو عوام پر اخلاقی مواعظ کا کیا اثر ہوسکتا ہے، اور احتساب کا ڈنڈا بھی کہاں کہاں کامیاب رہے گا! کرپشن کے کلچر کے خاتمے کے لیے صرف ایک چیز چاہیے اور وہ ہے انقلابِ قیادت، وہ قیادت جس کا اخلاقی معیار ہو۔
(28جنوری 2000ء)