جالبی صاحب، علمی و ادبی خدمات اور امتیازات

ڈاکٹر معین الدین عقیل
علمی و ادبی دنیا کے ہمارے عہد میں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی علمی و ادبی خدمات اور امتیازات کے متعدد گوشے ہیں جن میں سے یہ امتیاز کہ کون سا گوشہ زیادہ وقیع اور زیادہ نمایاں ہے، بحث طلب ہوسکتا ہے… کہ آیا وہ دانش ور بڑے ہیں کہ جنھوں نے تنقید ِادب میں اپنے بیش قیمت خیالات و نظریات پیش کیے، اور ان کے توسط سے ادبی اقدار اور معاصرینِ ادب کی ادبی قدر و قیمت متعین ہوئی، اور ان کے منفرد اور نہایت پُرمغز ذاتی ادبی رسالے’’نیادور‘‘ نے ان کے اس عمل میں مستقلاً ایک نہایت مؤثر وسیلے کا کردار ادا کیا… یا وہ مفکر بڑے ہیں کہ جن کے طفیل پاکستانی ثقافت کی وہ بنیادیں جو اگرچہ قیام ِ پاکستان سے پہلے اور فوری بعد ہمیشہ ہی سے متعین تھیں، لیکن متعلقہ مصنفین اور دانش وروں میں، خصوصاً جن کا تعلق بائیں بازو سے رہا، بحث طلب رہیں اور ان پر حتمی اتفاق دیکھنے میں نہ آتا تھا، مگر جالبی صاحب کی اس موضوع پر نہایت وقیع تصنیف ’’پاکستانی کلچر‘‘ اس ضمن میں اس قدر مسکت ثابت ہوئی کہ اس تصنیف کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی ثقافت کی بنیادوں کے تعین میں ہونے والی بحثیں یا اختلافِ رائے قریب قریب اپنے اختتام کو پہنچا، اور اب پاکستانی ثقافت کی بنیادیں تقریباً وہی تسلیم کرلی گئی ہیں جنھیں جالبی صاحب نے اپنے قوی دلائل کے ساتھ متعین کیا تھا اور گویا یہ بحث اب اپنے اختتام کو پہنچی۔
جالبی صاحب کے ان امتیازات کے علاوہ یہ بھی ایک بحث موجود ہے کہ آیا جالبی صاحب ادبی نقاد بڑے تھے یا پاکستانی ثقافت کے مفکر، یا پھر ان سب سے قطع نظر ایک محقق اور مُدوِن بڑے تھے کہ جن کی تلاش و جستجو اور کوششوں کے سبب ’’مثنوی کدم راؤ و پدم راؤ‘‘ جیسا نایاب و نادر متن، جس کی قرأت اور زبان کی تفہیم ہی کسی کے بس کی بات نہ سمجھی گئی تھی، نہایت سلیقے و مہارت سے مدوِن و مرتب ہوکر ادبی دنیا کو میسر آیا، جس کے ساتھ تدوین میں ان کی ذیلی کاوشیں ’’دیوانِ حسن شوقی‘‘ اور ’’دیوان ِنصرتی‘‘ تھیں، اور جن سے کئی اہم ادبی خلا پُرہوئے۔ تحقیق ہی کے زمرے میں میر تقی میرؔ اور جرأتؔ پر ان کی تصانیف بھی اپنے موضوعات پر نظرانداز نہیں کی جاسکتیں، اور اپنے موضوع پر ناگزیر مآخذ کے طور پر شمار ہوتی اور استعمال میں آتی رہیں گی۔
تصنیف و تالیف کے علاوہ ڈاکٹر جالبی صاحب کا ایک وصف ان کی انتظامی صلاحیت بھی ہے جو ان کے سرکاری منصب پر مستزاد ان کی نظامت بحیثیت شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی بھی ہے، اور یہ میرا ذاتی مشاہدہ اور تاثر ہے کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے بعد بیسویں صدی کے وہ آخری شیخ الجامعہ ہیں جن کی تصنیفی و تالیفی خدمات ان کے مضمون میں عالمی سطح پر سراہی جاتی اور مطالعاتی حوالوں میں بصورت سند استعمال ہوتی اور متعلقہ مضمون کی عالمی اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں مرتب و شائع ہونے والی کتابیات میں درج ہوتی ہیں۔ بحیثیت شیخ الجامعہ ڈاکٹر صاحب اپنے پس منظر میں اگرچہ کوئی طویل تدریسی تجربہ نہ رکھتے تھے، محض کچھ عرصہ ’بہادر یارجنگ اسکول‘، حیدرآباد کالونی کراچی میں پڑھاتے اور صدر مدرسی کے منصب پر فائز رہے، پھر بھی انھوں نے جامعہ کراچی میں اپنی یک مدتی منصبی ذمے داریوں کے تحت ایسے مثبت و مؤثر اقدامات کیے کہ جامعہ کا تعلیمی و انتظامی نظم و نسق حد درجے سنبھل گیا اور بہتر بھی ہوگیا، اور طلبہ سیاست سے جامعہ کو بڑی حد تک نجات مل گئی۔ ان کے دور میں جامعہ کی عمومی تعلیمی و مطالعاتی روایات میں جہاں بہتری آئی، وہیں سب سے نمایاں جامعہ کے کتب خانے کی انتظامی اور علمی ثروت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا کہ جالبی صاحب قریباً ہر ہفتے کتب خانے کا دورہ کرنے اور انتظامات و سہولتوں کا جائزہ لینے لگے۔ اسی دور میں ایک بڑا اقدام ڈاکٹر صاحب نے یہ کیا کہ انڈیا آفس لائبریری کے نادر و نایاب ذخیرے میں سے وہ نادرات، جو یہاں محققین اور تلاش و جستجو کرنے والوں کو میسر نہ آتے تھے کہ ان کا عکس تک حاصل کرنا کسی کے لیے آسان نہ تھا، ڈاکٹر صاحب نے خاص اہتمام کے ساتھ نہایت منتخب مخطوطات کا انتخاب کرکے ان کے عکس اور ان کی مائیکرو فلمیں حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی، اور میں نے اپنی دل چسپی کے تحت دیکھا تھا کہ تقریباً ڈھائی سو مخطوطات کی مائیکرو فلمیں حاصل ہوئیں جو بعد کے ادوار کی افسوس ناک حد تک بے نیازی اور لاپروائی کے سبب قریب قریب رکھے رکھے یا مناسب حفاظت نہ کیے جانے کے سبب ضائع ہوگئیں، اور مزید ستم یہ کہ جو مائیکرو فلم پڑھنے اور ان کے عکس لینے کے لیے مشینیں موجود تھیں وہ بھی حفاظت نہ کیے جانے کے باعث ناقابلِ استعمال ہوگئیں! اب اس گوشے میں گرد اور دھول کا راج ہے، اور جو ہر ایک کے لیے قابلِ مشاہدہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بعد افسوس کہ کوئی شیخ الجامعہ جامعہ کراچی کے نصیب میں نہ آیا جس نے کتب خانے کو خاطر خواہ اہمیت دی ہو، یا کبھی بھول کر بھی اس کی حالتِ زار کو بالمشافہ جاننا اور درست کرنا چاہا ہو۔
کسی علمی و تعلیمی ادارے کی سربراہی کے اس مثالی اورشان دار تجربے کے علاوہ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کے بعد ’مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد کے صدر نشین نامزد ہوئے۔ وہاں بھی ’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا‘ کے مصداق انھوں نے ایسے ایسے بعض یادگار کام کیے کہ ان کے بعد کسی اور صدر نشین سے ایسے کام نہ ہوسکے۔ ان کاموں میں متعدد اصطلاحات کے مجموعوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے ایک واضح منصوبہ بندی کے تحت ایک جامع انگریزی اردو لغت، جو دراصل انگریزی زبان کی معروف امریکی لغت ’Merriam-Webster‘ کا ترجمہ ہے، اپنے مختصر عرصے میں مکمل کرواکر شائع کردی، جو آج وسیع تر استعمال میں ہے۔
