آئی ایم ایف کے درِ دولت پر حاضری کو خودکشی کے مترادف قرار دینے والے تبدیلی کے علَم بردار ہمارے وزیراعظم عمران خان نے سب کچھ ہی آئی ایم ایف کے سپرد کردیا ہے تاکہ آنے جانے کی زحمت ہی نہ اٹھانا پڑے۔ تحریک انصاف میں اپنے قریبی ساتھی اسد عمر سے وزارتِ خزانہ کا قلم دان لے کر ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سپرد کردیا گیا ہے، جنہوں نے اپنی ساری عمر عالمی بینک کی خدمت میں گزاری ہے، جب کہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو معزول کرکے اُن کی جگہ ڈاکٹر رضا باقر کو یہ اہم منصب سونپ دیا گیا ہے جو پاکستان میں نئی ذمہ داری سنبھالنے تک مصر میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف کے سربراہ تھے، اور مصر نے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 2016ء میں جب آئی ایم ایف سے تین سالہ معاہدہ کیا تھا تو ایک امریکی ڈالر کی قیمت سات مصری پونڈ تھی، اور جب ڈاکٹر رضا باقر مصر سے پاکستان منتقل ہوئے ہیں تو یہ قیمت 17 مصری پونڈ فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، یعنی ڈالر کم و بیش ڈھائی سو فیصد مہنگا ہوچکا ہے۔ اسی طرح مصر میں دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روٹی جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت ان تین برسوں میں دوگنا ہوچکی ہے، اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ ’’اخوان المسلمون‘‘ جیسی ’’انتہا پسند‘‘، ’’تخریب کار‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ مگر جمہوری اور عوام کی غالب اکثریت کی حمایت کی حامل جماعت کا قلع قمع کرنے اور اسرائیل سے ’’ہر قیمت پر امن‘‘ برقرار رکھنے کے ذمہ دار فوجی حکمرانوں کو امریکہ کی جانب سے بھرپور اقتصادی امداد فراہم کی جارہی ہے، اور خطے کے سعودی عرب جیسے مال دار ممالک کی بھاری مالی سرپرستی بھی ان فوجی آمروں کو حاصل ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر میں اساسی نوعیت کی تبدیلیوں کے بعد نئے مشیر خزانہ جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے فرمایا ہے کہ اب آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں سہولت رہے گی اور یہ جلد حتمی شکل اختیار کرلیں گے۔ جناب مشیر خزانہ کا یہ ارشاد بالکل بجا اور سو فیصد درست ہے، کیونکہ جب مذاکرات کی میز کے دونوں جانب ایک ہی ادارے (آئی ایم ایف) کے لوگ تشریف فرما ہوں تو معاملات طے پانے میں یقینا مشکل پیش نہیں آتی۔
جناب مشیر خزانہ نے مزید نوید یہ سنائی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جانے کے بعد ملکی معیشت کی صورت حال بہتر ہوجائے گی اور نئے بجٹ میں عام آدمی کی فلاح ہماری ترجیح ہوگی۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے پانے کے بعد معیشت کی صورت حال جس طرح بہتر ہوتی ہے اس کی ایک مثال سطورِ بالا میں مصر کے معاشی اعداد و شمار میں دیکھی جا سکتی ہے، اور عوام کی فلاح و بہبود کا جو تصور جناب عبدالحفیظ شیخ کے پیش نظر ہے اُس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بطور مشیر خزانہ اُن کی زیر صدارت ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں پیٹرول کی قیمت میں 9.35 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4.89 روپے، لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 6.40 روپے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 7.46 روپے فی لیٹر اضافے کی منظوری دی گئی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ ہوش ربا اضافہ اس وقت کیا گیا ہے جب کہ اطلاعات یہ ہیںکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اس اعلان کے ساتھ ہی وزارتِ پیٹرولیم کا یہ اعتراف بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنا ہے کہ حکومت پیٹرول پر 36.34 روپے، ڈیزل پر 47.17 ، مٹی کے تیل پر 19.66 اور لائٹ ڈیزل پر 14.12 روپے فی لیٹر ٹیکس اور ڈسٹری بیوشن چارجز وصول کررہی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت نے اگر پیٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مختلف مدات میں پہلے سے وصول کیے جانے والے یہ بھاری بھرکم ٹیکس مزید بڑھا دیئے گئے ہیں اور حکومت جو تیل کی تجارت میں پہلے ہی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے اُس نے قیمتیں مزید بڑھا کر اپنی لوٹ مار میں مزید اضافہ کردیا ہے، حالانکہ حکومت کا مقصد تو عوام کو سہولت فراہم کرنا بتایا جاتا ہے، اور وزیراعظم عمران خان تو پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے دعویدار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا یہ تصور کہاں پایا جاتا ہے؟
ملک کی معاشی صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی تقریروں میں بار بار یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس کی تباہی کے ذمے دار ماضی کے حکمران ہیں، جب کہ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ جنہیں وزیراعظم نے معاشی مسیحا کے طور پر منتخب کیا ہے، ماضی میں جنرل پرویزمشرف اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی معاشی ٹیم کی کپتانی کرتے رہے ہیں۔ گویا آج پاکستانی معیشت کی جس بربادی اور زبوں حالی کا رونا موجودہ حکومران رو رہے ہیں، معیشت کو اس خستہ حالی تک پہنچانے کے جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ان کے ساتھی براہِ راست ذمہ دار ہیں، اور معیشت کی باگ ڈور ایک بار پھر ان کے سپرد کرکے ہمارے حکمران گویا ان سے یہ التجا کررہے ہیں کہ ’’تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا‘‘…لیکن اس صورتِ حال کو اس پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے محترم وزیراعظم کل تک جس دوا کو ’’خودکشی‘‘ کا سبب قرار دے رہے تھے، آج نتائج سے آنکھیں بند کیے ہنسی خوشی اسی دوا کو جسم میں انڈیلے چلے جا رہے ہیں۔گویا ان کی نااہلی اور عاقبت نااندیشی کا عالم یہ ہے کہ ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
(حامد ریاض ڈوگر)