ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ حرص و ہوس کی دنیا ہے، گھر گھر پر اس کا قبضہ ہے، قناعت نام کی چیز دنیا سے رخصت ہوگئی ہے۔ جو غریب ہے وہ بھی بے چینی کی آگ میں جل رہا ہے اور جو دولت مند ہے وہ بھی حرص و ہوس کی اس دوزخ کا عذاب سہہ رہا ہے۔ غریب کی غریبی بڑھتی جارہی ہے لیکن نظام ایسا ہے جو اسے اپنی ضروریات مختصر کرنے کے بجائے خواہشات کا سلسلہ دراز کرنا سکھاتا ہے۔ ہزاروں خواہشیں سانپ بن کر غریبوں کو ڈس رہی ہیں اور ہر خواہش ایسی ہے کہ ان کا دم نکلا جاتا ہے۔ جب کہ امیر طبقہ اپنے زر کے پھیلائو کی آفت میں خود ہی آگیا ہے۔ اس کے بازاروں میں مندی ہے، اس کے کارخانوں میں مشینوں کی رفتار مدھم پڑتی جارہی ہے۔ راشی افسر پہلے سے کہیں زیادہ رشوت لے رہے ہیں لیکن ان کے اندر کا شیطان ہل من مزید پکارتا ہے۔ متوسط طبقے کی حالت سب سے دردناک ہے، محدود آمدنی میں آرائش و زیبائش کے تقاضے الگ ہیں اور رسومات، رواجات کا بوجھ بھی جان لیوا ہے۔ حکومت کا جو بھی نیا سربراہ آتا ہے سادگی کی تلقین کرتا ہے، لیکن اسراف کی نئی مثال قائم کرتا ہے۔ قومی خزانہ لٹ رہا ہے، افراد کی بچتیں غارت ہورہی ہیں، قوم بھی بے رحم مہاجنوں کے پنجۂ قرض میں ہے اور شہریوں کو بھی بڑھتی ہوئی ضروریات کی بنا پر مقروض ہونا پڑرہا ہے، انہیں بینکوں سے قرضہ نہیں ملتا کہ ان کے قرض صرف امیروں کے لیے ہوتے ہیں، لیکن قسطوں پر سامان فراہم کرنے والے ادارے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ غالب نے کہا تھا کہ ان کی تنخواہ کی تباہی میں ساہوکار شریک ہوگیا ہے۔ اب بھی صورت حال یہی ہے کہ متوسط طبقے کی آمدنی کا بڑا حصہ مصنوعی اور نمائشی ضروریات پیدا کرنے والے لے جاتے ہیں۔ یہ حرص و ہوس کی دنیا اب تک کچھ سہولتوں کے ساتھ اور کچھ مشکلات کے ساتھ چل رہی تھی، آباد تھی، مگر اب قوموں اور ملکوں پر جو معاشی عذاب نازل ہوچکا ہے اس کی وجہ سے بے روزگاروں کے ہجوم پیدا ہوں گے، چھوٹے کاروبار کرنے والے ملٹی نیشنل کی یورش کے آگے دم توڑ دیں گے، مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی سے روپیہ ایک آنے کا بھی نہیں رہے گا۔ اور جب یہ صورت ہوگی تو نظام سرمایہ داری نے ہر شعبے میں حرص و ہوس کی جو بھٹی سلگا دی ہے اس آگ کو کیسے بجھایا جا سکے گا! لازماً نئی نسل اور بھی زیادہ جرائم پر مائل ہوگی، دفتروں میں رشوت کے نرخوں میں اضافہ ہوگا، تاجر جعلی اورملاوٹی مال کی تجارت کریں گے، فیشن کے تقاضوں کی تکمیل عورتوںکو عصمت فروشی کی ترغیب دے گی، ناآسودہ لوگ منشیات میں پناہ تلاش کریں گے۔ غرض حرص و ہوس کی دنیا میں معصیت عام ہوگی۔ یہ وہ کلچر ہے جس کی طرف زر پرستی کا نظام ہمیں لے جارہا ہے۔ اس کلچر کی تباہ کاریوں سے صرف وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو سادگی اور قناعت کے راستے کو اپنائیں، جھوٹی نمودو نمائش کے چکر میں نہ پڑیں، ناک اونچی رکھنے کی حماقت کا شکار نہ ہوں، فضول رسموں رواجوں کو ماننے سے انکار کردیں۔ لیکن عام آدمی اپنے ایمان کے باوجود تنکوں کی طرح ہوا کے رخ پر اڑتا رہے گا، اس کے لیے اُسے الزام بھی نہیں دیا جا سکتا، آخر وہ ایک آدمی ہی تو ہے جس کی خلقت میں کمزوری ہے۔ اس کمزور آدمی کے لیے وقت کے نظام کے ساتھ تنہا ہوکر لڑنا ممکن نہیں، البتہ سب مل جل کر نیا نظام بنانے کی کوشش کریں تو نئی دنیا پیدا ہوسکتی ہے جو حرص و ہوس کی نہ ہو، سادگی اور قناعت کی ہو، اور جو ایسی تہذیب پیدا کرے جس میں انسانوں کو نفس پروری کی تعلیم نہ دی جائے۔ اور اسلامی اقدار کو غالب کرکے اس نفسانیت کے فساد سے بچا جا سکتا ہے جو حرص و ہوس کی بنیاد پر انسانوں کے دل و دماغ پر قابض ہوجاتی ہے۔ اسلام نفس کشی کا بھی حامی نہیں۔ نفس کشی اور نفس پروری دونوں سے زیادہ مشکل یہ کام ہے کہ نفس کی خواہشات کو انسان لگام دیئے رکھے۔ آج کے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ خواہشات بے لگام ہورہی ہیں اور خواہشات کے اس جہنم کو بھڑکانے میں اخبارات، ٹی وی، فیشن شو اور کلچرل شو اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے راستے سے شیطان ہر جگہ حملہ آور ہے۔ ابتدا معصوم خواہشات سے ہوتی ہے، پھر یہ اپنا پیر پھیلانے لگتی ہیں اور انسان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں، اور معاشرے کی نوعیت ایسی ہوجاتی ہے کہ ضرورت گندم کی ہوتی ہے لیکن پیداوار کی بہتات نئے نئے ڈیزائن کے جوتوں اور رنگ برنگے کپڑوں کی ہوجاتی ہے۔ دودھ کی قلت ہوجاتی ہے اور کوکا کولا کی کثرت۔ پیاز مہنگی ہے اور چیونگم سستی۔ کھانے پکانے کے تیل کی قلت مگر خوشبودار شیمپو اور تیلوں سے دکانیں بھری پڑی ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی معیشت ہے کہ پیداوار لوگوں کی حقیقی ضروریات کے لحاظ سے نہ ہو، مصنوعی ضروریات کی بنا پر نفع خوری کے لیے ہو۔ یہ نظام مصنوعی ضروریات کی طلب و رسد میں اضافہ کرتا رہتا ہے، اس کا نتیجہ آخرکار حقیقی ضروریات کی اشیا کی قلت اور مہنگائی کی شکل میں نکلتا ہے۔ سرمایہ داروں کی یہ تہذیب حرص و ہوس سے پیدا ہوتی ہے اور حرص و ہوس کے سبب ہی قائم رہتی اور فروغ پاتی ہے۔ مگر یہ انسانوں کی زندگی سے ان کا سکون چھین لیتی ہے اور آخر میں ان کے اخلاق بھی۔ اس تہذیب سے بچنا ہے تو ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں نئی عادات اختیار کیجیے جن میں حرص و ہوس کا غلبہ نہ ہو، اور ایک نئے نظام کے لیے جدوجہد کیجیے جو نفس پرستی کو عام نہ کرے۔
(22جنوری 1999ء)