لیکن ان تمام منفرد و مثالی صفات اور امتیازات سے قطع نظر، میرے خیال میں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ، جو اپنی نوعیت کی حد تک اپنی مثال آپ ہے، وہ ان کی اردو کی ادبی تاریخ نویسی یا ’’تاریخ ادب اردو‘‘ ہے، جو بدقسمتی سے اگرچہ چار ضخیم جلدوں میں بھی نامکمل رہ گئی، لیکن جس حد تک بھی یہ لکھی جاچکی، یہ اردو زبان و ادب کی وہ بے مثال اور واحد تاریخ ہے جو اپنے موضوعات و عنوانات کے ذیل میں مآخذ و اسناد کی تلاش و جستجو اور ان کے حصول کے اعتبار سے نہایت وقیع و معتبر ہے، جس میں متعدد ایسی معلومات اور دید و دریافت اور انکشافات کے مقامات موجود ہیں جو شاذ ہی اردو زبان و ادب کی کسی اور تاریخ میں سما سکے ہیں۔ پھر ان معلومات کے مآخذ پر اور ان کے حقائق کے تسلیم کرنے یا انھیں رد کرنے کے لیے جو دلائل جالبی صاحب نے دئیے ہیں وہ نہایت مُحکم اور مُسلّم ہیں۔ اس نہایت منفرد صفت کے ساتھ ساتھ جالبی صاحب کا اپنے متعینہ موضوعات اور مذکور… اکابر ِادب و شعرکے خیالات و افکار اور ان کی تخلیقات ونگارشات کا جو مفصل اور سیر حاصل تجزیاتی مطالعہ اس تصنیف میں ملتا ہے وہ اردو ادب کے حوالے سے ایک عنقا مثال ہے۔ اس نہایت اہم وصف کو قدرت کی طرف سے جو امتیاز عطا ہوا ہے اس کے پسِ پشت جالبی صاحب کا وہ معاشرتی شعور اور مطالعہ ہے جو ہمیں قبل ازیں ان کی تصنیف ’’پاکستانی کلچر‘‘ میں نظر آیا ہے، اور پھر عالمی ادبی و تنقیدی افکار پر ان کی گرفت سے بھی انھیں اپنے تجزیاتی رویّے میں خاصی مدد ملی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اپنے تجزیاتی مطالعے میں وہ ادب اور شاعری کے اس پس منظر اور محرکات و اسباب کو بھی زیر غور لاتے ہیں جو تخلیقِ ادب و شعر کا سبب بنتے ہیں، اور ایک تخلیق کار کو متاثر کرتے ہیں۔ اس معاشرتی تناظر کے وسیلے سے جالبی صاحب کے پیشِ نظر ہر عہد کا وہ سیاسی اور سماجی پس منظر رہا ہے جو ادب و شعر کی تخلیق کے محرکات رہے ہیں، اور ادب و شعر نے ان سے فیض بھی اٹھایا ہے اور ان سے اثر بھی قبول کیا ہے۔ یہ وصف اور یہ انفرادیت اردو زبان و ادب کی کسی بڑی سے بڑی اور معروف سے معروف تاریخ میں نظر نہیں آتی، چاہے وہ تاریخ (’’تاریخ ادب اردو‘‘) رام بابو سکسینہ نے لکھی ہو جو اپنی تصنیف کے وقت تک اردو زبان و ادب کی سب سے اہم تاریخِ ادب شمار ہوتی رہی ہے اور ایک بڑے دور کی نظم و نثر دونوں کا احاطہ کرتی ہے، جب کہ مختصر تواریخ ِادب یا علاقائی نسبتوں سے لکھی جانے والی بیسیوں تواریخ کا تو کیا مذکور، اور اسی طرح صرف نثرکے ارتقا کی متعدد تاریخوں، بمثل حامد حسن قادری کی ’’داستان تاریخ اردو‘‘ یا محمد یحییٰ تنہا کی ’’سیرالمصنفین‘‘کا بھی کیا کہنا، اور جو بڑے بڑے منصوبوں کے تحت مرتب ہونے والی علی گڑھ یونیورسٹی کی’’علی گڑھ تاریخ ادب‘‘، یا پنجاب یونیورسٹی کی ’’تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان وبھارت‘‘، لیکن یہ ہر ایک تاریخ، اگرچہ اسے متعدد مشاہیر اہلِ قلم نے مل کر لکھا لیکن اپنے مطالعات و تجزیات اور ساتھ ہی اپنی مجموعی تحقیقی تلاش و جستجو، مباحث اور انکشافات و تجزیات کے لحاظ سے جالبی صاحب کی تاریخِ ادب کے مقابل نہیں رکھی جاسکتیں۔ دیگر تمام تواریخ ِادب کی طرح جالبی صاحب نے تاریخ ادب کو نثر اور نظم کے زمروں میں علیحدہ علیحدہ تقسیم کرکے نہیں دیکھا، انھوں نے تخلیقِ ادب کو وقت اور زمانے کی قید کے تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے۔ تاریخ کا سیاسی دور… ان کی نظر میں سب سے اہم ہے جو معاشرے کو بھی متاثر کرتاہے اور اسی مناسبت سے ادب پر بھی اپنے اثرات مرتسم کرتا ہے۔ یہ معاشرہ اور وقت ہوتا ہے جس میں ادب اور شعر دونوں بیک وقت اسی کے تناظر میں اور اسی کے مطابق تخلیق ہوتے ہیں جنھیں الگ الگ رکھ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
