بلوچ عسکریت پسندوں میں خودکش حملوں کا رجحان
گوادر کی گہری ترین بندرگاہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد خطے کے ممالک سمیت دنیا بھر میں شہرت حاصل کرچکی ہے، جس پر اڑوس پڑوس اور دور دراز ممالک کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ گوادر کو اتوار 12 مئی 2019ء کو بلوچ عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ گویا یہ حملہ گوادر بندرگاہ اور وہاں موجود چینی عملے، پاک فوج، بحریہ اور دوسری فورسز پر تھا، جس کے لیے مقام گوادر کے ’’کوہ باطل‘‘کی بلندی پر واقع پنج ستارہ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کی عمارت کو چنا گیا۔ ہوٹل کے دائیں بائیں اور سامنے ایستادہ نیلگوں سمندر کا نہایت ہی دلفریب منظر ہے۔ بلوچستان کا یہ واحد پنج ستارہ ہوٹل پرویزمشرف کے دور میں ہاشوانی گروپ نے تعمیر کیا، جب گوادر بندرگاہ کو آپریشنل بنانے کے لیے پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی سے معاہدہ کیا گیا۔ اسی دور میں کوسٹل ہائی وے کی تعمیر بھی ہوئی۔ جیسے کہا گیا کہ اس عمارت سے پاک بحریہ، قریب واقع دیگر فورسز کے دفاتر اور عقبی حصے میں یعنی پہاڑ کے نیچے پورٹ کو ہدف بنانا منصوبہ بندی کا حصہ تھا تاکہ دستیاب اسلحہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نقصان کیا جائے۔ چنانچہ تین بلوچ نوجوان فورسز کی وردی میں ہوٹل کی حدود میں داخل ہوئے۔ پہلے پہل راہ میں کھڑے ہوٹل کے دو محافظوں کو گولیاں ماریں، اندر گئے اور وہاں دوسروں کو بھی نشانہ بنایا۔ یعنی ہوٹل کا سیکورٹی سپروائزر اویس علی شاہ، سیکورٹی محافظ ظہور اور بلال، اور فوڈ منیجر فرہاد جاں بحق ہوئے، جبکہ ہوٹل کا سول انجینئر جاوید اور ایک محافظ زخمی ہوگئے۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی فورسز پہنچ گئیں، عمارت کو مکمل محاصرے میں لے لیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی نگرانی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ یوں فوج کے 46 ایف ایف، 35 ایف ایف، 25سندھ، 21 ایف ایف، ایف سی کے 133 اور 88 ونگ، بحریہ کے کمانڈوز، اس طرح فوج کی فائیو لائٹ کمانڈو بٹالین کے کمانڈوز نے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ فورسز نے پہلے وہاں موجود افراد اور چیدہ چیدہ مہمانوں کو محفوظ بنایا۔ یقینی طور پر حملے کی اسکیم کے تحت ہوٹل کے اندر رہائش پذیر افراد یا غیر ملکی مہمانوں کو نشانہ بنانا مقصود تھا۔ لیکن وہاں غیر ملکی موجود نہ تھے جس کی مختلف ذرائع سے بھی تصدیق ہوگئی ہے۔ ہوٹل کے اندر سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ حملہ آور ہوٹل کی چوتھی منزل پر پہنچ گئے تھے اور نیچے کی منزل کے راستوں میں بم نصب کردئیے تھے۔ ان کے پاس خودکار اسلحہ، دستی بم، راکٹ لانچر بھی تھے۔ فورسز اور ان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ اطلاعات ہیں کہ ان افراد نے عمارت سے بندرگاہ اور بحریہ کے دفاتر پر راکٹ فائر کیے، دستی بم پھینکتے رہے۔ چناں چہ رات گئے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معلوم ہوا کہ سب کے سب حملہ آور مارے گئے ہیں۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ مقابلے کے بعد ان افراد نے خود کو گولیاں مار کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ شام ہی کو شدت پسند تنظیم نے ذمہ داری قبول کرلی۔ حملہ کرنے والے نوجوانوں کی تصاویر، انگریزی زبان میں ان کا ویڈیو پیغام اور تربیت کے دوران کی عکس بندی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پھیلا دیں۔ یہ تنظیم بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ ہے، جس کا سربراہ معروف عسکریت پسند کمانڈر محمد اسلم اچھو تھا جو دسمبر 2018ء میں افغانستان کے شہر قندھار میں ایک بم دھماکے میں چند دوسرے کمانڈروں سمیت ہدف بنا۔ بظاہر اس دھماکے کا شک پاکستان پر کیا جاتا ہے، تاہم بعض دوسرے اہم ذرائع یہ کہتے ہیں کہ اسلم اچھو کو چین نے افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور وہاں کی فورسز کے ذریعے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے ذریعے راستے سے ہٹایا۔ اسلم اچھو نے حیربیار مری کی تنظیم بی ایل اے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کیونکہ حیر بیار کے ایک کمانڈر بزرگ نے اس کی موجودگی کی اطلاع فورسز کو کردی تھی، جس پر اس کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا اور کئی افراد مارے گئے۔ بلوچستان کے ’’سنگان‘‘ کے پہاڑوں میں ہونے والے اس آپریشن میں اسلم اچھو زخمی ہونے کے بعد افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ وہاں سے اس کا مزید علاج نئی دہلی میں کرایا گیا۔ اسلم اچھو متوسط گھرانے کا نوجوان تھا، جس نے عسکری جدوجہد کو سرداروں اور نوابوں کی قیادت سے نکالنے کی راہ اختیار کرلی۔ اسلم اچھو نے گوریلا حملوں کے ساتھ پہلی بار خودکش حملوں کی طرف بلوچ عسکریت پسندوں کو راغب کیا، اور سب سے پہلے اپنے نوجوان بیٹے ریحان بلوچ کو خودکش حملے کے لیے تیار کیا اورخود اہلیہ کے ہمراہ حملے کے لیے رخصت کیا، جس نے11 اگست2018ء کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چینی ماہرین کی بس پر بارود سے بھری کار سے حملہ کیا۔ اس حملے میں سیندک پراجیکٹ کے کئی چینی ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔ نومبر 2018ء میں کراچی میں قائم چینی قونصل خانے میں بھی گویا فدائی حملہ تھا، کیوں کہ وہاں بھی بلوچ عسکریت پسند قونصل خانے کی عمارت میں گھسنے اور وہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی غرض سے آئے تھے۔ چناں چہ گوادر حملے کی حکمت عملی بھی واپسی کے بجائے مقابلہ کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے کی تھی۔ مجید بریگیڈ کو بی ایل ایف اور بی آر اے (بیبرگ گروپ) کا اشتراک حاصل تھا۔ مجید لانگو وہ شخص تھا جس نے 70ء کی دہائی کی شورش میں کوئٹہ کے اندر ہاکی گرائونڈ چوک پر اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملہ کیا تھا، لیکن وہ خود ہی اس کی زد میں آکر جان سے گیا۔ والدین نے اس کے بعد پیدا ہونے والے بیٹے کا نام بھی مجید رکھا۔ یہ مجید لانگو بلوچستان کی حالیہ جاری شورش میں ایک ماہر و ظالم کردار تھا، جس نے درجنوں پولیس اور آبادکاروں کا ہدفی قتل کیا۔ ساتھ اس کا ایک بھائی اور بھانجا بھی اس راہ پر تھا۔ تینوں نے مل کر اکتوبر2009ء میں بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں گھر سے نکلتے ہوئے قتل کیا تھا۔ مارچ2010ء میں مجید لانگو جونیئر کوئٹہ کی وحدت کالونی کے عقب میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ آپریشن میں مارا گیا۔ پیپلزپارٹی کے ایم پی اے خان آف قلات خاندان کے آغا عرفان کریم کی درخواست پر بلوچستان اسمبلی میں اس کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ مجید لانگو اسلم اچھو کا قریبی ساتھی تھا۔ اس بنا پر اسلم اچھو نے تنظیم کو مجید بریگیڈ کی نسبت دی۔
بلوچ عسکریت پسندوں کے اندر خودکش حملوں کا رجحان اگر تقویت پکڑتا ہے تو اس سے یقینا بہت سارے نقصانات کا امکان ہے۔ چناں چہ فوج، عمران خان کی حکومت اور جملہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ کس طرح ان بلوچ نوجوانوں کو مناکر قومی دھارے میں لایا جائے۔ لیپا پوتی، نمائشی حربوں، ہتھیار ڈالنے کی نمود و نمائش اور تھالی چاٹ سیاست دانوں کی باتوں سے ہٹ کر سنجیدہ اقدامات و پیش رفت کی ضرورت ہے۔
پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے آپریشن میں پاک بحریہ کے ایک اہلکار عباس خان بھی جاں بحق ہوئے۔ زخمی ہونے والے چھ افراد میں پاک فوج کے دو آفیسرز کیپٹن انور کاکڑ اور کپٹن علی رضا شامل ہیں۔ ہوٹل کو اکیس گھنٹوں کے بعد کلیئر کیا گیا۔ واضح ہوکہ کوہ باطل کے تین طرف گہرا سمندر ہے، جہاں پاکستان بحریہ نے سخت نگرانی کا نظام قائم کررکھا ہے۔ گہرے پانی اور اونچے پہاڑ کی وجہ سے حملہ آوروں کا آنا ناممکن ہے۔ یقینی طور پر حملہ آور واحد زمینی راستے، فش ہاربر شاہراہ سے گزر کر وہاں پہنچے ہیں۔ اس شاہراہ پر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں مختلف مقامات پر قائم ہیں۔ بی ایل اے نے ایک روز قبل دس مئی کو ہرنائی کے کھوسٹ میں کوئلہ کان کے مزدوروں پر حملہ کرکے دو افراد کو قتل، اور وہاں موجود مشینری نذرِ آتش کردی، جس کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والی فورسز کی گاڑی کو بھی بم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں دو اہلکاروں سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی۔ حیرت ہے کہ اسی روز کے اخبارات میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے بیان میں اس حملے سمیت پشتون علاقوں میں پچھلے دنوں و ماہ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ ہر واقعے کی ذمہ داری معلوم گروہ و تنظیمیں قبول کرچکی ہیں۔ پشتون خوا میپ دراصل فورسز کو مورد الزام ٹھیراتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہرنائی کے علاقے میں بلوچ عسکریت پسندوں کے مضبوط اثرات رہے ہیں، جو اب بھی ہیں۔
تین دن میں دوسرا حملہ
کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن منی مارکیٹ میں پولیس موبائل کے قریب ہونے والے دھماکے میں 4 افراد شہید جبکہ 8 افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری طور پر حرکت میں آگئے اور موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ دھماکے میں زخمی افراد کو ایمبولینسوں کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے کون ملوث ہے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بارے میں تفتیش شروع کردی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا مسجد کے باہر کھڑی پولیس موبائل کے قریب ہوا۔ دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سیٹلائٹ ٹاؤن بم دھماکے میں جانی نقصان پر دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے دہشت گردی کے بزدلانہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک گھناؤنی سازش کے تحت صوبے اور ملک میں امن کی صورت حال خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاہم عدم استحکام پیدا کرنے والوں کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے آئی جی پولیس کو شہر کے سیکورٹی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لے کر مزید مؤثر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ پولیس اور سیکورٹی کے دیگر ادارے جانوں کا نذرانہ دے کر عوام کی جان ومال کا تحفظ کررہے ہیں اور دیرپا امن کے قیام کے لیے شہداء کی قربانیا ں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ وزیراعلیٰ نے شہداء کے خاندانوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہارکیا ہے اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت کی ہے۔