بجٹ میں ماضی کی نسبت ایک ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کیے جائیں گے
دو کلیدی عہدوں پر آئی ایم ایف کی پسندیدہ اور قابلِ قبول شخصیات کی نامزدگی
تحریک انصاف کی حکومت وفاقی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، عین ممکن ہے کہ بجٹ مئی کے بجائے جون میں پیش کیا جائے۔ عملاً یہ اس حکومت کا پہلا باقاعدہ بجٹ ہوگا۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی براہِ راست نگرانی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں تیار کیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے لیے گورنر رضا باقر اور ایف بی آر کے چیئرمین کے لیے شبر زیدی کی تقرری اس پیکیج کا حصہ ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو جہانزیب خان کو ان کے مناصب سے عین اُس وقت فارغ کیے جانے کی خبر آئی جب وہ آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات کی سرگرمیوں میں شریک تھے۔ طارق باجوہ کے بقول وہ عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد میں موجود تھے جب انہیں مستعفی ہونے کو کہا گیا۔ وزیراعظم نے ایک روز قبل ہی اشارہ دیا تھا کہ بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں، لیکن بظاہر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ معاشی ٹیم کے اتنے اہم ارکان کو آئی ایم ایف سے عین مذاکرات کے دوران برطرف کردیا جائے گا۔ مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کہتے ہیں کہ امید ہے مارکیٹ ہمارے اقدامات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔ انتخابات سے قبل ملکی مسائل کے حل کے لیے جس طرح کے دعوے کیے جارہے تھے اور ماضی کی حکومتوں کے بارے میں جو زبان اور لہجہ تحریک انصاف کی قیادت اختیار کیے ہوئے تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملکی مسائل کا حل اُس کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد جب میدان میں اتری تو اسے اندازہ ہوا کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ آج نو دس ماہ ہونے کو ہیں، معیشت سمیت کسی بھی شعبے میں حکومت نظر نہیں آرہی۔ پی ٹی آئی کی ہر وہ سرمایہ دار شخصیت جس نے عمران خان کا ساتھ دیا اور انہیں وزیراعظم بنانے کے لیے اپنا سرمایہ لگایا، آج سود سمیت اپنا سرمایہ واپس حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود تخلیق کار ابھی تک حکومت کے ساتھ ہیں اور اسے کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ شریف خاندان ایک مسئلہ تھا، اسے بھی راستے سے ہٹایا جارہا ہے۔ یوں سمجھ لیں اس کے بعد بھی حکومت نہ سنبھلی تو ملک میں واقعی تبدیلی آجائے گی۔ اس حکومت کے نقشہ نویس آج نہیں تو کل ضرور اپنے فیصلے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ٹیکس ریونیو کو 4000 ارب سے 8000 ارب یعنی دوگنا کردیں گے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ یہ کرشمہ کیسے کریں گے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ میں آپ کو کرکے دکھائوں گا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ٹیکس کا پرانا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ پچھلے 6 ماہ میں 2000 ارب روپے کے بجائے صرف 1750ارب حاصل ہوسکے۔ پاکستان میں اس وقت 45 سے زیادہ قسم کے ٹیکس ہیں جو عوام کو دینا پڑتے ہیں۔ اس میں خیرات، زکوٰۃ اور صدقات شامل نہیں ہیں، مگر اس کے باوجود ٹیکس ملکی خزانے میں جانے کے بجائے ٹیکس اہلکاروں کی جیبوں میں جارہے ہیں۔ ٹیکس نہ دینے کی سوچ کے پس منظر میں یہ عوامی رائے بڑی مضبوط ہے کہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ ملک پر خرچ ہونے کے بجائے حکمرانوں کی جیبوں میں جارہا ہے اور اس سے ملک سے باہر ذاتی جائدادیں خریدی جارہی ہیں۔ اس طرح شہری ٹیکس چوری کے عادی ہوجاتے ہیں اور ٹیکس چوری کرکے ایک قدرتی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے چوری شدہ ٹیکس کا کچھ حصہ ٹیکس اہلکاروں کو دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کرپشن زدہ نظام میں سیاست دانوں کے بعد سب سے زیادہ فائدہ ٹیکس جمع کرنے پر مامور اہلکاروں کو ہورہا ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن، غیر ضروری اخراجات، وفاق اور صوبوں میں عدم آہنگی حکومتوں کی آمدنی میں کمی کا باعث ہیں۔ یہ سارے سوراخ بند کردیے جائیں تو بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ بجٹ میں پانچ چھے سو ارب کے ٹیکس لگانے پڑیں گے جو کہ بزنس، مڈل کلاس، شاپ کیپرز پر لگیں گے۔ جب ان پر ٹیکس لگتا ہے تو ردعمل آتا ہے۔ اس وقت بجٹ سر پر ہے۔ یہ بجٹ کیسا ہوگا؟ حکومت کی تیاری کیا ہے؟ یہ اہم ترین سوال ہیں۔ بجٹ کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ جنوری سے مارچ تک حکومت کو کسی بھی وزارت کی جانب سے بجٹ تجاویز نہیں دی گئیں۔ عموماً روایت یہی رہی ہے کہ ہر سال جنوری سے اپریل تک حکومت بجٹ سفارشات مرتب کرنا شروع کردیتی ہے اور حتمی سفارشات مئی میں تیار کرلی جاتی ہیں۔ معمولی نوک پلک سنوانے کے بعد جون میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت ابتدا میں تو دوست ممالک سے ملنے والی مالی امداد پر انحصار کرتی رہی اور یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں؟ اور نہ جانے کی صورت میں دوست ممالک سے ملنے والی امداد کے علاوہ متبادل بندوبست کیا ہے؟ یوں آٹھ ماہ ضائع کرنے کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے آئی ایم ایف کی دہلیز پر جاکھڑی ہوئی۔ وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی تذبذب کا شکار رہے۔ ایک ملاقات میں ہامی بھر لیتے اور دوسری ملاقات میں یوٹرن لے کر انکار کردیتے، نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف نے ان کے ساتھ مذاکرات ہی ختم کردیے جس کے بعد انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کی جگہ اب حفیظ شیخ آئے ہیں جنہوں نے اسد عمر کی ٹیم کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ہے، اسی لیے گورنر اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے چیئرمین تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ دونوں عہدے عملاً اب آئی ایم ایف کے سپرد کردیے گئے ہیں کہ آئی ایم ایف جو بھی پیکیج دے گا اس قرض کی واپسی کا بندوبست اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف بی آر کے چیئرمین کریں گے۔ بجٹ کے بعد متعدد ٹیکنوکریٹس بھی حکومتی عہدوں پر تعینات کیے جانے والے ہیں، ان کی فہرست تیار ہے۔ ان دو کلیدی عہدوں پر آئی ایم ایف کی پسندیدہ اور قابلِ قبول شخصیات کی نامزدگی کے بعد اب حکومت اور آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی ہوجائے گا۔ وفاقی بجٹ عالمی ساہوکار ہی تیار کرے گا اور وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں صرف پڑھ کر سنائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کی تقرری باقاعدہ اس شرط پر ہوئی ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اب حکومت نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک طے کرے گا۔ آئی ایم ایف نے روپے کی قدر کو کنٹرول نہ کرنے اور شرح سود بڑھانے کی شرائط رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف توانائی اور دوسرے شعبوں پر سبسڈیز ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، آئی ایم ایف نے یہ یقین دہانی بھی حاصل کی ہے کہ بجٹ میں ٹیکس محاصل کا ہدف5400 ارب روپے رکھا جائے گا۔ نوازشریف کی حکومت ملک میں4200 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرسکی تھی۔ حکومت نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4600 ارب روپے مقرر کرنے کا کہا ہے لیکن آئی ایم ایف ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5200 ارب سے 5400 ارب روپے کے درمیان چاہتا ہے۔ یہ شرط تسلیم کرلی گئی ہے۔ تحریک انصاف نے ماضی سے ایک ہزار ارب روپے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ میں ماضی کی نسبت ایک ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کیے جائیں گے۔ لیکن یہ اعدادو شمار ایک ہزار ارب تک محدود نہیں رہیں گے، حکومت کو گزشتہ مالی سال کے دوران ساڑھے چار سو ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے، لہٰذا مجموعی طور پر بجٹ میں 5700 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے کی سفارشات دی جائیں گی جس کے نتیجے میں1400 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جن میں سے روزانہ چھ ارب روپے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ وفاقی بجٹ میں لازمی اخراجات میں دفاعی ضروریات اور غیر ملکی سود کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بچے گا وہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگا۔ غیر ملکی قرضوں اور سود کی واپسی کے لیے ہمیں سالانہ کم و بیش2200 ارب روپے چاہئیں۔ ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا انحصار بچت اور دستیاب وسائل پر ہے، حکومت پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بارے میں حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے اعداد و شمار جاری کیے ہیںکہ جولائی2018ء سے اپریل 2019ء کے درمیان حکومت کے بجٹ قرضوں میں 17.03 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 917 ارب 13 کروڑ روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 786 ارب 67 کروڑ روپے تھے۔ اسٹیٹ بینک سے حاصل کیا گیا کُل قرض اپریل 2019ء تک 32 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور اس میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 14 کھرب 90 ارب روپے کے مقابلے میں 118.6 فیصد تک اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کا معاہدہ طے پانے کا امکان ہے جس میں ایف بی آر کو ٹیکسوں کا مقررہ ہدف حاصل کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔ حکومت کے 10 ماہ میں ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال 380 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ جولائی تا اپریل 3 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا، جبکہ 10 ماہ کا مقررہ ہدف 3380 ارب تھا۔ اپریل میں اب تک 300 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کو اگلے دو ماہ میں ایک ہزار 400 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔
ملکی معیشت کے بارے میں ماہرین کے پاس کوئی اچھی خبر نہیں ہے، ابھی حال ہی میں حکومت کی ایک اور کمزوری سامنے آئی کہ کچھ ترقیاتی منصوبے ہی بند کردیے ہیں جنہیں عالمی بینک کے تعاون سے چلانا تھا۔ عالمی بینک کو آگاہ بھی نہیں کیا گیا۔ عالمی بینک کے ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان نے ان منصوبوں کو منسوخ کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر رابطہ نہیں کیا۔ پاکستان کے اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) کی درخواست پر منصوبوں کو تیار کیا جارہا ہے جنہیں گزشتہ برس ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے منظور کیا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق مالی سال 2019ء میں رعایتی شرائط پر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کے منصوبے کی تیاری کرلی گئی ہے جس کے لیے حکومتی منظوری درکار ہے۔ آئندہ کے منصوبوں میں خیبرپختون خوا میں مقامی سطح پر آمدن کی موبلائزیشن، ہائر ایجوکیشن، سیاحت اور زراعتی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی میں انفرا اسٹرکچر کی بہتری، کاروبار کو آسان بنانے کے لیے اقدامات اور بلدیاتی حکومت کی سروسز شامل ہیں۔
بجٹ میں مرکز اور صوبے بھی اپنا حصہ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم سے مرکز کے بجائے زیادہ وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں اور غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی، سرحدوں پر اور اندرون ملک ملکی سلامتی کے لیے اخراجات مرکز کو اٹھانا پڑتے ہیں۔ بجٹ کے لیے اگرچہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتی ہے لیکن اپنی آمدنی کے ذرائع کم نہیں کرتی، اگر ایک ٹیکس میں کمی کرتی ہے تو دوسری جگہ ٹیکس لگا کر یہ کمی پوری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد 18لاکھ ہے جو مجموعی آبادی کا 1.4فیصد ہے جنہیں ٹیکس فائلر کہا جاتا ہے۔ حکومت فائلر کی تعداد یعنی Tax Base میں اضافہ کرنے کے بجائے انہی ٹیکس دہندگان کو مزید تنگ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی خزانے کو فائلر کے بجائے نان فائلر کی جانب سے اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں زیادہ وصولی ہوتی ہے۔ اسٹاک ایکس چینج نے بھی نئے مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز دی ہیں کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کوکیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ دی جائے تاکہ غیرملکی سرمایہ کاری ملک میں آئے۔ یہ سہولت دی گئی تو یہی ٹیکس کسی دوسری جگہ سے پورا کرلیا جائے گا۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ نان فائلر پر سالانہ ایک لاکھ روپے کے شیئرز کے منافع پر ود ہولڈنگ ٹیکس برقرار رکھا جائے۔ سینیٹ میں حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت جاری منصوبوں کی لاگت ابتدائی تخمینوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پنجاب اور ملک بھر میں ایسے 134 منصوبے ہیں جن کے اخراجات ابتدائی لاگت سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ نیو گوادر ائرپورٹ کی منظوری 21 جنوری 2010ء کو ہوئی، اس کا ابتدائی تخمینہ 7 ارب 67 کروڑ روپے تھا۔ 12 فروری 2015 ء کو اسے بڑھا کر 22 ارب 24 کروڑ روپے کردیا گیا۔ کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا تخمینہ 16 ارب سے ساڑھے 24 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ ایکسپریس وے خانیوال ساڑھے 28 ارب سے بڑھ کر 54 ارب روپے، لواری روڈ ٹنل اور ملحقہ سڑکوں کا منصوبہ 8 ارب سے تقریباً 27 ارب روپے، قلعہ سیف اللہ لورالائی روڈ اور ژوب مغل کوٹ کا منصوبہ 31 ارب روپے سے بڑھ کر 50 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پشاور ناردرن بائی پاس کی لاگت کا ابتدائی تخمینہ 3 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 9 ارب روپے، ڈیزل الیکٹرک ریلوے انجن 12 ارب 70 کروڑ سے تقریباً 48 ارب 890 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ لاگت بڑھنے کی وجوہات میں ابتدائی ڈیزائن میں نقائص، لاگت کا غلط تخمینہ، عمل درآمد کے مرحلے پر منصوبے کے دائرے میں تبدیلی، مالی مسائل کی وجہ سے بجٹ میں کٹوتی اور روپے کی قدر میں کمی شامل ہیں۔ اب ایک نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے مطابق کوئی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا جس کے لیے پہلے سال ہی 20 سے 25 فیصد رقم مختص نہ کی گئی ہو، تاکہ اسے 4 سے5 سال کے اندر مکمل کیا جائے۔
