ایران امریکہ کشیدگی، تاریخی پس منظر

خلیج فارس میں امریکی فوج کے غیر معمولی اجتماع کے حقیقی محرکات کیا ہیں

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی وزارتِ دفاع المعروف پینٹاگون کے حوالے سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ ایرانی فوج اور ان کے حاشیہ بردار (Proxies) شام، عراق یا کھلے سمندروں میں امریکہ کے خلاف بڑی عسکری کارروائی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے مطابق ایران آبنائے ہرمز کو بند کرکے خلیجی ممالک سے تیل کی برآمد کا راستہ مسدود کرنا چاہتا ہے۔21 میل چوڑی آبنائے ہرمز خلیج فارس کو بحر عرب سے ملاتی ہے اور دنیا کا 40 فیصد خام تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔ اس خبر کے بعد اپنے ایک بیان میں قومی سلامتی کے لیے صدر ٹرمپ کے مشیر جان بولٹن نے کہا کہ امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر امریکی مفادات پر نگاہِ غلط ڈالی گئی تو اچھا نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی طیارہ بردار جہاز ابراہام لنکن، جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں اور B-52بمبار خلیج فارس کی طرف روانہ کردیئے گئے۔ اس کے دوسرے دن میزائل شکن نظام اور فضا سے زمین و سمندر پر مار کرنے والے میزائلوں کی ایک کھیپ بھی قطر میں امریکی اڈے العدید پہنچا دی گئی۔ دوحہ کے جنوب میں واقع یہ ہوائی اڈہ ابونخلہ ائرپورٹ کہلاتا ہے جہاں امریکہ کی مرکزی کمان (CENTCOM)کا فیلڈ ہیڈکوارٹر ہے۔ اس کے علاوہ ابونخلہ ائرپورٹ کے ایک حصے پر برطانیہ کی شاہی فضائیہ نے بھی ایک اڈہ قائم کررکھا ہے۔ یہاں امریکہ کے 11ہزار فوجی تعینات ہیں۔ اس اڈے پر اپنے پروں کے نیچے خوفناک و تباہ کن میزائل اور بم نصب کیے امریکی فضائیہ کے 100 سے زیادہ جدید ترین لڑاکا و بمبار طیارے چند سیکنڈ کے نوٹس پر پرواز کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
امریکہ ایران کشیدگی 68 سال پرانی ہے۔ اس کا آغاز 28 اپریل 1951ء کو اُس وقت ہوا جب آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں محمد مصدق ایران کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ایرانی دولت کا منبع 1908ء میں خوزستان صوبے کے مقام مسجد سلیمان سے دریافت ہونے والا تیل تھا۔ تیل و گیس کا سارا کاروبار اینگلو پرشین آئل کمپنی (APOC)کے ہاتھ میں تھا جو پہلے تو برطانوی حکومت کی ملکیت تھی، لیکن ایران کی آزادی کے بعد APOCکے کچھ حصے امریکی صنعت کاروں نے بھی خرید لیے۔
برسراقتدار آتے ہی ایرانی وزیراعظم نے APOC سے تیل کی برآمد اور فروخت کی تفصیلات طلب کیں۔ کمپنی نے وزیراعظم کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ APOC برطانیہ اور امریکہ کی کمپنی ہے جو ایران کی آزادی سے پہلے قائم ہوئی، اور اس کا حکومتِ ایران سے کوئی تعلق نہیں۔ اس جواب پر ایران کی مجلس (پارلیمنٹ) نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور ایرانی شاہ سے مطالبہ کیاکہ وہ ایک فرمان کے ذریعے APOCکو معقولیت کی طرف مائل کریں، لیکن شاہ ایران خود ہی وزیراعظم اور پارلیمینٹ کے بڑھتے ہوئے اختیارات سے خوفزدہ تھے، چنانچہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ وہ اندرون خانہ برطانیہ اور امریکہ کو اپنی حمایت کا یقین بھی دلاتے رہے۔
مجبور ہوکر وزیراعظم مصدق نے APOCکو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس جسارت پر امریکہ اور برطانیہ دونوں ہی سخت مشتعل ہوئے۔ سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی MI6 نے فوجی انقلاب کے ذریعے مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مصدق پہلے جیل اور اس کے بعد گھر پر نظربند کردیئے گئے۔ فوجی انقلاب کی قیادت کرنے والے جنرل فضل اللہ زاہدی نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے بعد تمام اختیارات شاہ ایران کے حوالے کردیئے اور ایران ایک آئینی بادشاہت سے مطلق العنان شہنشاہیت میں تبدیل ہوگیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ 2013ء میں امریکہ نے مصدق کے خلاف بغاوت میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔
ایران میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کا آغاز جنوری 1978ء سے ہوا جب تقریباً ساری ایرانی قوم شاہ ایران کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاہ ایران کی غیر ضروری امریکی حمایت کی بنا پر یہ تحریک ’’مرگ بر امریکہ‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ سی آئی اے کی حمایت سے شاہ ایران نے حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کیا۔ حتیٰ کہ ملائوں کو بدنام کرنے کے لیے تماشائیوں سے بھرے سنیما گھروں میں بم دھماکے بھی کیے گئے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے، مظاہرین پر فوجی ٹینک چڑھا دیئے گئے، لیکن عوامی تحریک جاری رہی اور آخرِکار 16 جنوری 1979ء کوشہنشاہ ایران ملک سے فرارہوگئے، جس کے دو ہفتے بعد حضرت آیت اللہ خمینی اپنی جلاوطنی ترک کرکے فاتحانہ انداز میں تہران ائرپورٹ پر اترے اور یکم اپریل 1979ء کو ملک گیر ریفرنڈم کے بعد ایران کو اسلامی ری پبلک قرار دے دیا گیا۔
نومبر 1979ء کو ایرانی طلبہ نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے سفارت کاروں کو یرغمال بنالیا۔ 444 دن جاری رہنے والے اس قبضے کے دوران کئی بار ایران اورامریکہ کے درمیان مسلح تصادم کے آثار پیدا ہوئے۔ 24 اپریل 1980ء کو امریکی فوج نے اپنے یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے پنجہِ عقاب آپریشن یا Eagle Claw کے نام سے چھاپہ مار حملہ کیا جو مکمل ناکامی سے ہم کنار ہوا۔ 8 امریکی فوجی ایرانی صحرا میں مارے گئے، ایک دیوقامت ٹرانسپورٹ جہاز اور جدید ترین فوجی ہیلی کاپٹر تباہ ہوگئے، جبکہ 5 ہیلی کاپٹروں پر ایرانیوں نے قبضہ کرلیا۔ اس ہزیمت کے بعد ایران پر امریکی حملے کی افواہیں دم توڑ گئیں۔
آپریشن پنجہِ عقاب میں ناکامی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اکسانے پر 22 ستمبر 1980ء کو عراق نے ایران پر حملہ کردیا۔ اس جنگ کے دوران ایران امریکہ کشیدگی اپنے عروج پر رہی، کیونکہ ایرانیوں کا خیال تھا کہ صدام حسین امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں، اور امریکی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں کئی بار ان جہازوں سے ’’چھیڑخانی‘‘ کی جو اسلحہ لے کر ایران آرہے تھے۔ تقریباً آٹھ سال جاری رہنے والی اس جنگ میں ایران و عراق کے لاکھوں لوگ مارے گئے اور مجموعی نقصان کا تخمینہ 15سوارب ڈالر ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ تنازعے کے پہلے مرحلے کا آغاز 2007ء میں اُس وقت ہوا جب ایران نے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنارہا ہے۔ 2010ء میں ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں اور چین نے وعدے کے باوجود پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہ کیا۔
سخت پابندیو ں سے پریشان ہوکر ایران نے مذاکرات شروع کیے اور برسوں کے جانگسل مول تول کے بعد 14 جولائی 2015ء کو پابندیان ہٹانے کے عوض ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے پر رضامند ہوگیا۔ معاہدے کے متن کی تیاری کا مرحلہ بھی اتنا آسان نہ تھا۔ آخرکار 18 اکتوبر 2015ء کو معاہدے پر دستخظ کے بعد 16 جنوری 2016ء سے اس پر عمل درآمد شروع ہوا، اور ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہدہ برنامہ جامع اقدام مشترک (Joint Comprehensive Plan of Action) یا JCPOAکہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی JCPOA فریق ہے۔ چنانچہ اسے5+1معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کو صدر اوباما اور اقوام متحدہ نے مثالی قراردیا کہ طاقت کے استعمال کے بغیر جوہری تنازع پُرامن انداز میں حل کرلیا گیا۔ لیکن اسرائیل کو JCPOA پر شدید تحفظات تھے۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی مہم چل رہی تھی۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ JCPOAکے سخت مخالف تھے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قراردیا، اور ان کا خیال تھا کہ ایرانیوں نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر ایک جعلی معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ برسراقتدار آکر وہ اس معاہدے کو منسوخ کردیں گے۔ دلچسپ بات کہ JCPOAکی امریکی سینیٹ سے ایک کے مقابلے میں 98 اور ایوان زیریں سے 25 کے مقابلے میں 400 ووٹوں سے توثیق ہوچکی ہے۔
معاہدے کو عالمی جوہری کمیشن IAECکی سہ ماہی تصدیق سے مشروط کیا گیا ہے۔ IAEC اب تک ایرانی جوہری تنصیبات کے 10 معائنے کرچکا ہے اور ہر بار اس کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ایران جوہری معاہدے پر مخلصانہ عمل درآمد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ نے مارچ 2018ء میں JCPOAکی تصدیق فرمائی۔
