حامد الرحمن
کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے تین معصوم بچے مستقبل کے ڈاکٹر بننے کی مشق کررہے ہیں۔ پانچ سے چھے سالہ ایک بچی مریضہ بنی اپنا مدعا بیان کررہی ہے، تو تقریباً اسی عمر کا دوسرا بچہ ڈاکٹر بنا مرض کی تشخیص کررہا ہے، اور تیسرا بچہ کمپاؤڈر کی اداکاری کرتے ہوئے سرنج ہاتھ میں لیے مریضہ بنی بچی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ نوخیز اس بات سے بے پروا تھے کہ وہ جو خواب دیکھ رہے ہیں، شاید خواب ہی رہ جائیں۔ کچرے کے ڈھیر پر پڑے انجکشن زندگی نہیں موت کی نوید ہیں… ایسی خاموش موت، جس کا انجام ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسی موذی بیماریوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ منظر سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ اسپتال رتوڈیرو سے ملحق کچی آبادی کا ہے۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان بچوں کے ہاتھ یہ استعمال شدہ سرنج کیسے آئی۔
یہ غالباً چوتھی تراویح تھی جس کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ چائے کے ہوٹل پرگپ شپ کا دور چل رہا تھا کہ سندھ میں ایڈز کے پھیلائو کی صورت حال جاننے کے لیے لاڑکانہ جانا چاہیے۔ اور یوں سینئر صحافی وقار بھٹی کے ساتھ شدید گرمی کے باوجود لاڑکانہ جانے کا پروگرام طے ہوا۔
لاڑکانہ پہنچ کر ہم سیدھے تعلقہ اسپتال رتوڈیرو پہنچے جہاں محکمہ صحت کا اسکریننگ کیمپ جاری تھا۔ تعلقہ اسپتال رتوڈیرو میں مرد و خواتین کا ہجوم تھا، ان میں بچوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو اپنے والدین کے ساتھ اسکریننگ کے لیے یہاں آئے تھے۔ ان بچوں میں وہ بھی تھے جو خود چل کر آئے تھے، اور وہ بھی جنہیں ان کی مائوں نے گود میں اٹھا رکھا تھا، یعنی چند ماہ کے ننھے پھول۔ انہی میں سے چھے ماہ کی گول مٹول سی گڑیا بھی تھی جس کا نام اب مجھے یاد نہیں، اس کی والدہ رو رو کر دہائی دے رہی تھی کہ میری اس پھول جیسی بچی کا کیا قصور ہے۔ اسکریننگ کے بعد ڈاکٹروں نے اس ننھی پری میں بھی ایچ آئی وی پازیٹو کی تصدیق کی تھی۔ 18دنوں کے دوران بچوں سمیت 11ہزارافراد کی اسکریننگ کی گئی جن میں سے 445 افراد میں ایچ آئی وی پازیٹو کی تصدیق ہوئی ہے، اور ان میں سے356 بچے ہیں جن کی عمریں 2 ماہ سے لے کر 12سال تک ہیں، جبکہ 89 بڑی عمر کے مردو خواتین میں ایچ آئی وی پازیٹوکی تصدیق ہوئی ہے۔ ایڈز کے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد سامنے آنے پر سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ انتہائی ہولناک اعدادوشمار ہیں۔ بھٹو کے گڑھ لاڑکانہ میں ایڈز کی وبا کے پھیلائو کے اسباب کیا ہیں، ابھی اس سوال کا جواب سامنے آنا باقی ہے۔ لیکن رتوڈیرو میں طبی ماہرین سے جو بات چیت ہوئی اس کے مطابق لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلائو میں زیادہ تر عمل دخل اتائیوں کا ہے۔ تعلقہ اسپتال رتوڈیرو کے سربراہ ڈاکٹر رمیش لال نے بتایا کہ لاڑکانہ سمیت اندرون سندھ میں ایڈز کے پھیلائو کا سب سے اہم سبب اتائیت ہے، گلی محلوں میں موجود اتائی ایک ہی سرنج بار بار استعمال کرتے ہیں، اتائی اپنے پانچ روپے بچانے کے لیے استعمال شدہ سرنج دوسرے مریضوں کو لگا دیتے ہیں ، ان جعلی ڈاکٹروں کے کلینکس کو اگر ہیلتھ کیئر کمیشن بند بھی کردے تو صبح بند ہونے والی جعلی ڈاکٹروں کی دکانیں شام میں سیاسی اثررسوخ کے سبب دوبارہ کھل جاتی ہیں۔ ڈاکٹر رمیش لال نے بتایا کہ یہاں کے اکثر سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کے پاس طبی فضلہ تلف کرنے کے لیے انسنی ریٹرز موجود نہیں ہے اور سرنج اور ڈرپس کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی ہیں، جہاں ناسمجھ بچے ان انجکشن اور ڈرپس سے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، یا پھر یہ بیچ دی جاتی ہیں۔
