ٹی وی چینلز پر خبروں کے اختتام پر ایک جملہ کہا جاتا ہے ’’فی الوقت کے لیے اتنا ہی…‘‘ جملہ صحیح تو ہے لیکن اس میں ’’کے لیے‘‘ زائد ہے۔ اسے نکال دیں تو مفہوم بھی پورا ہوجائے گا اور جملہ چست ہوجائے گا، یعنی ’’فی الوقت اتنا ہی‘‘ یا ’’فی الحال اتنا ہی‘‘۔ ’فی‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہ حرف جار ہے اور مطلب ہے: بیچ میں، ہر ایک کے لیے، ہر آدمی اور ہر چیز کے لیے جیسے فی کس، فی من، فی صدی۔ علاوہ ازیں نقص، کمی، غلطی، عیب، کھوٹ (اردو میں ’فی نکالنا‘ کا مطلب عیب نکالنا، رہ جانا، ہونا کے ساتھ) داغؔ کا شعر ہے:
سمجھنے والے سمجھتے ہیں بیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے
فی الاصل، یعنی اصل میں۔ فی البدیہ، یعنی فوراً کچھ کہہ دینا، بے سوچے بات کہنا، فوراً۔ شعرائے کرام فی البدیہ شعر کہہ ڈالتے ہیں۔ اس پر بے سوچے بات کرنے کا اطلاق نہیں ہوگا بلکہ اسے کمال سمجھا جاتا ہے۔ فی البدیہ کا املا ’’فی البدیہہ‘‘ بھی پڑھنے میں آتا ہے جو غلط ہے۔ اس میں ایک ’ہ‘ کافی ہے، لیکن لوگ ’تہ خانے‘ میں بھی دو ’ہ‘ استعمال کر جاتے ہیں یعنی ’’تہہ خانہ‘‘۔ اس کا تلفظ تو ’’تہے‘‘ ہوجائے گا۔
فی الحال، فی الحقیقت، فی الفور، فی المثل، فی النار (عربی میں بددعا) ذوقؔ کا شعر ہے:
ہمارے سینے میں وہ آہ آتشیں ہے ذوقؔ
جو برق دیکھے تو فی النار و السقر ہو جائے
’فی الواقع‘ کے حوالے سے پہلے بھی لکھا تھا کہ لوگ ’’فی الواقعی‘‘ لکھ جاتے ہیں۔ نوراللغات میں ہے کہ مستورات اس کی جگہ فی الواقعی بولتی ہیں، لیکن میر انیس نے بھی ایک شعر میں فی الواقعی استعمال کیا ہے:
روشن ہے دشت گردن نازک کے نور سے
فی الواقعی فزوں ہے ضیا شمع طور سے
میر انیس کا یہ شعر ایک خاتون کے حوالے سے ہے لیکن زبان تو ایک مرد کی ہے۔ ’فی‘ کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً فی امان اللہ، فی زمانہ۔ عربی میں یہ ’’فی زماننا‘‘ ہے یعنی ہمارے اس زمانے میں۔ عربی میں ایک اصطلاح ہے ’’فی مابین‘‘ یعنی دونوں کے بیچ میں۔ بطور سابقہ ’فی‘ کے اور بھی کئی استعمال ہیں: ’’یہ کس کا منہ ہے نکالے جو ان کے حسن میں فیہ‘‘
ایک لطیفہ ہے۔ ایک پاکستانی حرم شریف میں بڑی رقت سے دعا کررہا تھا ’’اللہ مافی‘‘۔ ایک عرب اسے ٹوک رہا تھا ’’اللہ فی‘‘ یعنی اللہ ہے۔ پاکستانی ’’معافی‘‘ کا صحیح تلفظ ادا نہیں کررہا تھا۔ ’مافی‘ کا مطلب ہے ’’نہیں ہے‘‘۔ اور عرب کا اصرار تھا کہ اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب سمجھتے ہیں کہ کہنے والے کا مطلب کیا ہے۔ بہرحال اگر ٹی وی چینلوں پر خبریں پڑھنے والے ’’فی الوقت‘‘ یا ’’فی الحال اتنا ہی‘‘ کہیں تو اچھا لگے گا۔
رمضان کریم سایہ فگن ہے۔ اس موقع پر ایک بار پھر یہ یاد دلانے میں قباحت نہیں کہ ’’افطار‘‘ کا پہلا الف بالکسر ہے یعنی اِفطار۔ ہم نے اپنے ساتھیوں سے اَفطار یعنی الف پر زبر ہی سنا ہے اور کثرت سے سنا ہے۔ الف کو بالکسر کرنے سے بھی روزہ کھل جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اِفطار میں کیا کچھ ہے۔ لوگوں کا دستر خوان سکڑتا جارہا ہے اور وہ وقت واپس لایا جارہا ہے جب ایک کھجور یا دو گھونٹ پانی افطار کے لیے کافی ہوتا تھا۔ مرزا غالب نے تو یہ عذر تراش لیا تھا کہ:
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو نا چار کیا کرے
مرزا نے کھانے کی عدم موجودگی کا شکوہ کیا ہے، پینے کا کوئی ذکر نہیں جس کی انہیں کبھی کمی نہ ہوئی۔
رمضان ہی کے حوالے سے ایک یاددہانی کہ اس کا لغوی معنیٰ کیا ہے۔
رمضان عربی زبان کا لفظ ہے اور اس لفظ کا سہ حرفی مادہ ’’رمض‘‘ ہے۔ اس مادے کے حروف کو مختلف صورتوں میں ترتیب دینے سے لفظ بدل جائے گا مگر معنی ایک ہی رہیں گے۔ یہ تمام معنی ایک طرح کی شدت، آگ، گرمی یا مرض پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ یہ عربی زبان کی لسانی جمالیات کا مظہر ہے۔