پاکستان میں ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ کیسے؟ورلڈ بینک کی رپورٹ
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی آمدن کی کمی پوری کرنے کے لیے اضافی ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان نئے ٹیکس عائد کیے اور اس کی شرح بڑھائے بغیر ہی معقول ٹیکس وصول کرسکتا ہے، اگر ٹیکس کی وصولی 75 فیصد تک ہوتی ہے تو پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 26 فیصد تک ہوجائے گی جو ایک متوسط آمدن والے ملک کے لیے حقیقت پسندانہ سطح ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ٹیکس حکام آمدن کی صلاحیت کا صرف 50 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ٹیکس حکام کے برعکس پاکستان کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اپنے کام کے ساتھ ایک منظم ادارہ نہیں، اور نہ ہی اس میں واضح درجہ بندی موجود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایف بی آر کی پورے ملک میں نمائندگی ہے جہاں اس کے پاس مجموعی طور پر 21 ہزار ملازمین موجود ہیں، جن میں سے دو تہائی حصہ ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے لیے، جبکہ ایک تہائی حصہ پاکستان کسٹمز کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی بینک نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کی کمی کا بھی انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کی وجہ سے ملک کی مجموعی ٹیکس آمدن پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے علیحدہ علیحدہ قواعد و ضوابط لاگو کرنے سے تنازعات جنم لیتے ہیں، بالخصوص سیلز ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے معاملات میں پیچیدگیاں آجاتی ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں تجویز پیش کی کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالی استحکام اور سرمایہ کاری کی فضا قائم کرنے کے لیے اپنی ٹیکس آمدن بڑھائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت صوبوں کو ٹیکس آمدن میں ملنے والا حصہ بہت کم ہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے جو 11-2010ء میں 0.4 فیصد تھا اور اب 18-2017ء تک بڑھ کر 1.2 فیصد ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکس کی وصولی میں ملکی مجموعی کارکردگی بڑھی ہے، جو 12-2011ء میں شرح نمو کا 9.5 فیصد تھا، تاہم 18-2017ء تک یہ 13 فیصد تک ہوگیا۔
شبر زیدی۔ ایف بی آر کے سربراہ
پاکستان کے وفاقی مالیاتی بورڈ ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی کا نام ملک سے باہر جانے پر پابندی کے شکار افراد کی فہرست میں شامل تھا، مگر گزشتہ برس کے اختتام پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایجنڈے پر لائے بغیر وزیراعظم عمران خان نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس اُس وقت وفاقی وزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی تھا اور شبر زیدی کا نام قومی احتساب بیورو کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔ اے ایف فرگوسن فرم کے اہم پارٹنر شبر زیدی کا نام کے اے ایس بی (کسب) بینک کو اسلامی بینک میں ضم کرنے کے اسکینڈل میں ملزم کے طور پر سامنے آیا تھا۔ نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ شبر زیدی بھی اُن افراد میں شامل تھے جنہوں نے ان دو بینکوں کے انضمام کے دوران غیر شفاف طریقے سے ڈیل کی۔ نیب کے مطابق بینکوں کے اس غیر شفاف انضمام کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے علاوہ کسب بینک کے اسپانسرز کو بھی خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نامزد چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے مطابق ایسی فضا بنانی ہے جو لوگوں کا اعتماد بحال کرسکے۔ شبر زیدی کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم نے بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے، یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، میں کوشش کروں گا کہ وزیراعظم کی توقعات پر پورا اتروں اور جو خرابیاں ہمارے ٹیکس کے نظام میں پیدا ہوچکی ہیں، ان کو دور کروں، اور اس کے لیے اللہ کی مدد چاہیے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے ٹیکس کے نظام پر لوگ بھروسہ نہیں کرتے، ہم کو ایک ایسی فضا بنانی ہے جو لوگوں کا اعتماد بحال کرسکے۔ میرا بنیادی کردار یہ ہوگا کہ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان اعتماد قائم ہوجائے۔