قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی مر جائے اور اُس کے ذمے روزے واجب ہوں تو اُس کا کوئی وارث (رشتے دار) اُس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ (بخاری۔ عن عائشہ رضی اللہ عنہا)
(وضاحت: وارث کو اگر معلوم ہوجائے کہ اس کے رشتے دار نے روزہ نہیں رکھا ہے تو وارث کو چاہیے کہ اس کی زندگی (بیماری) میں یا موت کے بعد روزہ رکھے یا فدیہ دے دے۔)
رمضان کے ایک روزے کا بدل:
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا، بغیر کسی رخصت (معقول عذر) کے، اور بغیر کسی مرض کے، تو اگر وہ ساری عمر کے روزے بھی رکھے تب بھی وہ اس کی قضا نہیں ہوسکتے۔
شریعت میں بعض چیزیں تو قانونی حیثیت رکھتی ہیں اور بعض اخلاقی۔ قانونی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر کوئی روزہ چھوڑا ہو تو اُس پر قضا لازم آئے گی، اور قانون کا تقاضا اتنا ہے کہ وہ قضا روزہ رکھے۔ لیکن اس کے روزہ قضا کرنے کی اخلاقی حیثیت اس حدیث کے مطابق یہ ہے کہ ایک روزہ نہیں بلکہ عمر بھر کے روزے بھی اس ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتے جو اس نے رمضان کے زمانے میں جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہو۔
(کتاب الصوم، نومبر2000ء، ص142)
عبادات کی اصل روح:
اعمال کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک تو ان کی ظاہری حیثیت ہے، یعنی وہ ظاہری شکل جس کے مطابق وہ انجام دیئے جاتے ہیں۔ اور دوسری ان کی باطنی حیثیت ہے، یعنی ان کی اصل حقیقت اور روح جو اُس سے مطلوب ہوتی ہے۔ اگر آپ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کوئی عمل انجام دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذمے جو فرض تھا وہ آپ نے ادا کردیا۔ اس کے بعد دوسری چیز ہے اس عمل کی حقیقت، تو اس کی حیثیت بالکل ایسی ہے جیسے جسم کے اندر روح ہوتی ہے۔ روح اگر آدمی کے جسم سے نکل جائے تو دیکھنے کو تو اس کا پورا جسم جوں کا توں موجود ہوتا ہے (اور بظاہر کوئی چیز اس میں سے کم نہیں ہوتی) لیکن فرق یہ واقع ہوجاتا ہے کہ پہلے وہ زندہ تھا اور اب زندہ نہیں ہے۔ جب تک وہ زندہ تھا تو آپ اسے دفن کرنے کا خیال تک نہیں کرسکتے تھے، لیکن اب وہ مُردہ ہے تو آپ اسے اپنے پاس رکھنے کے متعلق نہیں سوچ سکتے۔ یہی تعلق ہے اعمال کی اصل حقیقت اور ان کی ظاہری شکل کے درمیان۔
پس اگر ایک آدمی عمل کی وہ شکل پوری نہیں کرتا جو شریعت نے بتائی ہے تو شریعت کی نگاہ میں اس کا وہ عمل بے کار ہے، اور اگر وہ اس عمل کے اندر اس کی حقیقی روح پیدا نہیں کرتا تو اس صورت میں اس کا وہ عمل خدا کے ہاں بے وزن اور بے حقیقت ہے۔ مثلاً اگر ایک آدمی نے روزہ رکھا اور اس نے دن بھر کچھ کھایا پیا نہیں تو اس نے روزے کی ظاہری شکل کو تو پورا کردیا، لیکن اگر وہ دن بھر خدا کو بھولا رہا اور روزے کی حالت میں ہر طرح کے ناجائز افعال کرتا رہا تو اگرچہ اس کے متعلق یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اس نے روزہ ہی نہیں رکھا، یا اس کا روزہ ٹوٹ گیا کیوںکہ اس نے جھوٹ بولا تھا یا کسی پر بہتان لگایا تھا، یا کسی کا حق مارا تھا۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس نے روزے کے اصلی مقصد کو فوت کردیا۔ اس کا روزہ ویسے ہی بے جان ہے جیسے کوئی مُردہ اور بے جان وجود… اس طرح درحقیقت اس شخص نے اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں کیا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے اور خدا کی عبادت میں وقت گزارتا ہے تو اس کے متعلق یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے قیام نہیں کیا، یا عبادت نہیں کی۔ لیکن اگر اُس نے اپنے اس قیام میں صحیح معنوں میں رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا نہیں کی اور اپنی عبادت کی بنا اخلاص پر نہیں رکھی تو اُس کا یہ عبادت کرنا اور راتوں کو کھڑا ہونا محض ایک مشینی عمل ہے جس میں کوئی جان اور روح نہیں ہے۔ اس سے اُسے سوائے رت جگے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