رمضان کے لفظ کا مادہ رمض ہے۔ اس کے حروف کی ترتیب بدلنے سے مزید پانچ الفاظ رضَمَ، مضرَ، مرض، ضرم، اور ضمرَ سامنے آتے ہیں اور رمض کے ساتھ یہ کُل چھ بنتے ہیں۔
آئیے اب ہم ان چھ الفاظ کے معنی کو دیکھتے ہیں:
رمض… اسی سے رمضان کا لفظ آیا ہے۔ الرمض کا معنیٰ ریت یا زمین وغیرہ پر دھوپ کی شدت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سورج کی شدید تمازت کے سبب پتھر کی گرمائش ہے۔ اسی سے الرمضاء ہے جس کا معنیٰ تپتی ہوئی زمین ہے۔
رضمَ … بھاری قدموں سے دوڑنا، اس معنی میں بھی رمض والی شدت کا پہلو موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’رضم الشیخیرضم رضماً‘‘ یعنی وہ بوجھل یا بھاری قدموں سے دوڑا۔ اسی طرح ’’رضم الرجلُ فی بیتہ‘‘ یعنی گھر میں جم گیا اور پڑا رہا۔ اسی طرح پتھروں سے بنی یا چُنی ہوئی عمارت کو المرضوم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رضمان اُس اونٹ کو کہتے ہیں جو چلنے میں بھاری ہو۔
مضر: اس صورت میں بھی رمض کے لفظ کے حروف کی ترتیب الٹ پلٹ کرنے سے شدت کا معنی برقرار رہتا ہے۔ ’’مضرَ اللبن‘‘ کا معنیٰ ہے دودھ کا ترش اور سفید ہونا۔ اسی طرح ’’تمضّر فلان‘‘ کا معنی غضب ناک ہونا یا سخت حامی ہونا۔ دونوں صورتوں میں شدت کا معنیٰ موجود ہے۔ اسی طرح ’’اللبن الماضر‘‘ شدید تُرش دودھ کو کہتے ہیں۔
مرض … یہ لفظ اپنے تمام قدیم اور جدید معانی میں شدت کا معنیٰ بیان کرتا ہے خواہ وہ جسم پر ہو یا روح پر اور یا پھر عقل پر ہو۔
ضرم: ابن فارس کہتے ہیں کہ ضرم کا لفظ حرارت اور سلگاؤ پر دلالت کرتا ہے۔ اسی سے ’’الضرام‘‘ ہے جس کا معنی آگ کی دہک، بھڑک، شعلہ زنی یا جلد شعلہ دینے والی چیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ضرم الرجل‘‘ یعنی بھوک سے یا غصے سے بھڑک جانا۔ اسی طرح ’’الضریم‘‘ کا معنیٰ جلتی ہوئی آگ یا جلتی ہوئی چیز کے ہیں۔
ضمَرَ.. اس صورت میں بھی رمض کے حروف آگے پیچھے کردینے سے ایک بار پھر شدت کا معنی ظاہر ہورہا ہے۔ عربی میں ’’الضّمر‘‘ اور’’ألضمُر‘‘ کا معنیٰ دبلا پتلا یا پتلے پیٹ آدمی ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے ’’ضمرت الأرضُ الرجلَ‘‘ یعنی وہ شخص اس دھرتی پر غائب ہوگیا یا تو سفر میں یا پھر موت کے سبب… ہر وہ چیز جو غائب ہو یا ناقابل واپسی ہو وہ ’’ضِمار‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں ’’مِضمار‘‘ اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں گھوڑوں کو سدھانے کے لیے قریباً چالیس روز رکھا جاتا ہے۔
اس طرح رمض کا لفظ جس سے ماہ رمضان کا نام آیا ہے، یہ اس شدت کے معنی کا حامل ہے جو روزے میں بھوک، پیاس اور تھکن کی صورت میں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے مختصر جائزے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ رمض کے حروف کو کسی بھی صورت میں ترتیب بدل کر دیکھا جائے تو ہر مرتبہ معنیٰ میں شدت کا پہلو باقی رہتا ہے۔ یہ عربی زبان کا لسانیاتی جمال ہے کہ حروف کو کسی بھی ترتیب پر یکجا کیا جائے تو وہ ایک عمومی معنیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔
ایک بہت ہی متین اور بہت سینئر صحافی اور کالم نگار نے جسارت میں اپنے ایک کالم میں ’’فوج کا سپہ سالار‘‘ لکھا ہے۔ صرف سپہ سالار لکھنے اور کہنے سے تسلی نہیں ہوتی۔ یہ غلطی اتنی عام ہوگئی ہے کہ بہت اچھے لکھنے والے بھی اس سے بچ نہیں پاتے۔ ذرا سی دیر کو یہ سوچ لیا ہوتا کہ ’’سپہ‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب فوج ہی نہیں ہے؟ تو پھر فوج کا سالار یا صرف سپاہ سالار لکھنے میں کیا قباحت ہے! بات یہ ہے کہ نئے صحافی اور کالم نگار ہی کیا، ہم بھی دوسروں سے سیکھتے ہیں۔ چنانچہ سینئرز کہلانے والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔ فی الوقت ’’کے لیے‘‘ اتنا ہی۔