تاہم تصدیق کے صرف دو ماہ بعد 8 مئی کو اپنی نشری تقریر میں صدر ٹرمپ نےJCPOA سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا۔ ان کے لیے امریکی کانگریس سے اپنے فیصلے کی توثیق ممکن نہ تھی، چنانچہ انھوں نے صدارتی فرمان جاری کرکے اپنی خواہش کو مہر تصدیق عطا کردی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے عالمی برادری پر زوردیا کہ ایران پر دوبارہ وہی پابندیاں عائد کردی جائیں جو رول بیک کے اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایک آمرانہ حکومت ایرانی عوام کے سروں پر مسلط ہے جو 1979ء کے شدت پسند اسلامی انقلاب کا تسلسل ہے، ملّائوں کی یہ حکومت مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی راہ پر گامزن ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران یمن میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے، ایران حزب اللہ، حماس اور القاعدہ کا پشتی بان ہے اور مرگ بر امریکہ و مرگ بر اسرائیل ایران کا قومی نعرہ ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کی مدد کے علاوہ ایران عراق اور افغانستان میں بھی شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ ایران درپردہ (proxy) لڑائیوں کی سرپرستی کے ذریعے علاقے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے تہران علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے تہران کے خلاف فردِ جرم میں یہ الزام بھی ٹانک دیا کہ ایرانی حکومت شمالی کوریا کو مالی و تیکنیکی مدد فراہم کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار یا حاصل نہ کرسکے، تہران پر عبرت ناک پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
اسی کے ساتھ امریکی دفتر خارجہ نے ایران پر سیاسی و سفارتی دبائو کے لیے ایک منظم مہم شروع کردی۔ امریکی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر منصوبہ بندی جناب برائن ہک (Brian Hook) نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ایران کوئی ’عام‘ یا normal ملک نہیں۔ عام ملک دہشت گردی کو فروغ نہیں دیتا اور نہ مہلک میزائل دنیا بھر میں بانٹتا پھرتا ہے، چنانچہ اس غیر معمولی ملک پر غیر معمولی دبائو ضروری ہے۔ چنانچہ 4 اگست سے ایران پر پابندیاں عائد کردی گئیں اور تیل کے علاوہ ایران سے باہر بھیجی جانے والی ہلکی کاروں، موٹر سائیکلوں، سونا، المونیم، فولاد اور دوسری برآمدات پر پابندی لگادی گئی۔ ابتدا میں چین، جاپان، ترکی، ہندوستان، جنوبی کوریا اور اٹلی کو ایرانی تیل پر پابندی سے 90 دن کا استثنا دیا گیا۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد سے ایرانی برآمدات پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے۔
ابتدا میں JCPOA سے امریکہ کی علیحدگی پر اُس کے یورپی اتحادیوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔مغربی رہنمائوں کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ جوہری عدم پھیلائو کا ایک ستون ہے جسے ختم کرنے سے عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما جان کیری نے کہا کہ صدر ٹرمپ جوہری معاہدے کی عدم تصدیق سے بین الاقوامی بحران پیدا کررہے ہیں جس سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
زبانی جمع خرچ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ روس اور چین بھی طوعاً و کرہاً ایران کے خلاف چچا سام کے شانہ بشانہ ہوگئے۔ سفارتی حمایت سے محروم ہونے پر ایرانی صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ کی بدعہدی پر دنیا کی خاموشی افسوس ناک ہے، لیکن اگر ہمارے تیل پر پابندی لگائی گئی تو آبنائے ہرمز محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ ایرانی صدر کا کہنا ہے کہ اگر بازار کے دروازے ایرانی تیل پر بند ہوئے تو پھر آبنائے ہرمز سے ایک بوند تیل نہیں گزر سکے گا۔
اس ماہ کے آغاز پر ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے یورپی یونین کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا ملک JCPOA پر اخلاص کے ساتھ عمل کررہا ہے، چنانچہ دوسرے فریق کو بھی اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ جناب ظریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اصولی مؤقف کی حمایت کے بجائے امریکہ کی تحریک پر تمام دوسرے دستخط کنندگان نے بھی ایرانی تیل کی خریداری منقطع کردی ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے 60 دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس عرصے میں ان ملکوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو تہران JCPOA سے علیحدہ ہوکر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردے گا۔
