اردو میں طبی اصطلاحات کی ایک جامع انگریزی اردو لغت
ڈاکٹر معین الدین عقیل
علمی اصطلاحات کے اردو تراجم کی ایک طویل اور مفید روایت ہماری زبان میں نوآبادیاتی دور میں شروع ہوئی جو آج ڈیڑھ پونے دو سو سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ پہلے پہل ایک منظم منصوبے کے تحت دہلی کالج میں ۱۸۳۰ء کی دہائی میں تعلیمی و نصابی ضرورتوں کے ذیل میں تراجم کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا، بعد میں یہ روایت علی گڑھ کالج کی ”سائنٹفک سوسائٹی“ اور اس کے آس پاس کے ادوار میں ایک دو اداروں میں فروغ پاتی رہی۔ بعد میں بیسویں صدی میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ جب اطرافِ ہند میں کچھ نجی اور کچھ برطانوی سرکاری اہتمام سے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہونے شروع ہوئے اور اعلیٰ تعلیم کے تقاضوں کے تحت جدید مغربی علوم کے اختیار کرنے اور ان کی تدریس کا شعور عام ہوا تو اولاً متعلقہ علوم کے ماہرین کو نصابی کتابوں کے، اور ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ تر اور وسیع تر علمی و افادی کتابوں کے ترجمے کرنے کےلیے اصطلاحات کے ترجمے کرنے اور ساتھ ہی ان کے وضع کرنے پر مامور کرنا شروع کیا گیا، اور یوں تراجم اور وضع اصطلاحات کی ایک مستقل روایت ہماری علمی و تعلیمی دنیا میں شروع ہوئی۔ پھر ایک مستقل اور منظم منصوبے کے تحت جب مملکتِ آصفیہ حیدرآباد میں ”جامعہ عثمانیہ“ قائم ہوئی اور اس میں تمام علوم کی تدریس کے لیے اردو زبان کو اختیار کرنے کا ایک مستحکم اور مثبت فیصلہ کیا گیا تو نصاب کی جدید تر اور بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے لیے بڑے پیمانے پر تراجم اور ان کے لیے اصطلاحات وضع کرنے کی جانب خاصی پیش رفت ہوئی۔ اس ضمن میں معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ اہم سائنسی علوم مع انجینئری اور طب کی کتابوں کی تیاری اور ان کے لیے ضروری اصطلاحات کے وضع کرنے اور ترجمہ کرنے کا ایک مستقل عمل بڑے پیمانے پر شروع ہوا اور متعدد علوم کی نصابی اور علمی کتابیں اور ساتھ ہی مختلف علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں شائع ہوئیں۔
اس روایت میں بعض دیگر علمی اداروں اور جامعات نے بھی پیش رفت کی اور بڑی حد تک قابلِ ستائش اور قابلِ اطمینان ذخیرے عصری ضرورتوں کے مطابق سامنے آتے رہے، لیکن اس ضمن میں جامعہ عثمانیہ کی خدمات سب سے زیادہ اور وقیع و مفید رہیں۔ تقریباً سارے ہی قدیم و جدید علوم اور تواریخ کی نصابی و معاونِ نصاب کتابیں ترجمہ ہوئیں، اور بعض علوم بالخصوص سائنسی علوم کی اصطلاحات کے بھی ترجمے کیے گئے اور ان کے مجموعے بھی شائع ہوئے۔ اس خاص مقصد کے لیے جامعہ عثمانیہ کے قیام کے فوری بعد اس میں ۱۹۱۷ء میں ایک مستقل ادارہ: ”سرشتۂ تالیف و ترجمہ، جامعہ عثمانیہ“ قائم کیا گیا جو ۱۹۵۰ء تک سرگرم رہا، اور پھر سقوط ِحیدرآباد کے بعد بدلے ہوئے سیاسی حالات کے نتیجے میں بے عمل رہ کر ۱۹۵۵ء میں بند ہوگیا۔ اس عرصے میں (۱۹۴۶ء تک، یعنی ۲۹ سال کے عرصے میں) یہاں سے تقریباً پانچ سو کتابیں ترجمہ ہوکر طبع ہوئیں اور مختلف علوم کی اکیانوے ہزار سے زیادہ اصطلاحات پر مشتمل فرہنگیں شائع ہوئیں۔ ان میں طب کی اصطلاحات کا ایک بڑا منصوبہ بھی شامل تھا جس کے تحت چالیس ہزار اصطلاحات کا تخمینہ لگایا گیا تھا جس میں سے حروف: A سے D تک دس ہزار اصطلاحات کا مجموعہ ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا، لیکن افسوس کہ بقیہ اصطلاحات کی اشاعت کے بارے میں معلومات عنقا ہیں۔
