عالمی تہذیب کا مقدمہ

عالمی انسانی تہذیب ’انسانی فطرت‘ سے ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ سوائے اسلام کہیں موجود نہیں

یہ حقیقت ہے کہ آج کی انسانی دنیا عالم گیر ہوچکی ہے۔ یہ عالم گیر انسانی دنیا عالم گیر تہذیب کی ضرورت مند ہے۔ یہ ضروری ہوچکا ہے کہ عالم گیر تہذیب کی تعریف، اوصاف، وظائف کا تعین کیا جائے۔ اس عالمگیر تہذیب کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اس کا مقدمہ مستحکم کیا جائے اور پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ کام مغرب میں متواتر ہورہا ہے۔ مغرب کا گمان ہے کہ عالمی نظام پر اُس کی گرفت ہے، اس لیے عالم گیر تہذیب بھی وہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے ’’گمان سچ کی ضرورت کچھ بھی پوری نہیں کرتا‘‘۔ (سورہ یونس، آیت 36)
یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ الفاظ اشیاء کے بارے میں ہمارے مخصوص تصورات کے ’جامے ‘ ہیں۔ جیسا ہمارا تصور ہوگا ویسی ہی الفاظ کی صورت بنے گی۔ کسی بھی لفظ یا اصطلاح کو صرف تصور کے تناظر میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ ’تہذیب‘ اورCivilization میں اتنا ہی فرق ہے کہ جتنا قمیص شلوار واسکٹ اورتھری پیس سوٹ میں ہے، اور اگر ’تہذیب‘ اسلامی کی بات کی جائے تو یہ فرق احرام اور بے لباسی جتنا ہوجائے گا۔ لادین مغرب جسے Civilization کہتا ہے، وہ انسانی زندگی کی مادی وثقافتی توضیح ہے۔ مغربی سویلائزیشن کے اہم اجزاء معاشرتی اور ثقافتی بودوباش کا ارتقاء ہے، اس کا سارا زور مادی تعبیرات پر ہے، انتظامی ترقی کی منہاج پر ہے۔ یہاں انسانی زندگی کا ماخذ نظریۂ ارتقاء ہے، یعنی انسان بندر کی جدید نوع ہے، یوں کسی اعلیٰ معنویت کا حامل نہیں، لہٰذا اس کی کوئی ابتدا، کوئی قابلِ ذکر انجام نہیں۔ جبکہ جسے مذہبی ’تہذیب‘ سمجھا جاتا ہے، وہ انسانی زندگی کے بنیادی سوالات کی وضاحت پر مستحکم ہے۔ انسان کون ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ انسان کا کائنات میں کیا مقام ہے؟ زمین پر انسان کی موجودگی کا کیا مقصد ہے؟ اس زندگی کا کیا حاصل ہے؟ اس زندگی کی ابتدا کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہے؟ زندگی کا معاشرتی تصور کیا ہے؟ یہاں مادی وسائلِ زندگی کی حیثیت بنیادی نہیں ہے۔ مغرب کے مطالعہ میں CivilizationاورCulture کا الجھاؤ عام ہے۔ جبکہ مذہبی ’تہذیب‘ میں ’ثقافت‘ کا الگ ضمنی وجود اور پہچان ہے۔ اس ایک تہذیب میں ہر ثقافت پنپ سکتی ہے، مگر یہ تہذیب کسی ثقافت کی زیراثرنہیں آسکتی۔ یعنی جغرافیائی اور لسانی دائرے میں طرزِ زندگی کے مظاہر ’ثقافت‘ ہیں۔ ’ثقافت‘ کے یہ مظاہر عالم گیر نہیں ہوسکتے، ان میں یہ وصف ہی موجود نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی یا تامل ثقافت عالم گیر تہذیب نہیں بن سکتی۔ تہذیب کیا ہے؟ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی‘‘ میں عمدہ تصریح کرتے ہیں:
’’اس سوال کا تصفیہ ہونا ضروری ہے کہ تہذیب کس شے کو کہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اُس کے علوم وآداب، فنونِ لطیفہ، صنائع بدائع، اطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا۔ مگرحقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج ومظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں، شجرِ تہذیب کے برگ وبار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدروقیمت ان ظاہری صورتوں اور نمائشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اور اس کے اساسِ اصول کا تجسس کرنا چاہیے۔ اس نقطہ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اِس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟ اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے؟ انسان کا اس دنیا سے تعلق کیا ہے؟ اور انسان اس دنیا کو برتے توکیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پراس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے، اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے۔ دوسرا سوال جو تصورِ حیات کے سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے، زندگی کے نصب العین کا سوال ہے۔ دنیا میں انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ ساری تگ و دو، یہ تمام کشمکش، یہ سب جدوجہد اور محنت و مشقت آخر کس لیے ہے؟… تیسرا سوال یہ ہے کہ زیربحث تہذیب میں انسانی سیرت کی تعمیر کن بنیادی عقائد و افکار پر کی گئی ہے؟ انسان کی ذہنیت کو وہ کس سانچے میں ڈھالتی ہے؟ یہ بات کسی بحث کی محتاج نہیں کہ انسان کے قوائے عمل اس کے قوائے فکر کے تابع ہیں۔‘‘
تہذیب کی یہ تعریف علمِ وحی کی دین ہے، یہ پہلے انسان سے آج تک عظیم معاشروں کی فطری توضیح ہے۔ غیر مذہبی یا لادین مغرب اس’تہذیب‘ سے بیزاری اور لاتعلقی کا متکبرانہ اظہار کرتا ہے، اور ’عالمی غاصبانہ نظام‘ کا ’جنگی جنون‘ کی حد تک تسلط چاہتا ہے۔ مغربی سویلائزیشن کی عمومیت کا مطلب قدرتی وسائلِ زندگی پر قبضہ کرنا ہے، اور اربوں انسانوں کے حقوق کو غصب کرنا ہے۔ مذہبی ’تہذیب‘ سے لاتعلقی یا دشمنی کی مثالیں نظریہ ارتقاء کے ماہرین کی جانب سے متواتر سامنے آتی ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ انسان بندر کی انواع سے جدید نوع میں ڈھلا ہے، لہٰذا یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں، اب یہ نوع انسان مصنوعی ذہانت اور بائیونک نوع کی صورت اختیار کرجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تہذیب‘ یعنی عظیم انسانی معاشر ے ’تخیلاتی صحیفوں‘ پر گھڑے گئے ہیں، اس لیے یہ غیر فطری ہیں، ان کی کوئی سائنسی توجیح اُن کے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مذہبی ’تہذیب‘ عالم گیر Civilizational World Domination کی ضرورت پوری نہیں کرتی۔ مزید یہ کہ مذہبی ’تہذیب‘ انسان کے اخلاقی کردار پر یقین رکھتی ہے جبکہ جدید مغرب کا استحصالی نظام اربوں انسانوں میں مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس Civilizational World Domination کا ارتکاز مادی طاقت کے مراکز پر ہے۔ ایک جملے میں کہا جائے تو تہذیبِ مغرب ’مادہ پرست‘ ہے، جبکہ تہذیبِ مذہب ’خدا پرست‘ ہے۔ مادہ سے معنویت مہیا کرنا محال ہے، جبکہ مذہب کی تہذیبِ نفس معنویت ہی معنویت ہے۔
غرض مغرب جسے عالم گیر ’تہذیب‘ کے طورپر غالب کرنا چاہتا ہے، وہ Civilizational World Domination ہے، یعنی انسانوں کی عام فلاح سے لاتعلق عالمی غاصبانہ نظام۔ اس کی بدترین مثالیں مغربی تاریخ میں نمایاں ہیں۔ معروف دانشور شاہنواز فاروقی اپنے مضمون ’ایسٹ انڈیا کمپنی سے آئی ایم ایف تک، مغربی اقوام کی لوٹ مار کی ہولناک اور شرمناک تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جدید مغرب کی جھوٹی عظمت کی پشت پر کئی چیزوں کا تذکرہ موجود ہے۔ جدید مغرب نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا حاصل ہے۔ صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا پروردہ ہے۔ مغربی لوگوں کی عبقریت کا ساختہ ہے۔ اہلِ مغرب کی محنت کا ثمر ہے۔ مغرب کی سرمایہ دارانہ دنیا نوآبادیاتی تجربے اور مغربی اقوام کی لوٹ مار اور استحصال کے بغیر خلق نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ انگریز جو کچھ ہندوستان میں کررہے تھے، وہی کچھ وہ دوسری نوآبادیات میں بھی کررہے تھے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انگریز اگر صرف ہندوستان سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے تو انہوں نے اپنی تمام نوآبادیات میں کتنی زیادہ لوٹ مار کی ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ صرف انگریزوں یا برطانیہ تک محدود نہیں۔ فرانسیسی بھی اپنی کالونیوں میں یہی کررہے تھے۔ اطالوی، پرتگالی، ولندیزی اور جرمن بھی اپنی اپنی نوآبادیات میں یہی گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود تمام مغربی اقوام ’’مہذب‘‘ بھی ہیں، ’’صاحبِ علم‘‘ بھی ہیں، ’’صاحبِ اخلاق‘‘ بھی ہیں۔ مسلم دنیا کے بوکھلائے مغرب زدگان ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کی طرح کوئی ایمان دار نہیں۔ ان کی طرح کوئی ’’مہذب‘‘ نہیں۔ ان کی طرح کوئی ’’عقل مند‘‘ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام نے اربوں انسانوں کے لیے اِس دنیا کو سیاسی، معاشی اور سماجی جہنم بنایا ہوا ہے۔ Oxfame کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے صرف ’’8 افراد‘‘ کی دولت 3.6 ارب انسانوں کی دولت کے مساوی ہے۔ مغرب اور اُس کے ’’احمق متاثرین‘‘ اکثر شور مچاتے رہتے ہیں کہ بادشاہت کا نظام بڑا انسانیت کُش تھا، ایک بادشاہ کے پاس اپنی پوری قوم سے زیادہ دولت ہوتی تھی، بادشاہ عیش کرتا تھا اور اس کی رعیت معاشی مشکلات کا شکار رہتی تھی۔ مگر آج مغرب کی تخلیق کردہ ’’آزاد‘‘ دنیا، ’’جمہوری‘‘ دنیا، ’’عقل پرست‘‘ دنیا، ’’روشن خیال‘‘ دنیا اور ’’جدید‘‘ دنیا کا یہ حال ہے کہ صرف 8 بادشاہ 3 ارب 60 کروڑ افراد سے زیادہ دولت مند ہیں۔ یہ دولت کی عریانی وفحاشی کی انتہا ہے۔ یہ مغرب کی پیدا کردہ دنیا کی ایسی تصویر ہے کہ اگر اس تصویر کو شیطان بھی غور سے دیکھ لے اور اس کے معنی سمجھ لے تو وہ بھی مغرب پر تھوک دے۔ اس کی وجہ ہے۔ مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں ایک طرف 8 لوگ آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں، دوسری طرف اسی دنیا میں ایک ارب انسان انتہائی غربت میں مبتلا ہیں۔ ان افراد کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ ‘‘
جبکہ مذہبی ’تہذیب‘ عالمی سلامتی کا ارتقاء ہے، جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پرکامل ہوا، ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔‘‘ (المائدہ3)
’’اور ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘(الانبیاء، 107)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘
(سورہ فتح، آیت 28)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
(سورہ آل عمران، 110)
’’اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اورنہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے وہ اُسے بھی جانتا ہے، اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے ، اُس سے بھی وہ واقف ہے، اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلاّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اُس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ اور برتر ذات ہے۔‘‘
