جنوبی ایشیا میں بھارت کے انتخابات محض بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا براہِ راست تعلق جنوبی ایشیا اور بالخصوص خطے کی سیاست، ترقی اور علاقائی ممالک کے تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔ اس وقت بھارت میں انتخابات کا ماحول گرم ہے۔ 23مئی 2019ء کو یہ واضح ہوجائے گا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ اصل مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُس کے اتحادیوں کا کانگریس سمیت بی جے پی کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہے۔ نریندر مودی اور راہول گاندھی سیاسی میدان میں ایک دوسر ے پر اپنی سیاسی برتری قائم کرنے کی جنگ کا حصہ ہیں۔17ویں لوک سبھا کے 543 نشستوں پر11اپریل سے 19 مئی 2019ء تک 29 ریاستوں اور وفاقی کنٹرول میں موجود 7 ریاستوں میں سات مراحل میں ہونے والے انتخابات ایک سیاسی جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں اور اب تک چھ مراحل کے انتخابات ہوچکے ہیں اور 19مئی کو ہونے والا انتخاب آخری مرحلہ ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں دو ہزار سیاسی جماعتوں کی جانب سے 80,136 امیدوار میدان میں ہیں، جن میں 636 خواتیں بھی شامل ہیں۔ 90 کروڑ سے زیادہ رائے دہندگان ان انتخابات میں ووٹ ڈالیں گے اور پہلی بار 13کروڑ افراد یعنی نوجوان اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ بی جے پی نے ان انتخابات میں 437، کانگریس نے 423، جبکہ بہوجن سماج پارٹی نے 136امیدوار کھڑے کیے ہیں۔کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے 272 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان انتخابات سے قبل بھارت کا جو سیاسی ماحول تھا اس میں تو ملکی اور غیر ملکی سیاسی پنڈت اس بات پر زور دے رہے تھے کہ بی جے پی اور نریندر مودی دوبارہ آسانی سے برسراقتدار آسکتے ہیں۔ لیکن اب تک کے چھ مراحل کے انتخابی نتائج کے ابتدائی جائزے پیش ہورہے ہیں اُن کے مطابق اگرچہ نریندر مودی کو عددی برتری کانگریس اور اس کے اتحادیوں پر حاصل ہے، لیکن یہ برتری بہت زیادہ نہیں اور کسی بھی وقت نتائج مودی کے مخالفین کے حق میں پلٹ سکتے ہیں۔ مودی اور بی جے پی کو 2014ء کے انتخابات کے مقابلے میں اِس بار اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس لیے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نریندر مودی یا راہول گاندھی تن تنہا حکومت بنا سکیں۔
2019ء کے انتخابات کی اہم بات ایک طرف بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیاسی رسّاکشی ہے تو دوسری جانب اِس بار بھارت میں حکومت سازی میں فیصلہ کن کردار علاقائی جماعتیں ہی ادا کریں گی۔ بی جے پی یا کانگریس، جس کے ساتھ علاقائی جماعتوں کی اکثریت ہوگی وہی عملاً اقتدار کی کرسی پر بیٹھے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بی جے پی کا اصل مقابلہ کانگریس سے ہے، لیکن کانگریس کی کمزور انتخابی مہم کے پیش نظر مودی کو علاقائی جماعتوں سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان علاقائی جماعتوں میں بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، انڈین نیشنل کور دل، عام آدمی پارٹی سمیت کئی جماعتیں شامل ہیں۔ ان انتخابات میں ٹرمپ کارڈ یہی علاقائی جماعتیں ہوں گی۔ زیادہ تر علاقائی جماعتوں میں ماضی کے مقابلے میں اِس بار مودی مخالفت کا ایجنڈا بالادست ہے، یہ امر عملاً کانگریس کے حق میں اور بی جے پی کی مخالفت میں جاتا ہے۔
2019ء کا یہ انتخاب عملی طور پر بھارت میں ہندوتوا کی سیاست یا سیکولر سیاست کے درمیان ہے۔ مودی ہندوتوا کی سیاست کی ترجمانی کررہے ہیں، جبکہ کانگریس سمیت کئی علاقائی جماعتیں سیکولر بھارت کا مقدمہ لڑرہی ہیں۔ اگر مودی انتخاب جیتے تو اس کی تین اہم وجوہات ہوں گی:
(1) وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ ایشوز کے بجائے نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لیے مذہبی زہرآلود قوم پرستی کا کارڈ کھیل کر تعصبات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کریں۔
(2) مودی مخالف قوتوں کی کمزور انتخابی مہم اور بہت سے مقامات پر مشترکہ حکمت عملی کا فقدان۔
(3) مودی کی جیت کی صورت میں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت کا ووٹر بھی نہ صرف مذہب بلکہ مسلم دشمنی، ہندوتوا پر مبنی سیاست، بلکہ پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتا ہے، اور اب اس کے نزدیک سیکولر ریاست کے مقابلے میں ہندوتوا پر مبنی ریاست ہونی چاہیے جو خود بھارت میں موجود تقسیم میں مزید گہرائی پیدا کرے گی۔
مودی کی سیاست پر تحفظات محض بھارت تک ہی محدود نہیں، بلکہ عالمی برادری میں بھی مودی کی کامیابی پر تشویش نظر آتی ہے۔ حال ہی میں امریکہ سے شائع ہونے والے اہم جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘نے اپنے ٹائٹل میں مودی کو ’’انڈیازڈیوائڈان چیف‘‘یعنی )بھارت کو تقسیم کرنے والا( سے تشبیہ دی ہے۔ اس جریدے میں شائع ہونے والی اسٹوری کے مطابق مودی کا دوبارہ حکومت میں آنا بھارتی عوام کے لیے ایک بڑا سانحہ ہوگا، اورکیا عملی طور پر بھارت اگلے پانچ برس کے لیے مودی سرکار کو سہہ سکے گا جو اپنی ناکام معاشی پالیسیوں سمیت مذہب کی بنیاد پر جاری خوفناک تقسیم، تفریق اور تعصب کی بنیاد پر پہلے ہی ناکام حکومت سمجھی جاتی ہے؟
لیکن کیونکہ یہ فیصلہ بنیادی طور پر بھارت کے عوام یعنی ووٹرز کو کرنا ہے کہ وہ سیکولر یا ہندوتوا کی سیاست میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں، مگر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت کی مجموعی سیاست میں تیزی سے انتہاپسندی، مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی کا ایجنڈا بالادست ہورہا ہے۔ اس لیے اگر عملی طور پر مودی دوبارہ حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو یہ سمجھنا ممکن ہوگا کہ مستقبل کا بھارت کیا ہوگا، اور جو آج کا حال ہے وہی اس کے مستقبل کی جھلک کو نمایاں کرے گا۔ ویسے اب تک کے جو انتخابی جائزے آرہے ہیں ان میں کانگریس کے بار ے میں بھی کہا جارہا ہے کہ وہ ایک بڑا اَپ سیٹ کرسکتی ہے۔ امریکی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ جو medium.com میں شائع ہوئی ہے،کے مطابق حالیہ بھارتی انتخابی نتائج میں کانگریس اور اس کے اتحادیوںکو 213، بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو 170، جبکہ علاقائی جماعتوں کو 160کی تعداد میں نشستیں مل سکتی ہیں۔ بھارت کا میڈیا بھی نتائج کے تناظر میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان تقسیم نظر آتا ہے، اور اس بار مودی کو 2014ء کے مقابلے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مودی کا جادو اِس بار اس انداز سے نہیں چل سکا جس کی ماضی کے انتخابات میں جھلک دیکھنے کو ملی تھی۔
بھارت کے حالیہ انتخابات کو بھارت اور عالمی سطح کا سب سے مہنگا انتخاب قرار دیا جارہا ہے۔ دہلی میں موجود سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے مطابق 2019ء کے انتخابات میں سات ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوگا۔ 2014ء میں پانچ ارب ڈالر، جبکہ 2009ء میں یہ رقم دو ارب ڈالر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے رکن نرنجن ماہو کے بقول بھارتی انتخابات میں ’’پلوٹو کریسی‘‘ یعنی ’’دولت کی طاقت‘‘ کو بڑی واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ یعنی بھارت کی جمہوریت، سیاست اور اس سے جڑے فیصلوں میں دولت کا کھیل بالادست ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ محض اب بھارت تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کارپوریٹ جمہوریت کا حصہ بن گئی ہے، اور اس میں اہلِ سیاست پر عالمی مالیاتی ادارے، کمپنیاں اور سرمایہ دار دولت مند طبقہ بالادست ہوگیا ہے، جہاں نظریے سے زیادہ منافع اہم ہے۔ اس لیے سرمائے کی بنیاد پر چلنے والا جمہوری نظام اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور اس میں عام آدمی کا کوئی حصہ نہیں۔ اس پر دنیا بھر کے سنجیدہ افراد کو ایک نئی فکر تلاش کرنا ہوگی جو حقیقی جمہوری عمل کو بحال کرسکے۔ کیونکہ اب دنیا کا جمہوری نظام آہستہ آہستہ لوگوں میں اپنی افادیت کھورہا ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ یہ وہ جمہوری نظام نہیں جو ہمیں کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
جہاں تک انتخابی نتائج کا تعلق ہے تو خبر یہ نہیں کہ مودی جیت گئے ہیں، بلکہ بڑی خبر ’’مودی ہار گئے ہیں‘‘ ہوگی، اور یہی بھارت کی سیاست کا بڑا اَپ سیٹ ہوگا۔ لیکن مودی کا ہارنا اتنا آسان نہیں ہوگا، اور یہ خود بھارت کے ووٹرز کا بھی امتحان ہوگا۔ یہ جو تاثر دیا جاتا ہے کہ بھارت کی خاموش اکثریت عملاً انتہا پسندی کے خلاف ہے اب اس کا امتحان ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ البتہ ایک بات نظر آرہی ہے کہ موجودہ انتخابی نتائج میں کسی جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی اور ایک مخلوط کمزور حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں، جس میں سیاسی بلیک میلنگ بھی نمایاں ہوگی، اور اس مخلوط حکومت کی موجودگی میں بھارت کا داخلی بحران کم نہیں بلکہ مزید بڑھے گا جو بھارت سمیت خطہ کی سیاست کو بھی کمزور کرے گا۔ اس وقت بھارت معاشی بدحالی کے علاوہ داخلی بحران کی وجہ سے ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔
خود پاکستان کی نظریں بھی بھارت کے انتخابات اور اس کے نتائج پر ہیں۔ انتخابات سے کچھ وقت قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر مودی جیت گئے تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری پیدا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو مودی کی حمایت پر مبنی بیان سمجھا گیا اور اس پر مودی کے مخالفین نے مودی کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا۔ لیکن پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت میں جس کی بھی حکومت بنے گی اُس کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ بھی پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان جو تعطل ہے اسے توڑنے میں ان انتخابات کے نتائج اور نئی بننے والی حکومت کا اہم کردار ہوگا۔