طالب ہاشمی
خدیجہ نام، اُم ہند کنیت، اور طاہرہ لقب۔ نسب نامہ یہ ہے:
خدیجہؓ بنتِ خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی (قصی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ امجد تھے)، ماں کا نام فاطمہؓ بنتِ زائدہ تھا جو خاندانِ عامر بن لوی سے تھیں۔
حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے، اور نہ صرف اپنے قبیلے میں بڑی باعظمت شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی خوش معاملگی و دیانت داری کی بدولت تمام قریش میں بے حد ہر دل عزیز اور محترم تھے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ عام الفیل سے پندرہ سال قبل 555 عیسوی میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں۔ جب سنِ شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی ابوہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی۔ ابوہالہ سے ان کے دو لڑکے ہوئے، ایک کا نام ہالہ تھا جو زمانۂ جاہلیت ہی میں مر گیا، دوسرے کا نام ہند تھا۔ بعض روایتوں کے مطابق ان کو شرفِ صحابیت حاصل ہوا۔
ابوہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ کی دوسری شادی عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی۔ ان سے بھی ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا۔ کچھ عرصے بعد عتیق بن عابد بھی فوت ہوگئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہؓ کا تیسرا نکاح ان کے ابن عم صیفی بن امیہ کے ساتھ ہوا اور ان کے انتقال کے بعد انہیں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شرفِ زوجیت حاصل ہوا۔ لیکن بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ خدیجۃ الکبریٰؓ کا تیسرا اور آخری نکاح جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ زوجیت میں آنے سے پیشتر حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اپنی بیوگی کے ایام خلوت گزینی میں گزار رہی تھیں۔ وہ اپنا کچھ وقت خانہ کعبہ میں گزارتیں اور کچھ وقت اُس زمانے کی معزز کاہنہ عورتوں میں صرف کرتیں، اور ان سے زمانے کے انقلاب پر وقتاً فوقتاً بحث کیا کرتیں۔ قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے انہیں نکاح کے پیغامات بھیجے، لیکن انہوں نے سب رد کردیے، کیوں کہ پے درپے صدمات نے ان کی طبیعت دنیا سے اُچاٹ کردی تھی۔
ادھر ان کے والد ضعفِ پیری کی وجہ سے اپنی وسیع تجارت کے انتظام سے عاجز آگئے۔ نرینہ اولاد کوئی زندہ نہ تھی۔ تمام کام اپنی ذہین اور عاقلہ بیٹی کے سپرد کرکے خود گوشہ نشین ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
خدیجۃ الکبریٰؓ نے تمام کاروبارِ تجارت نہایت احسن طریقے سے جاری رکھا۔ اُس وقت ان کی تجارت ایک طرف شام میں پھیلی ہوئی تھی تو دوسری طرف اطرافِ یمن میں۔ اس وسیع کاروبار کو چلانے کے لیے انہوں نے ایک بڑا عملہ رکھا ہوا تھا جو متعدد عرب، یہودی اور عیسائی ملازموں اور غلاموں پر مشتمل تھا۔ حسنِ تدبیر اور دیانت داری کی بدولت ان کی تجارت روز بروز ترقی کررہی تھی اور اب ان کی نظریں ایک ایسے شخص کی متلاشی تھیں جو بے حد قابل، ذہین اور دیانت دار ہو، تاکہ وہ اپنے تمام ملازمین کو اس کی سرکردگی میں تجارتی قافلوں کے ہمراہ باہر بھیجا کریں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سرور کائناتؐ کے پاکیزہ اخلاق اور ستودہ صفات کا چرچا مکہ کے گھر گھر میں پھیل چکا تھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عنفوانِِ شباب تھا اور آپؐ ساری قوم میں ’’امین‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے کانوں تک اس مقدس ہستیؐ کے اوصافِ حمیدہ کی بھنک نہ پڑتی۔ ان کو اپنی تجارت کی نگرانی کے لیے ایک ایسی ہی ہمہ صفت موصوف شخصیت کی تلاش تھی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ اگر آپؐ میرا سامانِ تجارت شام تک لے جایا کریں تو دوسرے لوگوں سے دوچند معاوضہ آپؐ کو دیا کروں گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں اپنے چچا ابوطالب کی سرپرستی میں تھے۔ انہیں وقتاً فوقتاً حضرت خدیجہؓ کی تجارت کا حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کا پیغام منظور فرما لیا اور اشیائے تجارت لے کر عازم بصرہ ہوئے۔ چلتے وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنا غلامِ خاص میسرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کردیا اور اسے تاکید کی کہ اثنائے سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری و سلیقہ شعاری کی بدولت تمام سامانِ تجارت دوگنے منافع پر فروخت ہوگیا۔ دوران سفر سردارِ قافلہ یعنی سرورِ کائناتؐ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ ہر ایک آپؐ کا مداح بلکہ جاں نثار بن گیا۔ جب قافلہ مکہ واپس آیا اور حضرت خدیجہؓ کو میسرہ کی زبانی سفر کے حالات اور منافع کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو وہ بے حد متاثر ہوئیں اور اپنی لونڈی نفیسہ کی معرفت آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایما پاکر وہ حضرت خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد کو بلا لائیں۔ اُس وقت وہی ان کے سرپرست تھے۔
دوسری طرف سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب اور دوسرے اکابرِ خاندان کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے مکان پر تشریف لائے۔ حضرت ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔
نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر گھر سے باہر رہنے لگے۔ کئی کئی روز مکہ کے پہاڑوں میں جاکر عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ غرض اسی طرح دس برس کا زمانہ گزر گیا۔ ایک دن اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں معتکف تھے کہ رب ذوالجلال کے حکم سے جبریل امینؑ آپؐ کے پاس تشریف لائے اور کہا ’’قم یامحمد‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نظریں اوپر اٹھائیںتو اپنے سامنے ایک نورانی صورت کو کھڑے پایا جس کے ماتھے پر بخط نور کلمۂ طیبہ رقم تھا۔ جبریل امین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگا کر دبایا اور کہا کہ پڑھ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھا لکھا نہیں۔ جبریلؑ نے پھر یہی کہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ جب جبریلؑ نے کہا (ترجمہ) ’’پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے سب کچھ پیدا کیا، جس نے انسان کو پانی کے کیڑے (لہو کی پھٹکی) سے بنایا۔ پڑھ تیرا پروردگار بہت کرم والا ہے جس نے قلم سے آدمی کو علم سکھایا جو نہ جانتا تھا۔‘‘
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہی کلمات جاری ہوگئے۔
اس حیرت انگیز واقعے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بے حد متاثر ہوئی۔ گھر تشریف لائے تو فرمایا ’’مجھ کو کپڑا اُڑھائو۔‘‘ حضرت خدیجہؓ نے تعمیل ارشاد کی اور پوچھا کہ آپؐ کہاں تھے؟ میں سخت فکرمند تھی اور کئی آدمیوں کو آپؐ کی تلاش میں بھیج چکی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام واقعہ بی بی خدیجہؓ کے سامنے من و عن بیان کردیا۔ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا کہ ’’آپ سچ بولتے ہیں۔ غریبوں کے دستگیر ہیں، مہمان نواز ہیں، صلۂ رحم کا خیال رکھتے ہیں، امانت گزار ہیں اور دکھیوں کے خبر گیر ہیں۔ اللہ آپؐ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔‘‘ پھر آپؐ کو ساتھ لے کر اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں جو زمانہ جاہلیت میں بت پرستی ترک کرکے عیسائی ہوگئے تھے اور گزشتہ الہامی کتابوں توریت، زبور و انجیل کے بہت بڑے عالم تھے۔ بی بی خدیجہؓ نے تمام واقعہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا تھا، ان کے سامنے بیان کیا۔ ورقہ یہ سنتے ہی بول اٹھے:
’’یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰؑ پر اترا تھا۔ اے کاش کہ میں اس زمانے تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیا یہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا ’’ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی مخالف ہوجاتی ہے، اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔‘‘ اس گفتگو کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہوگیا۔ تاہم حضرت خدیجہؓ کو یقینِ کامل ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منصبِ رسالت پر فائز ہوچکے ہیں۔ چنانچہ وہ بلا تامل آپؐ پر ایمان لے آئیں۔ تمام کتب سِیَر متفق ہیںکہ عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ تقریباً 25 سال (یعنی نزولِ وحی کے تقریباً 9 سال بعد) زندہ رہیں۔ اس مدت میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور جاں نثاری کا حق ادا کردیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے اسلام لانے کے بعد سرورِ کائناتؐ کے متعلقین میں بھی اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ نوجوانوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، بڑوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت زیدؐ بن حارث سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد دوسرے سعید الفطرت اصحاب بھی آہستہ آہستہ حلقہ اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے۔ حضرت خدیجہؓ کو اسلام کی وسعت پذیری سے بے حد مسرت حاصل ہوتی تھی اور وہ اپنے غیر مسلم اعزہ و اقارب کے طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست و بازو ثابت کررہی تھیں۔ انہوں نے اپنا تمام زر و مال اسلام پر نثار کردیا اور ان کی ساری دولت یتیموں اور بیوائوں کی خبر گیری، بے کسوں کی دست گیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لیے وقف ہوچکی تھی۔ ادھر کفارِ قریش نومسلموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے اور تبلیغِ حق کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکا رہے تھے۔ انہوں نے رحمتِ عالمؐ اور آپؐ کے جاں نثاروں کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی لایعنی اور بے ہودہ باتوں سے کبیدہ خاطر ہوتے تو خدیجۃ الکبریٰؓ عرض کرتیں ’’یارسول اللہ، آپؐ رنجیدہ نہ ہوں بھلا کوئی ایسا رسول بھی آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیا ہو!‘‘ حضرت خدیجہؓ کے اس طرح کہنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ملالِ طبع دور ہوجاتا تھا۔ غرض اس پُرآشوب زمانے میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم خیال اور غم گسار تھیں بلکہ ہر موقع پر اور ہر مصیبت میں آپؐ کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی تو میں خدیجہؓ سے کہتا۔ وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہوجاتی تھی اور کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہؓ کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا۔‘‘