پس شریعت کا مطالبہ یہ ہے کہ آپ کے اعمال ظاہری شکل کے اعتبار سے بھی قانون کے مطابق ہوں اور ان کے اندر حقیقی روح بھی موجود ہو… اعمال کی یہ حقیقی روح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کی محبت، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ، اس کے حضور جواب دہی کا احساس، اس کا خوف اور اس کے احکام و قوانین کی ہمہ وقت پیروی اور ان کی بجا آوری کا خیال… یہ وہ چیزیں ہیں جن سے اعمال کے اندر حقیقی روح پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوں تو ظاہری عمل کی حد تک تو قانون کی پابندی ہوجائے گی اور بظاہر آدمی اس کی خلاف ورزی سے بھی بچ جائے گا، لیکن اعمال کی حقیقی روح سے محروم رہے گا۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کے اعمال کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔
(کتاب الصوم، نومبر2000ء، ص145-143)
روزے کا کفارہ:
اگر ایک آدمی اپنی نفس پر قابو نہ رکھ سکے اور قصداً روزہ توڑ دے تو اس کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اگر وہ یہ کفارہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں دوسرا کفارہ یہ ہے کہ وہ دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے، اس طرح کہ بیچ میں چھوڑے نہیں۔ اگر وہ اس پر بھی قادر نہ ہو تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے مراد دونوں وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے، اور اس طرح کا کھانا کھلانا جیسا کہ آدمی خود کھاتا ہے۔
یہاں تک تو مسئلے کی عمومی نوعیت تھی۔ اس کے بعد ایک خاص شکل سامنے آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان چیزوں میں سے کسی پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے… [اس حوالے سے حدیث میں آتا ہے کہ] جب سائل نے کہا میں تو تینوں صورتوں میں کفارہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مالِ زکوٰۃ میں سے جو آپؐ کے پاس آیا تھا اُس شخص کی مدد فرمائی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بیت المال سے اس طرح کے لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی کسی غلطی کا مرتکب ہوجائے جس سے اس نوعیت کا شدید کفارہ لازم آجاتا ہے اور وہ یہ کفارہ ادا کرنے پر قادر بھی نہ ہو تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ اُس وقت تک انتظار کرے جب تک کہ اس کو ان تینوں چیزوں میں سے کسی ایک کی قدرت حاصل ہوجائے۔ (اور ہوسکتا ہے کہ اسی انتظار میں اس کی عمر گزر جائے) یا یہ کہ بیت المال سے اس کی مدد کی جائے، یا کچھ دوسرے نیک لوگ اس کی مدد کریں۔ معلوم ہوا کہ مالِ زکوٰۃ اس چیز پر بھی صرف کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کسی ایسے مقروض کا قرضہ بیت المال سے ادا کیا جاسکتا ہے جو خود قرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو، اسی طرح اگر کسی شخص پر اس طرح کے کفارے لازم آگئے ہوں تو ان کفاروں کے ادا کرنے کے لیے مالِ زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اگر بیت المال موجود نہ ہو تو جو لوگ زکوٰۃ نکالتے ہیں وہ مالِ زکوٰۃ سے اس کی مدد کریں تاکہ ان کا ایک مسلمان بھائی جس پیچیدگی میں پھنس گیا ہے اس سے نکل جائے۔
(کتاب الصوم، نومبر2000ء، ص 131-130)