قومی زبان اردو کے نفاذ کے تقاضے اور ایوانِ بالا کی متفقہ قرارداد

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے پیر 13 مئی کو اپنے اجلاس میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی پیش کردہ ایک قرارداد کی اتفاقِ رائے سے منظوری دے دی، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مقابلے کے امتحانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لیے جائیں۔ سینیٹر سراج الحق کی اصل قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مقابلے کے امتحانات انگریزی کے بجائے اردو میں لیے جائیں۔ محرک نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے اپنی قومی زبان ہی کو اپنا کر کی ہے۔ زبان قوم کی پہچان ہے، اردو کو بحیثیت قومی زبان اگر ہم اہمیت نہیں دیں گے تو کیا دوسرے ممالک دیں گے؟ قرارداد پیش کی جا چکی تو محترمہ سسی پلیجو نے اعتراض کیا کہ انگریزی میں مہارت کے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی، جب کہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بھی قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ہم اصولی طور پر قرارداد کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ہمیں بتدریج آگے بڑھنا ہوگا، اس لیے مقابلے کے امتحان میں زبان کے معاملے کو اختیاری کردیا جائے۔ جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے ترمیم شدہ قرارداد ایوان کے سامنے پیش کی جس میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی مقابلے کے امتحانات لیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ ایوان نے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
زبان کے متعلق خالقِ کائنات نے بھی اس اصول کو اختیار فرمایا ہے جس کا اظہار قرآن حکیم کی سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 4 میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ’’ ہم نے جو بھی رسول بھیجا اُس نے اپنی قوم کی زبان میں ہی پیغام دیا تاکہ وہ اچھی طرح کھول کھول کر بات سمجھائے۔‘‘ یہ تو خالقِ کائنات کا معاملہ ہے، مگر دورِ حاضر کے جدید تہذیب کے علم برداروں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انگریزوں نے جب برصغیر پاک و ہند پر اپنا تسلط جمایا تو اپنی غلامی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو اپنی زبان انگریزی کی غلامی پر بھی مجبور کیا۔ انگریزی کو سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں جبراً مسلط کرکے اس کی تعلیم کو بھی لازم قرار دے دیا۔ جن مقامی لوگوں نے انگریزی کی اس غلامی کو قبول کرنے سے انکار کیا اُن پر سرکاری ملازمتوں اور روزگار کے دروازے بند کرکے انہیں پیٹ کی مار دی گئی۔ انگریز حکمرانوں نے اپنی زبان کو کچھ اس انداز میں مسلط کیا کہ اسے زبان سے زیادہ ذہانت اور علم و حکمت کی کسوٹی اور ترقی کا زینہ بنادیا گیا، اور جن لوگوں نے اسے اختیار کیا وہ فی الواقع ذہنی طور پر انگریزی کے غلام بن کر رہ گئے۔ اسی ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے کہ انگریز سے آزادی حاصل کیے پون صدی کے قریب گزر چکی ہے مگر ہم انگریزی کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کرسکے، اور محترمہ سسی پلیجو اور ان کے ہم نوا آج بھی یہ کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہ انگریزی میں مہارت کے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی، حالانکہ دورِ حاضر کی تاریخ گواہ ہے کہ چین، جاپان، کوریا اور جرمنی وغیرہ جتنے ممالک نے بھی ترقی کی ہے اپنی زبان کو اختیار کرکے ہی کی ہے، اور ہماری پسماندگی کا ایک بڑا سبب یقینا یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو قومی زبان سکھانے اور اسی میں تعلیم دینے کے بجائے انگریزی رٹانے پر پورا زور صرف کیا ہے، جس کا واضح نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے طلبہ کی بھاری اکثریت صرف انگریزی نہ سمجھ سکنے کے باعث اپنے امتحانات میں ناکام قرار پاتی ہے۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور تحریکِ پاکستان کے دیگر تمام رہنمائوں نے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد بھی اردو کو ملک کی قومی زبان قرار دیا۔ عملی حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں اور صوبوں کے مابین رابطے کی فطری زبان اردو ہی ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اردو پورے برصغیر بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ وغیرہ میں بھی آسانی سے سمجھی اور بولی جاتی اور رابطے کا بہترین اور آسان ذریعہ ہے۔ پاکستان کے 1973ء کے متفقہ آئین کی دفعہ 251 میں بھی اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے، اور اس دفعہ کی روشنی میں ستمبر 2015ء میں عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کو فوری طور پر ملک میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کرنے کا حکم دیا تھا، مگر بدقسمتی سے حکمرانوں نے آج تک اس حکم پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی، حتیٰ کہ خود عدالتِ عظمیٰ اور دیگر عدالتوں میں بھی اس حکم پر عمل نہیں کیا جارہا، اور تاحال تمام فیصلے انگریزی میں ہی تحریر کیے جارہے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں البتہ عدالتِ عالیہ، لاہور کے جسٹس شجاعت علی خان نے پہلی بار اس شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے کہ قرآن مجید کے تحریف شدہ اور غیر مستند نسخوں کی فوری ضبطی سے متعلق اپنا فیصلہ اردو زبان میں تحریر کرکے دیگر جج صاحبان کے لیے ایک نظیر قائم کردی ہے۔
ایوانِ بالا میں سینیٹر سراج الحق کی پیش کردہ قرارداد کی اتفاقِ رائے سے منظوری کے بعد توقع کی جانی چاہیے کہ ہمارے حکمران نہ صرف مقابلے کے امتحانات کے اردو میں انعقاد کا اہتمام کریں گے بلکہ عدالتِ عظمیٰ کے واضح حکم اور آئین کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے سرکاری دفاتر میں بھی اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کیا جائے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کا پورا تعلیمی ڈھانچہ اس طور سے ترتیب دیا جائے گا کہ انگریزی کی بالادستی ختم ہو اور ہر سطح پر قومی زبان اردو کو فروغ حاصل ہو۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

(حامد ریاض ڈوگر)