(سورہ بقرہ، 255)
واضح ہوا کہ قرآن حکیم عالم گیر انسانی تہذیب کی تکمیل کا حتمی حکم ہے۔ عالمی تہذیب کا ایک وظیفہ یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت سے کس قدر ہم آہنگ ہے۔ اس کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ انسان کی فطرت کیا چاہتی ہے؟ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم Ideology of the Future کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’انسانی فطرت پر تحقیق کرنے والے نمایاں ماہرینِ نفسیات اور مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ انسان مثالیوں (ideals) کی جانب فطری رجحان رکھتا ہے۔ میرے خیال میں یہ حقیقت انسانی فطرت کی وضاحت میں سائنسی کلیہ کی شاہ کلید ہے، جو تمام معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حقیقی اور ممکنہ حل کی واحد بنیاد ہے۔ نتیجتاً نوعِ انسانی کا مستقل اور حقیقی اتحاد آج کی دنیا کی انتہائی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا کلیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جو درست طریقے سے اس حقیقت کی عملی صورت میں ڈھل سکے۔ عہدِ حاضر کے نمایاں مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ تہذیب کا زوال اور عالمی معاملات میں ابتری کا بنیادی سبب انسانی فطرت سے ہماری لاعلمی ہے۔ بالخصوص، ہم انسانی محرکات کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ سماجی علوم حقیقی سائنس کی حیثیت اختیار نہیں کرسکے ہیں۔ مک ڈوگل لکھتا ہے:
’’انسانی فطرت سے ہماری لاعلمی نے سماجی علوم میں ترقی کی راہ روک دی ہے۔ ان علوم میں ترقی انتہائی ضروری ہے۔ ان کے بغیر ہماری سویلائزیشن کو زوال اور مکمل انہدام کا خطرہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں، مشرق ہو یا مغرب، انسانی فطرت کے اصولوں کا علم ماہرینِ نفسیات کی انتہائی سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔‘‘
یہ اقتباس ’دینِ فطرت‘ سے رجوع کی ضرورت نمایاں کرتا ہے، جو سوائے اسلام کوئی نہیں۔ عالمی انسانی تہذیب ’انسانی فطرت‘ سے ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ سوائے اسلام کہیں موجود نہیں۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ مغربی Civilizationنظریاتی، تاریخی اور واقعاتی طور پر ثابت شدہ طریقوں سے عالمی استحصال کی انتظامی صورت ہے۔ انسانوں کا یہ استحصالی انتظام عالمی انسانی تہذیب کی بربادی کا سامان ہے۔ لہٰذا عالمی انسانی تہذیب کا مقدمہ مغرب کے حق میں فیصلہ ہرگز نہیں سناتا۔ یہ عالمی قبضے اور عالمی غصب کا نظام ہے، جس میں انسان کی فلاح کا کوئی امکان نہیں، جس میں انسان کا کوئی مستقبل نہیں۔
اسلامی تہذیب اور مغربی سویلائزیشن ’عالمی تہذیب کے مقدمے‘ میں واضح فریق نظر آتے ہیں، اور دونوں کا بنیادی فرق بھی واضح ہے۔کہاں عالمی فلاح کا امکان نمایاں ہے؟ اور کون عالمی غاصب ہے؟ صاف نظر آرہا ہے۔
عالمی انسانی تہذیب، یعنی اسلامی تہذیب کا مقدمہ مستحکم ترین ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کی عالمی ترویج کے امکانات کیا ہیں؟ پیچیدگیاں کیا ہیں؟ مسابقتیں کیا ہیں؟ مبارزتیں کیا ہیں؟ جوابات کی توضیح اور ابلاغ آج کی دنیا کی اہم ترین ضرورت ہے۔