عفیف کندی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کچھ اشیا خریدنے کے لیے مکہ آیا اور عباسؓ بن عبدالمطلب کے پاس ٹھیرا۔ دوسرے دن صبح کے وقت عباسؓ کے ہمراہ بازار کی طرف چلا، جب کعبہ کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان شخص آیا، اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا اور پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوخیز لڑکا آیا جو پہلے جوان کی ایک جانب کھڑا ہوگیا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک عورت آئی اور وہ بھی ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ ان تینوں نے نماز پڑھی اور چلے گئے۔ میں نے عباسؓ سے کہا ’’عباسؓ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں انقلاب آنے والا ہے۔‘‘ عباسؓ نے کہا ’’ہاں! تم جانتے ہو یہ تینوں کون ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘۔ عباسؓ نے کہا ’’یہ جوان اور لڑکا دونوں میرے بھتیجے تھے، جوان عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا محمدؐ اور لڑکا ابوطالب بن عبدالمطلب کا بیٹا علیؓ تھا۔ عورت جس نے دونوں کے پیچھے نماز پڑھی میرے بھتیجے محمدؐ کی بیوی خدیجہؓ بنتِ خویلد ہے۔ میرے بھتیجے کا دعویٰ ہے کہ اس کا دین الہامی ہے اور وہ ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے، لیکن ابھی تک ان تینوں کے سوا کوئی اس دین کا پیروکار میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘ عباس کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اے کاش چوتھا میں ہوتا۔
اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے کیسے نامساعد حالات میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی یہی ہمدردی، دل سوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضرت خدیجہؓ جہاں اولاد کی پرورش نہایت حسن و خوبی سے کررہی تھیں، وہاں امور خانہ داری کو نہایت سلیقے سے نباہتی تھیں اور باوجود تمول و ثروت کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبریلؑ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا ’’خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں، آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجیے۔‘‘
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہؓ کی عقیدت اور محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد آپؐ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اس کی پُرزور تائید و تصدیق کی۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بے حد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھے۔
سن 7 بعدِ بعثت میں مشرکین قریشن نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہؓ بھی اس ابتلا میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ وہ پورے تین برس تک اس محصوری کے روح فرسا آلام و مصائب بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ جھیلتی رہیں۔
سن 10 بعدِ بعثت میں یہ ظالمانہ محاصرہ ختم ہوا لیکن اس کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ زیادہ دن زندہ نہیں رہیں۔ رمضان المبارک میں (یا اس سے کچھ پہلے) ان کی طبیعت ناساز ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ اور تسکین و تشفی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ 11رمضان 10 نبوی کو انہوں نے پیکِ اجل کو لبیک کہا اور مکہ کے قبرستان میں حجوں میں دفن ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 65 برس تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا بے پناہ صدمہ ہوا اور آپؐ اکثر ملول رہنے لگے تاآنکہ حضرت سودہؓ سے آپؐ کا نکاح ہوگیا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی وفات کے بعد بھی آپؐ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب کوئی قربانی کرتے تو پہلے حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو گوشت بھیجتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے۔ حضرت خدیجہؓ کا کوئی رشتے دار جب کبھی آپؐ کے پاس آتا تو آپؐ اس کی بے حد خاطر مدارات فرمایا کرتے۔
رحلتِ خدیجۃ الکبریٰؓ کے بعد مدت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تک گھر سے باہر تشریف نہ لے جاتے جب تک حضرت خدیجہؓ کی اچھی طرح تعریف نہ کرلیتے۔ اسی طرح جب گھر تشریف لاتے تو ان کا ذکر کرکے بہت کچھ تعریف فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول خدیجۃ الکبریٰؓ کی تعریف کرنی شروع کی۔ مجھے رشک آیا، میں نے کہا ’’یارسول اللہؐ وہ ایک بڑھیا بیوہ عورت تھیں، خدا نے ان کے بعد آپؐ کو ان سے بہتر بیوی عنایت کی۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا اور فرِمایا:
’’خدا کی قسم مجھے خدیجہؓ سے اچھی بیوی نہیں ملی۔ وہ ایمان لائی جب سب لوگ کافر تھے۔ اس نے میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا۔ اس نے اپنا زر و مال مجھ پر قربان کردیا جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا اور اللہ نے اس کے بطن سے مجھے اولاد دی۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ میں ڈر گئی اور اس روز سے عہد کرلیا کہ آئندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کبھی خدیجۃ الکبریٰ کو ایسا ویسا نہ کہوں گی۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھ لڑکے اور لڑکیاں دیں۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے جو کم سنی میں انتقال کرگئے۔ پھر زینبؓ، ان کے بعد عبداللہ، وہ بھی صغر سنی میں فوت ہوگئے (ان کا لقب طیب اور طاہر تھا)، پھر رقیہؓ، پھر اُمِ کلثومؓ، پھر فاطمۃ الزہراؓ پیدا ہوئیں۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