ایرانی وزیرخارجہ کے خط کے جواب میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے نوٹس کو مسترد کردیا۔ بیان میں ایران پر زوردیا گیا ہے کہ JCPOA پر مخلصانہ عمل درآمد جاری رکھا جائے۔ اس خط میں بڑی صراحت سے اس بات کی تصدیق اور تحسین کی گئی ہے کہ ایران اب تک اس معاہدے پر اس کے متن اور روح کے مطابق عمل کررہا ہے۔
اسی کے ساتھ پینٹاگون کے حوالے سے وہ اطلاع شائع ہوئی جس کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا ہے۔ سنسنی پیدا کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو جرمنی کا پہلے سے طے شدہ دورہ معطل کرکے اچانک بغداد پہنچے جہاں انھوں نے عراقی قیادت کو باور کرایا کہ اگر یہاں موجود امریکی سپاہیوں پر حملہ ہوا تو اچھا نہ ہوگا۔ ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے مائک پومپیو نے کہا کہ گفتگو بے حد خوشگوار رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فوجیوں کی حفاظت کے حوالے سے عراقیوں کو اپنی ذمہ داری کا اندازہ ہے اور یہاں امریکی فوجیوں کی حفاظت کا انتظام ہماری توقع کے عین مطابق ہے۔
بظاہر امریکیوں کی جانب سے پیش بندی کے نام پر جارحانہ اقدامات سے ایران مرعوب یا پریشان نظر نہیں آرہا۔ اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے کہا کہ امریکہ اور اُس کے گماشتوں کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ انھیں علاقے کے عوام کی ناپسندیدگی کا سامنا ہے۔ روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر قومی سلامتی نے سرکاری ٹیلی ویژن Press TV پر ایک بیان میں کہا کہ امریکیوں میں ایران پر حملہ کرنے کی نہ تو ہمت ہے اور نہ صلاحیت۔ خلیج میں امریکی طیارہ بردار جہاز اور بمباروں کی آمد معمولی گشت کا حصہ ہے اور رائی کا پہاڑ بناکر جان بولٹن اپنی نوکری پکی کررہے ہیں۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ خلیج فارس میں امریکی فوج کے غیر معمولی اجتماع کے حقیقی محرکات کیا ہیں۔ بظاہر تو یہ ایران کی متوقع جارحیت کے خلاف دفاعی پیش بندی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کے ایرانی اعلان پر اسرائیل اور امریکہ سخت مشتعل ہیں۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے پُرعزم ہے اور وزیراعظم نیتن یاہوکہہ چکے ہیں کہ اگر دنیا خاموش رہی تو اسرائیل اس خطرے کا سدباب خود کرے گا۔ صدر ٹرمپ کو اگلے برس نئے انتخابات کا سامنا ہے اور وہ ’اسلامی‘ ایران کے خلاف سخت کارروائی کے ذریعے اپنا مسلم مخالف قدامت پسند ووٹ پکا کرنا چاہتے ہیں۔
اس ضمن میں 12 مئی کو متحدہ عرب امارات میں الفجیرہ کی بندرگاہ پر حملہ معنی خیز ہے۔ اس ’پراسرار‘ حملے میں دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت 4 جہازوں کو نقصان پہنچا۔ اماراتی حکام نے اب تک نہ تو حملے کی تفصیلات بیان کی ہیں اور نہ کسی گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حسب توقع وہائٹ ہائوس نے اس حملے کے پیچھے ایران کے ہاتھ کا مبہم سا شک ظاہر کیا ہے۔ اگر امریکہ ایران کے گھیرائو میں سنجیدہ ہے تو یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں، کہ چچا سام اسلام آباد کو اس جنگ کا ہراول دستہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستانی حکام کو شک ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گرد وارداتوں کے لیے ایرانی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ فرقہ وارانہ تعصب کے زیراثر پاکستان اور ایران کے درمیاں خلیج پہلے ہی خاصی گہری ہے۔ آئی ایم ایف اور FATFکی صورت میں ایک طرف پاکستان امریکہ کے شدید دبائو میں ہے تو دوسری طرف اعلیٰ عہدوں پر براجمان آئی ایم ایف کے تنخواہ دار امریکہ کو مفت میں ترغیب کاری (Lobby) کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔ امریکیوں کے خیال میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے یہ گرم لوہے پر ضرب لگانے کا نادر موقع ہے۔

………
اب آپ مسعودابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