ابوسعدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے وصال کے بعد تم لوگ دیکھو گے کہ لوگ اپنے کو دوسروں پر ترجیح دے رہے ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: یا رسول اللہؐ! ایسے وقت میں ہمارے لیے آپؐ کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پس تم ایسے لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا اور اپنے حق کا سوال اللہ سے کرتے رہنا۔
(صحیح بخاری)
حضرت ابوالحسن خرقانیؒ کے جواہر
حضرت ابوالحسن خرقانیؒ کا صوفیہ میں بڑا مقام ہے۔ ان کے کچھ ملفوظات درج ذیل ہیں:
٭ایسے شخص کے پاس ہرگز نہ بیٹھنا چاہیے کہ تم تو اللہ کی بات کہو، لیکن وہ کچھ اور کہنے لگے۔ یعنی جس شخص کا دل دنیا میں اٹکا ہوا ہے، ایسا شخص صحبت کے قابل نہیں۔
٭فرد جب نفس کی ایک آرزو پوری کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل میں سیکڑوں خرخشے پیدا ہوجاتے ہیں۔ (یعنی نفس کی ایک خواہش کی تکمیل سیکڑوں نئی خواہشات اور وسوسات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے شخص کو سلامتی فکر حاصل ہو، مشکل ہے)۔
٭اللہ کے سارے نام بزرگ ہیں، لیکن بندے کا بزرگ نام نیستی ہے۔ یعنی بندے کی اصلیت اظہارِ نفی و اظہارِ فنائیت ہے۔
٭جس شخص کا دن و رات اس حالت میں بسر ہوا کہ اس کا دل، ہاتھ اور زبان مومن کی ایذا رسانی سے محفوظ رہے، گویا اس نے وہ دن رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں بسر کی۔
(”اصلاح نفس کا لائحہ عمل“۔محمد موسیٰ بھٹو)
امام ابن جوزیؒ
عبدالرحمن بن علی بن محمد، ابوالفرج جمال الدین القرشی البکری الحنبلی البغدادی (510ھ۔ 597ھ) حنبلی مذہب کے مشہور فقیہ ہیں، بغداد میں پیدا ہوئے۔ اٹھتر اساتذہ سے علوم و فنون سیکھے۔ اپنے مواعظ کی بنا پر خلفا اور وزرا سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ 570ھ میں بغداد میں ایک درس کی بنا رکھی اور اسی میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ تصنیف و تالیف سے غیر معمولی شغف تھا۔ تذکروں میں ان کی تین سو کے قریب کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال کا تصوف کے بارے نقطہ نظر ان سے قریب تھا۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
ابراہیم مہدی، مامون اور تحصیلِ علم
ابراہیم بن مہدی ایک روز مامون کے دربار میں آیا۔ اُس وقت مامون کے پاس کئی عالم بیٹھے مسائل فقہ پر بات کررہے تھے۔ مامون نے ابراہیم سے کہا: ’’اے چچا! ان لوگوں کی باتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ ابراہیم نے جواب دیا: ’’اے امیرالمومنین، اب میں بوڑھا ہونے کو آیا ہوں، میرے لیے ان باتوں کا زمانہ گزر گیا‘‘۔ ماموں نے پوچھا: ’’تو اب آپ یہ علوم کیوں نہیں سیکھتے؟‘‘ وہ بولا: ’’اب اس بڑھاپے میں؟ بوڑھے توتے بھی کہیں پڑھے ہیں؟‘‘ مامون نے کہا: ’’ہاں! خدا کی قسم طلبِ علم میں موت کا آجانا اُس زندگی سے بہتر ہے جو جہل پر قانع ہو‘‘۔ ابراہیم نے دریافت کیا: ’’مجھے طلبِ علم کا سلسلہ کب تک جاری رکھنا چاہیے؟‘‘ مامون نے کہا: ’’جب تک زندگی ساتھ دے، علم حاصل کرنے کا سلسلہ گود سے لے کر قبر تک جاری رہنا چاہیے‘‘۔
ظالم کا مددگار…؟
عربی محاورہ ہے کہ جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس پر مسلط کردیتا ہے۔ عربوں نے عثمانیوں کے خلاف صلیبیوں کی مدد کی اور آج وہی ان پر مسلط ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کی مدد کی ہے اور امریکہ تیزی سے اس پر مسلط ہوتا جارہا ہے۔