چینی حکومت اور پاکستانی حساس ادارے متحرک
پاکستان کے ہر درد کی دوا اب چین بن چکا ہے۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جہاں چین کا ذکر نہ ہو۔ سی پیک منصوبہ تو ایک روشن مستقبل سمجھا جارہا ہے، یقیناً یہی وجہ ہے کہ برادر چینی اب پاکستان کے داماد بھی بن گئے ہیں۔ شاید پاکستانیوں نے سمجھ لیا ہے کہ سب کچھ چین ہے۔ چین حقیقت میں دنیا کی ڈی فکٹو اقتصادی سپر پاور بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ چینی تو افیونی قوم ہے۔ مگر پچھلی چند دہائیوں میں چینی جس ملک میں بھی گئے، وہاں کے سماج کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس وقت چین نے ساری امریکی اقتصادیات پر قبضہ کرلیا ہے، چین معیشت کے نظام اور راستوں پر اپنا عالمی تسلط قائم کرنے کے لیے کیا کچھ کررہا ہے، وہ سب عیاں ہوچکا ہے۔ وہ ون بیلٹ روڈ کے بعد اب ملٹی کلچرل شادیوں میں کود پڑا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چین نے چالیس سال میں ہر وہ کام کرنا گوارا کرلیا ہے جو اس کے لیے شجرِ ممنوعہ تھا۔ چین میں کوئی بھی غیر چینی شادی رجسٹر نہیں ہوتی تھی، چینی باشندے کو چینی لڑکی نہ ملتی تو چین میں رہتے ہوئے وہ کنوارا مر جاتا تھا۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ چینی مردوں نے پوری دنیا میں شادیاں کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔ شادی کے بندھن کو سب سے مضبوط رشتہ سمجھا جاتا ہے، چینیوں نے انسانی نفسیات کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان سمیت امریکہ سے افریقہ تک شادیاں کرکے وہاں کے سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کررہے ہیں۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ افریقہ میں سب سے زیادہ کوئی غیر ملکی مرد شادیاں کرتے نظر آئیں گے تو وہ چینی ہوں گے۔ چین میں تقریباً دس لاکھ کے قریب افریقی دلہنیں موجود ہیں اور ان کی شادیاں باقاعدہ رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔ چالیس سال کے دوران چین نے اپنی پرانی ممنوع پالیسی کو ترک کردیا ہے اور چینیوں کو باقاعدہ اجازت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ غیر ملکیوں سے شادیاں کرسکتے ہیں۔ افریقہ کے بعد چینیوں کے زیادہ تر اور اہم بنیادی معاشی منصوبے پاکستان میں زیر تکمیل ہیں، لہٰذا چینی باشندوں نے پاکستانی سماج کی کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے ملٹی کلچرل شادیوں کو یہاں بھی رواج دیا ہے، تاہم اس کا نتیجہ بہت برا نکلا ہے، بلکہ ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن سے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچ رہی ہے۔ حساس ادارے اور پولیس چینی مردوں سے سنہرے خواب کا جھانسہ دے کر شادیاں کروانے والے مقامی سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون کررہے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق عیسائی اور مسلمان ہونے کے جعلی سرٹیفکیٹ دکھاکر شادیاں کی گئیں۔ اسلام آباد، پشاور، لاہور اور فیصل آباد میں درجنوں ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ چینی باشندوں کی شادی کی اس لہر کے پیچھے کون سی لابی یا گروہ ہے اس کا کھوج لگانا بہت ضروری ہے۔ امریکہ، بھارت سمیت کئی عالمی قوتیں اور ان کے آلہ کار چین اور پاکستا ن کے درمیان تعلقات خراب کرنے کے لیے خفیہ طور پر کام کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے بعد چین ایک ایسا ملک ہے جس پر پاکستانی اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ ان سب کا ہدف بھی یہی ہے کہ یہ اندھا باہمی اعتماد داغ دار کردیا جائے۔ اب معاملہ ایف آئی اے کے پاس پہنچ چکا ہے اور دونوں ممالک کی حکومتیں بھی اس پر خاص توجہ مرکوز کرچکی ہیں، لہٰذا حقائق ضرور سامنے آجائیں گے۔ بھارتی یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح چین اور پاکستان میں بدگمانی پھوٹ پڑے۔ بھارت چین کو پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دے رہا ہے، بھارت کی بلوچستان میں دہشت گردی کرانے کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ چین کے اندر دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے بلوچستان کی سرزمین کو استعمال کرتا ہے، لیکن چین اس کی چالوں میں نہیں آیا اور پاکستان کے ساتھ کاندھا ملا کر سی پیک بھی مکمل کرگیا ہے اور بلوچستان میں قربانیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اس جنگ میں اس کے پشتی بان کے طور پر کھڑا ہے، لیکن اب لگتا ہے کہ متنازع شادیوں کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان سماجی سفارتی ڈی این اے میں کچھ خرابیاں سامنے آئی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا طبقہ موجود ہے جو لالچ و ہوس میں جرم کرتا ہے، اسی طبقے نے چینیوں کو آگے بڑھ کر داماد بنانے کا دھندا کیا۔ یہ شوق کسی محبت والفت کے جذبے کی پیداوار نہیں تھا بلکہ لالچ اور بے کسی و مجبوری کا سودا تھا۔ ایف آئی اے نے بروقت کارروائی کرکے درجنوں چینیوں اور اُن کے مقامی سہولت کاروں کو گرفتارکرلیا ہے جو اس دھندے میں ملوث ہوئے اور انہوں نے تھوک کے حساب سے چین سے دولہے امپورٹ کیے۔ پاکستان میں غربت بھی زیادہ ہے، اور بیرون ملک جانے کا کریز بھی بہت ہے، اور اہم بات یہ کہ بیٹیوں کے رشتے حاصل کرنا خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لہٰذا اس کا فائدہ وائٹ کالر دلالوں نے اٹھایا اور غربت کے اس مسئلے کو بڑی منافع بخش مارکیٹ سمجھ کر قوم کی بیٹیوں کو چینیوں کے ہاتھوں بیچنا شروع کردیا۔ لاہور اور فیصل آباد سے پکڑے جانے والے چینیوں نے جو انکشافات کیے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت پاکستانی لڑکیوں کو خرید کر لے جاتے تھے، جس کے بعد آئے دن پاکستانی خواتین کی چینی مردوں کے ساتھ شادیاں کروا کر انھیں چین لے جانے اور ان کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والے تشدد، جسم فروشی اور انسانی اعضا نکالنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ ایف آئی اے کے پاس اس وقت ایسے سینکڑوں کیس آ چکے ہیں۔ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے میں اس حوالے سے روزانہ دو، تین متاثرہ خواتین یا ان کے عزیزواقارب کی درخواستیں موصول ہورہی ہیں، اور اب تک تقریباً 20 خواتین کو پاکستان واپس بھجوایا جاچکا ہے۔ شادی کے بعد ایک ماہ کے لیے اسلام آباد میں رکھا جاتا ہے، چیٹ پر اکاؤنٹ بھی بنایا گیا اور کاغذات بنتے ہی جوڑا چین چلا جاتا ہے۔ چین میں ایک شہر کا فاصلہ دوسرے شہر سے سینکڑوں میل ہے۔ ٹرین، بس اور جہاز میں سفر کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر دوسرا شہر آتا ہے۔ پاکستان سے شادی کرکے چین جانے والی لڑکیوں کی کہانی ایک جیسی ہی ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ لڑکا سی پیک میں کام کرتا ہے، لیکن چین جاکر پتا چلتا ہے کہ لڑکا بے روزگار ہے، یا کوئی دوسرا کام کرتا ہے۔ متعدد کیس ایسے بھی ہیں کہ رشتے کے وقت بتایا گیا کہ لڑکا مسلمان ہے، لیکن وہ بدھ مت کا ماننے والا ہوتا ہے۔ دونوں میاں بیوی میں رابطے کی زبان انگریزی ہے، اور دونوں میں سے کوئی بھی درست اور مکمل انگریزی نہیں بول سکتا، لہٰذا بس بات سمجھنے اور سمجھانے کی حد تک ہی بات چیت کا معاملہ رہتا ہے۔ چین سے یہاں آنے والی لڑکیوں کی مسلسل تشدد کے علاوہ دوسری شکایت یہ ہے کہ انہیں کلبوں میں لے جایا جاتا ہے جہاں سب کچھ ہی ہوتا ہے۔ چین جانے والی لڑکیوں کی تصویر، ویڈیوز باقاعدہ میک اپ کرکے اپ لوڈ کی جاتی ہیں تاکہ گھر والے یہ سمجھیں کہ ان کی بیٹی سُکھی ہے۔ چونکہ مذہب کے بارے میں بھید وہاں جاکر کھلتا ہے لہٰذا پاکستان سے جانے والی لڑکیوں کے لیے کھانے پینے میں بھی دشواری کی شکایت بہت زیادہ ہے۔ ایک بات اطمینان بخش ہے کہ جس لڑکی نے بھی پولیس سے رابطہ کیا اُسے ضرور مدد ملی ہے، اور اسی وجہ سے وہ وطن واپس آنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطے میں کامیاب رہی ہیں۔ جو لڑکیاں کلب جانے سے انکار کرتی ہیں انہیں دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کے اعضا نکال کر فروخت کردیے جائیں گے، اور انہیں خوف زدہ کرنے کے لیے ایسی ویڈیوز بھی دکھائی جاتی ہیں جن میں لوگوں کو قتل کیا جارہا ہوتا ہے یا اسپتال کا بستر تھا جس میں بے ہوش کیا جارہا تھا اور ان کے اعضا نکالے جا رہے تھے۔ بہت سے کیس ایسے بھی ہیں جن میں چین جانے والی متعدد لڑکیوں نے اپنے گھر رابطہ کیا اور سب کچھ بتادیا۔ اور ان کے گھر والوں نے سفارت خانے کے ذریعے کوشش کرکے اپنی بیٹی کو واپس پاکستان بلایا۔ متعدد کیس ایسے بھی ہیں کہ لڑکیوں کی حالت دیکھ کر پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار بھی رو پڑے تھے۔ دراصل اس دھندے میں ایک ہی گروہ ملوث ہے، اس گروہ کے ارکان فلپائن اور بھارت سے بھی ایسی شادیاں کرچکے ہیں۔ یہ تمام حقائق سامنے آجانے پر چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے، اسی لیے کڑی نگرانی کے لیے چینی حکومت اور پاکستان متحرک ہوا ہے، اور چینی حکومت کی جانب سے سفارت خانے سے وضاحت جاری کی گئی ہے کہ چین پاکستانی اداروں کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتا ہے، کسی کو بھی کراس بارڈر شادی کے لبادے میں جرائم کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، چین قانونی شادیوں کے تحفظ اور جرائم کے خاتمے کا حامی ہے، چین کی وزارتِ پبلک سیکورٹی نے پاکستانی حکام سے تعاون کے لیے اپنی ٹاسک فورس پاکستان بھیجی ہے جو پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر جائزہ لے رہی ہے۔ تاہم چینی حکومت کی اس وضاحت کے بعد بھی اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ کیا واقعی پاکستان سے شادی کے بعد چین جانے والی خواتین کے اعضا نکال کر فروخت کیے گئے ہیں؟ چین نے اپنی وضاحت میں صرف یہ کہا کہ کسی بھی پاکستانی خاتون کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک نہیں کیا گیا۔ چینی حکومت نے یہ ضرور کہا کہ ان خواتین کے جسمانی اعضا کی اسمگلنگ کی اطلاعات بھی غلط ہیں، دونوں ممالک کے عوام افواہوں پر توجہ نہ دیں۔ تاہم اس وضاحت کے باوجود تحفظات ہیں، انہیں دور ہونا چاہیے۔ کراس بارڈر شادی کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے، بہت سی پاکستانی خواتین کی شادی عرب ممالک کے باشندوں کے ساتھ ہوچکی ہے۔ دبئی، ابوظہبی اور دوسری خلیجی ریاستوں میں بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح یورپی اور افغان خواتین کے ساتھ بھی پاکستان کے مردوں کی شادیاں ہوئی ہیں۔ غربت، گلیمر، دوسرے ملک جانے کی خواہش اور خاندانی روایت سے ہٹ کر انوکھا کام کرنے اور دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے ایسے طریقوں نے بھی اس معاملے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ چینی مردوں کے ساتھ پاکستانی خواتین کی شادیاں غربت کی وجہ سے تھیں، اور زیادہ تر مسیحی خواتین کی ہی چینی مردوں کے ساتھ شادیوں کے واقعات ہوئے ہیں۔ خرابی بھی یہیں سے شروع ہوئی، پہلی دو چار شادیوں کی تو خوب میڈیا کوریج ہوئی، میڈیا نے بھی اسے پاک چین دوستی کا نیا رنگ قرار دیا۔ لیکن اب تشویش ناک خبروں کے بعد چینی حکومت اور ایف آئی اے بھی حرکت میں آئی اور چینی باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں متعدد افراد کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ چینی نوجوان مسیحی خواتین سے جعل سازی کے ساتھ شادیاں کرتے تھے اور ملزمان لڑکیوں کے جسم کے اعضا بھی نکالتے تھے۔ حال ہی میں ایک شہری نذیر احمد کی بیٹی چین سے واپس آئی ہے، متاثرہ لڑکی کی پاکستان واپسی ہائی کمیشن اور چینی حکومت کی مداخلت سے ممکن ہوسکی۔ ایف آئی اے نے جوہر ٹائون میں چھاپہ مار کر چینی باشندوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ نذیر کے مطابق اس کی بیٹی کی شادی پاکستانی ایجنٹوں نے چین کے نوجوان سے کرائی جس نے اپنا نام موسیٰ بتایا۔ موسیٰ پہلے اسے اسلام آباد لے گیا، کچھ عرصے بعد چین لے گیا جہاں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ ان گرفتاریوں کے باوجود یہ کام رکا نہیں، ایف آئی اے کے شعبہ امیگریشن نے اسلام آباد ائرپورٹ پر جعلی شادیوں کے الزام میں مزید 3 چینی باشندوں سمیت 6 افراد کو گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے امیگریشن حکام کے مطابق گرفتار 3 جوڑے، جن میں 3 چینی باشندے اور 3 پاکستانی لڑکیاں شامل ہیں، خود کو شادی شدہ ظاہر کرکے بیرون ملک جارہے تھے۔ گرفتار چینی باشندے انسداد انسانی اسمگلنگ سیل منتقل کیے گئے ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق پاکستانی لڑکیوں کو 18 لاکھ سے 35 لاکھ روپے کے عوض چین اسمگل کرنے میں ملوث گینگ مبینہ طور پر اس شخص نے قائم کیا جو جھنگ کے علاقے حویلی بہادر شاہ میں توانائی کے ایک منصوبے کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔ اس کے گینگ کے کچھ کارندوں کو گرفتار کیاگیا ہے، جن میں چینی شہری اور ان کے پاکستانی سہولت کار شامل ہیں۔ چینیوں نے شن شیانہے کی سربراہی میں ایک گروہ تشکیل دیا جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی پاکستانی مسیحی لڑکیوں کی چینی شہریوں سے شادی کرواکر انہیں اسمگل کرتے تھے۔ شن شیانہے نے اگست 2018ء میں اپنے برادرِ نسبتی وینگ پینگ کو پاکستان بلوایا جو خود بھی گینگ کا سرگرم کارکن تھا۔ شن شیانہے، اس کی اہلیہ اور اس کے والد، جو چین میں ایک شادی دفتر چلاتے تھے، چین سے چینی لڑکوں کی تصاویر ’وی چیٹَ ایپلی کیشن کے ذریعے مقامی ایجنٹوں کو بھجواتے تھے، جس کے بعد یہ ایجنٹ وہ تصاویر مسیحی گھرانوں کو دکھاکر انہیں شادی کرنے کے لیے راضی کرتے تھے، اور گینگ چینی لڑکوں سے فی شادی 18 سے 35 لاکھ روپے وصول کرتا تھا۔ گینگ کا سرغنہ شن شیانہے اور وینگ پینگ مقامی ایجنٹوں کے ذریعے مسیحی لڑکیوں کا سراغ لگاتے تھے جنہیں شادی طے ہوجانے کی صورت میں 50 سے 70 ہزار روپے دیے جاتے تھے، جس کے بعد یہ دونوں غریب علاقوں کے گرجا گھروں میں جاتے تھے اور اس دوران مسیحی خاندانوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے تھے کہ چینی لڑکے بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ شادی کے تمام اخراجات دولہا ادا کرتا تھا اور اپنے سسرالیوں کو بھی مالی معاونت فراہم کرتا تھا۔ چینی دولہے فیصل آباد آکر ایڈن گارڈن میں رہتے تھے، اور جب تک اپنی ’بیویوں‘ کے ہمراہ واپس چین نہیں چلے جاتے اُس وقت تک شن شیانہے کو ایک ہزار سے 5 ہزار روپے روزانہ کرایہ دیتے تھے۔ لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا یہ کاروبار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی کیا جارہا ہے۔ ایچ آر ڈبلیو نے پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کو چین میں جنسی تعلقات کے لیے غلام بنائے جانے کے واقعات میں اضافے پر چین اور پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ لڑکیوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ایف آئی اے نے پیپلز کالونی کے ڈی گراؤنڈ سے کچھ چینی شہریوں اور اُن کے معاونین کو ایک شادی کی تقریب سے گرفتار کیا ہے، جن سے تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گینگ کے مقامی افراد سے مربوط روابط تھے، مقامی سہولت کار چینی لڑکوں کو امیر کبیر ظاہر کرکے غریب گھرانوں کو ان کی بیٹیوں کی شاجدی چینی شہریوں سے کرانے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ مزید ایجنٹوں کو آئندہ آنے والے دنوں میں گرفتار کیے جانے کی اُمید ہے۔