سیکریٹری صحت سعید اعوان سے ہماری بات چیت ہوئی جن کاکہنا تھا کہ اتائیوں کی جانب سے سرنجوں کا بار بار استعمال ایڈز کے پھیلائو کی سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے شہریوں کو تلقین کی کہ اگر سرنج لگوانا ناگزیر ہو تو اپنے سامنے نئی سرنج لگوائیں، اور اس سرنج کو اپنے سامنے توڑ دیں تاکہ دوبارہ اس سرنج کا استعمال نہ ہوسکے۔ سعید اعوان کہتے ہیں کہ اتائیوں کو جب تک جیل نہیں بھیجیں گے ایڈز کے پھیلائو کو روکا نہیں جا سکتا، ہمیں اتائیوں کے خلاف قانون میں ترمیم کرکے بھاری جرمانے اور سزائیں تجویز کرنی ہوں گی۔
رتوڈیرو میں لگائے گئے اسکریننگ کیمپ میں روزانہ 7 سو سے ایک ہزار افراد کی اسکریننگ کی جا رہی ہے، اور اس اسکریننگ کے نتیجے میں 30، 40 اور 50 تک ایچ آئی وی پازیٹو کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ 10اور 11مئی کو 2 ہزار 304 افراد کی اسکریننگ کی گئی جس کے نتیجے میں 121ایچ آئی وی پازیٹو کے نئے کیس سامنے آئے۔
محکمہ صحت کے ذمہ داران نے عجلت میں ایڈز کا مہلک مرض پھیلانے کا ذمہ دار ڈاکٹر مظفر گھانگرو کو قرار دیا، جس نے غیر محفوظ انجکشن اور آلات استعمال کرکے لوگوں کو اس مہلک بیماری میں مبتلا کیا۔ پولیس نے ڈاکٹر مظفر گھانگرو کو گرفتار کرکے تحقیقات بھی شروع کردی ہیں، تحقیقات کے لیے ایس ایس پی ضلع لاڑکانہ کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔ پولیس نے اقدام قتل کی دفعات کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے ۔
لاڑکانہ سمیت سندھ بھر میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ لاڑکانہ میں کمیشن نے کارروائیاں کرتے ہوئے 12غیر رجسٹرڈ اور غیر معیاری بلڈ بینک بند کردیے ہیں جبکہ 90 اتائیوں کے جعلی کلینکس کو سیل کردیا ہے۔ دوسری جانب ملکی اور غیر ملکی تحقیقاتی اداروں نے ایڈز کے پھیلائو کی وجہ معلوم کرنے کے لیے رتوڈیرومیں ایپی ڈیمالوجی سروے شروع کردیا ہے، اور سندھ حکومت کی فیلڈ ایپی ڈیمالوجی اینڈ لیبارٹری ٹریننگ پروگرام کی ٹیمیں بھی ایڈز کے پھیلائو کی تحقیقات کررہی ہیں، اور اب تک 100سے زائد خاندانوں کے تفصیلی انٹرویو کیے جاچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سندھ میں کراچی اور لاڑکانہ ایڈز کے حوالے سے انتہائی حساس شہر تصور کیے جاتے ہیں۔ لاڑکانہ میں 1994-95ء میں ایڈز کے اولین مریض کا انکشاف ہوا تھا جو جیل کا ایک قیدی تھا۔ کراچی کی جیلوں میں بھی ایڈز کے مریضوں کا انکشاف ہوچکا ہے، لیکن سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی غفلت کے نتیجے میں نہ ہی ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریضوں کا ڈیٹا مرتب کیا گیا اور نہ سندھ میں ایڈز کے مریضوں کے درست اعدادوشمار موجود ہیں۔ عالمی اداروں کے انتباہ کے باوجود سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے ہائی رسک علاقوں میں اسکریننگ کا عمل شروع نہیں کیا، جس کا نتیجہ لاڑکانہ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
یو این ایڈز کے2017ء میں ہونے والے آئی بی سی سی ایس سروے کے مطابق اگر پاکستان میں ایڈز کی شرح پر قابو نہ پایا گیا تو 5سال میں جنوبی افریقا اور نائیجیریا جیسا حشر ہوگا۔ سروے میں پاکستانی حکومت کو ایڈز پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی تھی۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ کراچی اُن 200 شہروں میں شامل ہے جہاں ایڈز کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت اس رپورٹ پر بروقت توجہ دے۔