علمی اصطلاحات اور بالخصوص طبی اصطلاحات کے لیےجامعہ عثمانیہ کے بعد کسی ایک ادارے سے قطع نظر، مختلف مصنفین و ماہرین نے اپنے اپنے طور پر مخلصانہ کوششیں کی ہیں، جن کی تیار کردہ اور مطبوعہ اصطلاحات کی فرہنگوں کی ایک جامع فہرست ”اردو اصطلاحات سازی“ (کتابیات)، مرتبہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری، شائع کردہ: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۴ء میں صفحات ۸۳ تا ۸۷ میں شامل ہے۔ مذکورہ اختصاصی مجموعوں کے علاوہ اصطلاحات کے ایک وقیع مجموعے ”قاموس اصطلاحات“ مرتبہ: پروفیسر شیخ منہاج الدین، شائع کردہ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، ۱۹۶۵ء میں، جو مختلف علوم کی اصطلاحات کے ترجموں پر مشتمل مجموعہ ہے، اس میں طب کی خاصی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب ہمارے ماضی کی باتیں ہیں۔ ۱۹۸۶ء کے بعد طب کی اصطلاحات کے کسی مجموعے یا کسی تخصیصی کوشش کا علم نہیں ہوتا، لیکن یہ بے حد خوش آئند ہے کہ اس عرصے میں، کہ جب کسی جانب سے طب کی اصطلاحات کے تراجم کی کسی کوشش کا علم نہیں ہوتا، ڈاکٹر سید محمد اسلم صاحب خاموش نہ رہے، انھوں نے علومِ طب میں جدید تر تحقیقات و مطالعات کی روشنی میں اور آئے دن کی ضرورتوں اور تقاضوں کے پیشِ نظر متعلقہ اصطلاحات کی ایک نئی اور معیاری اور نسبتاً زیادہ جامع فرہنگ کی تالیف و ترتیب کے بارے میں نہ صرف سوچا بلکہ نہایت جاں کاہی اور مستقل مزاجی سے اس کی تکمیل کے لیے کمربستہ بھی ہوگئے، اور اس حد تک کامیاب بھی ہوگئے کہ ایک ضخیم فرہنگ کی صورت میں ان کا وہ منصوبہ ایک وقیع اور مرعوب کن صورت میں اب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
ڈاکٹر سید محمداسلم (۱۹۳۱ء-۲۰۱۸ء) ایک عام دنیا کے لیے شاید صرف ایک سنجیدہ اور شائستہ ماہر امراض قلب ہیں، اور اس شعبے میں ایک اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں، لیکن وہ دنیائے طب سے باہر اپنی ان متعلقہ صفات سے زیادہ کمالاتِ علمی و ادبی سے متصف ہیں۔ پیدائش ٹونک (راجستھان)، بھارت میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی، جس کے بعد طب کی تعلیم کے لیے ”کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج“لاہور میں داخلہ لیا جہاں ۱۹۵۴ء میں اس کی تکمیل کی۔ پھر امراضِ قلب میں پیشہ ورانہ مہارت کے لیے برطانیہ کے معروف ادارے ”رائل کالج آف میڈیسن“ (ایڈمبرا) سے ۱۹۶۸ء میں منسلک ہوئے۔ اس مہارت و شغل کی بنیاد پر اسی ادارے نے انھیں ۱۹۸۳ء میں اپنی رکنیت (FRCP)عطاکی۔”امریکن کالج آف کارڈیالوجی“ سے بھی انھیں رکنیت(FACP) کا اعزاز حاصل ہوا۔ تعلیم مکمل کرکے برطانیہ سے واپسی کے بعد وہ کراچی کے جناح اسپتال کے ”کلیۂ امراضِ قلب“ (NICVD) سے منسلک ہوگئے تھے اور سبک دوشی (۱۹۹۱ء) تک منسلک رہے۔ اپنے ان پیشہ ورانہ اعزازات کے ساتھ ساتھ وہ ایک وسیع تر علمی دنیا کے لیے ایک ایسے ماہر ِ امراض ِقلب بھی ہیں جو صرف اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات ہی میں مگن نہ رہے بلکہ تصنیف و تالیف کے شغل سے بھی مستقلاً منسلک رہے اور اپنی دل چسپی کے موضوعات پر اردو میں ایسی تصانیف بھی پیش کرتے رہے جن کی جانب ماضی میں کسی اور مصنف نے توجہ نہ دی تھی یا اس اسلوب و سلیقے سے تو شاید ان موضوعات پرکسی نے بھی کبھی قلم نہ اٹھایاتھا۔
