پاکستان کے ابتدائی دس سال بدعنوانی کے الزام سے پاک حکمراں

یہ جاننے میں کسی کا کوئی نقصان ہے اور نہ یہ بتانے میں کوئی حرج ہے کہ یہ ملک ہمیں یونہی نہیں مل گیا تھا۔ قیام پاکستان کے لیے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں طویل اور صبر آزما سیاسی جدوجہد کی تھی اور بیش بہا قربانیاں دی تھیں، مسلم کش فسادات میں لاکھوں گھر اجڑے تھے‘ جان و مال کی جو قربانیاں دی گئیں اس کا شمار بھی ممکن نہیں ہے۔ اور جب یہ ملک وجود میں آیا تھا تو بے سروسامانی کا عالم تھا۔ مصائب و مشکلات اتنی تھیں کہ آج کی نوجوان نسل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اس ملک کے قیام کے ساتھ ہی تاریخ انسانی کی سب سے بڑی نقل آبادی (ہجرت) ہوئی جنہیں مسلمان ہونے اور پاکستان کے قیام کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہونے کے جرم میں ان کے گھروں میں لوٹ مار کے بعد قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے نکال دیا گیا تھا۔ لٹے پٹے لہو لہان قافلے پاکستان کی سرحدوں میں اس حال میں داخل ہوئے تھے کہ ان کے پاس کوئی سامانِ زیست تھا اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔ اس پہاڑ جیسے انسانی مسئلے سے قائداعظمؒ کی قیادت میں سفر کا آغاز کرنے والی سیاسی قیادت کسی بیرونی امداد کے بغیر عہدہ براں ہوئی تھی۔ نامساعد حالات اور بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری دفتروں میں ضرورت کے مطابق میز کرسیاں تھیں نہ دیگر سازوسامان۔ اعلیٰ افسران تک میز کرسیوںکے بغیر لکڑی کی استعمال شدہ پیٹیوں کو میز کرسی کے طور پر استعمال کرکے کام کرنے پر مجبور تھے۔ کامن پِن کی جگہ فائلوں میں کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے نہ صرف اپنا پہلا بجٹ خسارہ کے بجائے سرپلس پیش کیا بلکہ لگاتار 1947 سے 1958 تک تمام بجٹ سرپلس پیش کیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ان دس برسوں میں ایک بار بھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا تھا۔ اسی زمانے میں عالمی کساد بازاری کے دبائو کی وجہ سے بھارت نے اپنی کرنسی ڈی ویلیو کر دی تھی مگر پاکستان نے کوئی عالمی دبائو قبول نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی کرنسی بھارت کے مقابلے میں مستحکم رہی اور عالمی منڈی میں پاکستان کو اس کا فائدہ ہوا تھا۔
بھارت نے پاکستان کو تقسیم کے فارمولے کے طے شدہ معاہدے کے مطابق پاکستان کے حصے کی پوری رقم دی اور نہ ہی دفاعی سازوسامان دیا۔ اس کے باوجود یہ حکومت دفاعی ضروریات سے غافل نہ رہی‘ محدود وسائل میں جو کچھ ممکن تھا وہ کیا گیا۔ بھارت کو جما جمایا پورا انتظامی ڈھانچہ مل گیا تھا اور تجربہ کار انتظامی مشینری بھی مگر پاکستان کے پاس تو ضرورت کے مطابق سرکاری عمارتیں تک نہ تھیں۔ مجھ سے پہلے والی نسل نے سرکاری ملازمین کو درختوں کے نیچے لکڑی کی پیٹیوں کو میز کرسی بنا کر کام کرتے دیکھا ہے۔ میری نسل نے سرکاری اسکولوں میں ٹاٹ پر اور درختوں کے نیچے تعلیم حاصل کی ہے۔ پاکستان بنا تو پورے ہندستان میں مسلمانوں کے صرف تین بینک تھے ان کے قیام کو بھی کوئی طویل عرصہ نہیں ہوا تھا جب کہ ہندوئوں کے بینکوں کی تعداد درجنوں میں تھی اور وہ مسلمانوں کے بینکوں کے مقابلے میں قدیم بھی تھے اور مستحکم بھی تھے۔
حبیب بینک لمیٹڈ اور مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ کے ہیڈ آفس بمبئی میں تھے جو بعد میں پاکستان منتقل ہوئے۔ جب کہ آسٹریلیشیا بینک لمیٹڈ کا ہیڈ آفس لاہور میں تھا جو 1942 میں ایک موٹر گیراج میں چنیوٹ کی شیخ برادری سے تعلق رکھنے والے تین افراد نے قائم کیا تھا۔تاہم بعد میں وہ مستحکم بینک بنا ۔بھٹو مرحوم کی حکومت نے بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا تو کئی دوسرے بینکوں کو اس میں ضم کرکے اس کانام الائیڈ بینک رکھ دیا گیا معروف اور ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی (مرحوم) برسوں اس کی سربراہ رہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہاں 13 بینکوں کے ہیڈ آفس تھے جن میں ایک مسلمانوں کا اور بارہ ہندوئوں کے تھے۔ ہندوئوں کے بارہ کے بارہ بینکوں کے ہیڈ آفس پاکستان سے بھارت منتقل ہو گئے تھے۔ اس طرح پاکستان میں صرف تین بینک رہ گئے تھے وہ بھی یہاںسے منتقل ہونے والے بینکوں کے مقابلے میں بڑے بینک نہ تھے۔ مگر پاکستان نے ان تین بینکوں کے ذریعے ہی کام چلایا اور محدود وسائل کے باوجود ایک سال کے اندر اپنا اسٹیٹ بینک بھی قائم کر لیا جس کا افتتاح قائداعظمؒ نے 1948ء میں اپنے دست مبارک سے کیا تھا اور دوسال کے اندر سرکاری شعبے میں قومی بینک (نیشنل بینک آف پاکستان لمیٹڈ) بھی کھڑا کر دیاتھا۔
ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگ بنیاد تو قائداعظم نے خود رکھا تھا تاہم 1947 سے 1958 تک پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود صنعتی شعبے میں بھی پیش قدمی جاری رکھی۔ 1950 میں بننے والے پہلے پنچ سالہ منصوبے میں سرکاری شعبے میں صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ’’پی آئی ڈی سی‘‘ بنایا گیا تھا جس نے ان شعبوں میں صنعتیں لگا کر بعد میں نجی سیکٹر کے حوالے کیں، جن شعبوں میں نجی سرمایہ کار سرمایہ کاری کا رسک لینے پر آمادہ نہیں تھے ۔ ’’پی آئی ڈی سی‘‘ نے صنعتی شعبے کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا۔ پی آئی ڈی سی نے سرکاری شعبے میںکوئی ایک صنعت بھی ایسی نہیں لگائی جو نفع بخش نہ رہی ہو اور وہ نجی سیکٹر کے حوالے نفع میں نہ کی گئی ہو۔
سابق مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں نیوز پرنٹ کا کارخانہ کرنافلی پیپرز ملز پہلے پنچ سالہ منصوبے کا حصہ تھا۔ پنچ سالہ منصوبہ‘ جو کسی بیرونی امداد کے بغیر تیار کیاگیا ،اس کے بنیادی خدوخال کا جائزہ لیں تو وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ساہوکاروں کے تعاون سے بننے والے منصوبوں کے برعکس ’’چادر کے مطابق پائوں پھیلائو‘‘ کے اصول پر قائم کیے گئے، بنیادی اصول طے کیا گیا تھا کہ ہر پنچ سالہ منصوبے میں پاکستان کے تمام علاقوںکی 30 سال کے لیے تعلیم‘ صحت‘ پینے کے پانی اور آمدورفت کی سفری سہولیات کو پیش نظر رکھا جایا کرے گا۔ ابتدا اس کی پاکستان کے دارالحکومت کراچی‘ ڈھاکہ‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ سے کی گئی تھی۔ اسی منصوبے کے تحت کراچی‘ ڈھاکہ‘ لاہور‘ پشاور کوئٹہ میں تعلیم‘ صحت‘ پینے کے پانی اور نئی رہائشی بستیاں بسانے کا آغاز ہوا تھا۔
کراچی میں سرکاری ملازمین کے لیے پی ای سی ایچ ایس جب کہ عام شہریوں کے لیے ناظم آباد‘ نارتھ ناظم آباد‘ کورنگی‘ نیو کراچی کی آبادیاں اسی منصوبے کا حصہ تھیں۔ نارتھ ناظم آباد کی کشادہ سڑکیں اور وہاں تعلیم‘ اسپتال اور بچوں کے کھیلنے کے وسیع و عریض میدان اور پارک گواہی دے رہے ہیں کہ پہلے پنچ سالہ منصوبے کے مطابق اگر بعد میں بننے والے ترقیاتی منصوبوں میں بھی اسی اسپرٹ کو قائم رکھا جاتا تو پاکستان کا کوئی شہر آج بنیادی سہولیات کی فراہمی سے محروم نہ رہتا۔
یہاں یہ گزارش بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان سمیت وہ تمام حضرات جنھوں نے کسی ثبوت کے بغیر یہ بے بنیاد دعویٰ کرنا اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے‘ وہ اس سے تائب ہوجائیںکہ پاکستان میں ستر‘ اکتہر سال سے حکمرانی کرنے والوں نے لوٹ مار کرنے کے سوا کیا ہی کیا ہے۔
کوئی بڑے سے بڑا انسان نہ تو بشری کمزوریوں اور خطا و نسیان سے پاک ہوسکتا ہے اور نہ ہی فیصلوں کی غلطی اور ذاتی کمزوریوں سے مبرا۔ مگر پاکستان نے جس قیادت سے اپنی سفر کا آغاز کیا تھا اس نے ذاتی طور پر بھی پاکستان کے لیے ایثار و قربانی کی نہایت اعلیٰ مثال قائم کی۔ (شہید ملت) خان لیاقت علی خان نے دہلی میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم کرنے کے لیے اپنا شاندار گھر پاکستان کو دے دیا تھا۔کیا ملک کے پہلے وزیراعظم (شہید ملت) خان لیاقت علی خان‘ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین‘ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ‘ وزیراعظم چودھری محمد علی‘ وزیراعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر‘ وزیر اعظم حسین شہید سہروردی‘ وزیر اعظم فیروز خان نون کے دامن پر بدعنوانی اور قومی وسائل کی لوٹ مارکا کوئی الزام تلاش کیا جاسکتا ہے؟ 1947ء سے 1958 تک اقتدار میں رہنے والے کسی ایک پر بھی کسی دشمن نے بھی قومی خزانے اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں ملوث ہونے کا کوئی الزام نہیں لگایا جب کہ 1958 کے بعد بشمول وزیراعظم جناب عمران خان کے ’’ترقی ماڈل ‘‘کے آئیڈیل جنرل ایوب خان سمیت ایک بھی حکمران نہیں ہے جو کرپشن کے الزام سے بچا ہو۔ وزیراعظم جناب عمران خان فکر نہ کریں وہ بھی جلد اسی طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہوں گے۔