ڈاکٹر صاحب کو اردو زبان سے ایک مادری زبان سے بڑھ کر ایسا عشق و لگاؤ بھی تھا کہ جو کام ان کے مضامین ِ دل چسپی میں کسی اور نے نہ کیے وہ کام انھوں نے اردو میں انجام دیے اور اپنی زبان اور اسلوب کو اس حد تک قابلِ فہم رکھا کہ ہر ایک کے لیے ان کی تحریریں اور تصانیف دل چسپ اور پُراز معلومات رہتی ہیں۔ تصنیف و تالیف کے ضمن میں ان کے موضوعات کا تعلق صحت اور اس کے معاملات و مسائل سے تھا، اور بالخصوص اپنی مہارت و فضیلت کی مناسبت سے ”قلب“، اس کی ماہیت و وظائف اور اس کے امراض ان کے خاص موضوعات تھے۔ چناں چہ ان کی پہلی مبسوط تصنیف ”قلب“(۱۹۸۲ء) ہی نے انھیں علمی دنیا میں شہرت و وقعت کی بلندیوں تک پہنچادیا اور وہ سائنسی علوم کی تصنیف و تالیف کے زمرے میں ایک عزت و تکریم کے ساتھ شمار ہونے لگے۔ اخبارات میں انھوں نے مستقلاً ایک عرصے تک اپنے ان ہی موضوعات پر نہایت عام فہم زبان میں لکھا بھی اور ان تحریروں کو کتابوں کی صورت میں شائع بھی کیا۔ ”جسم و جاں“، ”احتیاط”، ”غذا“، ”تندرستی“، ”شیرازۂ دل“، ”صحت سب کے لیے“ اور ”ذیابیطس“ ان کی ممتاز تصانیف ہیں۔ شہرت طلبی اور نام و نمود ان کے مزاج سے ہمیشہ بہت دور رہے۔ اپنے ایسے سارے علمی کام انھوں نے اپنی گوشہ نشینی اور درویشی میں انجام دیے۔
ان مذکورہ تصانیف کے علاوہ تصنیف و تالیف کے شعبے میں ڈاکٹر صاحب کی ایک بہت وقیع اور مثالی کاوش ان کی مرتبہ زیر نظر فرہنگ ہےجو اُن کا آخری اور بڑی حد تک سب سے بڑا تحفہ ہے اردو زبان کے لیے۔ واقعتاً یہ اپنی نوعیت، اپنے اسلوب، اور اپنی صفات کے سبب ایک بے مثال اور لازوال کارنامہ ہے جو نہ صرف علوم و فنونِ طب کے سارے ہی متعلقہ موضوعات و عنوانات کے تراجم کا احاطہ کرتا ہے اور اشارۃً ساری ہی بنیادی معلومات ہر عنوان کے تحت فراہم کرتاہے۔ لیکن تکنیکی و فنی لحاظ سے بھی ایک نہایت معیاری لغت یا فرہنگ کی خصوصیات و اوصاف کا حامل ہے۔ اسے دیکھ کر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی سے اردو تراجم کے ضمن میں تیار و مرتب ہونے والی لغات یا فرہنگوں کو کس طرح ہونا چاہیے اور ایک نہایت معیاری اور مثالی فرہنگِ اصطلاحات کیسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی تکمیل کے لیے جہاں علم ِ طب کے ہر ہر گوشے سے نہایت عرق ریزی اور دقتِ نظر سے اصطلاحات کا نہ صرف کھوج لگایا ہے بلکہ انھیں نہایت عمدگی اور سلیقے سے اصول ِ لغت کے بلند معیارات کو پیش ِ نظر رکھ کر یکجا و ترتیب دیا ہے۔ اس طرح کے سارے اہتمام کے لیےجو محنت و کاوش ڈاکٹر صاحب نے کی ہے وہ ایک عنقا مثال سے کم نہیں۔ اس لغت کا ایک بنیادی امتیاز یہ بھی ہے کہ قبل ازیں مرتب و ترجمہ ہونے والی جیسی تیسی تمام لغات کے مقابلے میں یہ زیادہ اصطلاحات پر مشتمل ہے، اور ایسی اصطلاحات پر بھی مشتمل ہے جو خود اس علم میں نئی نئی داخل ہوئی ہیں، اور ایسی اصطلاحات بھی اس میں شامل ہیں جنھیں ماضی میں کسی نے یا تو شامل نہ کیا تھا، یا شمولیت کے قابل نہ سمجھا تھا۔
اپنے موضوعات اور اپنے مذکورہ امتیازات سے قطع نظر طبی اصطلاحات کےتراجم کی یہ انگریزی ۔اردوفرہنگ اپنی فنی خصوصیات و نوعیت کے باعث بھی ایک منفرد اور مثالی کاوش ہے جواردو زبان میں فرہنگ نویسی کے زمرے میں ایک مثالی لغت کے طور پر اس کی ثروت و سرمایے میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔اس پر اردو زبان کے چاہنے والےاور فرہنگ نویسی سے لگاؤ رکھنے والے، اور ان سے بڑھ کر علم ِ طب اوراس کی تمام متعلقہ ضرورتوں کے تحت الفاظ و اصطلاحات کی تلاش و جستجو اور ان کے اردو معانی کی تلاش و تفہیم کے لیے سرگرداں افراد ڈاکٹر سید محمد اسلم کے اس کارنامے کو رشک و احسان کی نظر سے دیکھتے اوراس سے ہمیشہ استفادہ کرتے رہیں گے، اور اس کا ثواب ڈاکٹر صاحب کی روح کوہمیشہ پہنچتارہے گا۔