اردو کے ادبی مؤرخین میں، جن کی تحریر کردہ تواریخِ ادب کا ایک مبسوط مطالعہ ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی ضخیم تصنیف ’’اردو ادب کی تاریخیں‘‘ میں کیا ہے اور پچاس سے زیادہ چھوٹی بڑی تاریخوں کا تذکرہ اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے، جن میں کچھ نام ان کے اس مطالعے میں شامل ہونے سے رہ بھی گئے، جن کی ایک نشاندہی راقم الحروف کے ایک مقالے ’’اردو کی ادبی تاریخیں‘‘ میں کی گئی ہے، ان میں جالبی صاحب واحد نمایاں اور منفرد مؤرخ ہیں جنھوں نے کسی صنفی تفریق، علاقے اور ادوار کی تحدیدکے تحت اپنے مطالعے کو مخصوص نہیں رکھا، بلکہ ادب کے اجتماعی اور مجموعی تخلیقی احساسات اور محرکات کو ملحوظ اور ان کے تابع رکھ کر اپنا مطالعہ کیا ہے، ممکنہ نتائج تک پہنچے ہیں اور تاریخ لکھی ہے۔ لیکن نہایت افسوس اور بدقسمتی ہے کہ وہ اپنا تاریخ نویسی کا منصوبہ مکمل نہ کرسکے اور اردو زبان و ادب کی تاریخ صرف انیسویں صدی کے اختتام تک لکھ سکے، یا یوں کہہ لیں کہ جالبی صاحب کے اپنے معیار سے، بلکہ مسلمہ عالمی معیار کے مطابق لکھی جانے والی اردو ادب کی تاریخ اپنے آغاز سے انیسویں صدی تک کا احاطہ کرتی ہے، اور اس عہد تک کی ایک کامل اور جامع تاریخ ہے جس سے اردو زبان وادب کے ارتقا کی ایک مکمل تصویر اپنی تمام متعلقہ جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اگرچہ سائنٹفک اصولوں اور معیارات کے تحت انگریزی میں بھی چند قابل توجہ مغربی تاریخیں، بمثل این میری شمیل کی بیک وقت:Classical Urdu Literature from the Begining to Iqbal اورIslamic Literatures of India یا ڈیوڈ میتھیوز، شیکل اور شاہ رخ حسین کی مشترکہ تاریخ: Urdu Literature ، لیکن کوئی ایسی تصنیف یا تاریخِ اد ب کی کاوشیں اپنے جامع اور مفصل و بھرپور مطالعے کے لحاظ سے جالبی صاحب کی تصنیف کا مقابلہ نہیں کرسکتیں کہ ایک کمزوری مغربی مصنفین کی تو یوں بھی نمایاں ہوتی ہے کہ وہ اہلِ زبان نہیں اور ان کا فہم زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں کو درست طور پر اخذ نہیں کرسکتا، اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کی تفہیم کے تعلق سے صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے خیال آتا ہے کہ کاش جالبی صاحب کو اتنی مہلت مزید مل جاتی کہ وہ اپنا یہ منصوبہ مکمل کرسکتے، جس کی ابھی دو جلدیں لکھنی باقی تھیں۔
آس پاس دیکھیے تو متعدد کوششیں، جن کی تعداد ساٹھ سے کم نہیں، تاریخ نویسی کے ضمن میں ہوتی رہی ہیں اور مزید ہوتی رہیں گی، لیکن جو معیار ہمارے مصنفین یا مؤرخین کا رہا ہے، اور جو اور جیسا شعور و احساس ہم ان میں دیکھتے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے کیا ماضی کے کسی مؤرخ کی تصنیف کا کوئی مقابلہ جالبی صاحب کی اس تصنیف سے کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن خواہش ہے کہ جالبی صاحب کی طرح کا کوئی وسیع المطالعہ بالغ نظر، صاحبِ جستجو اور روشن خیال مصنف و مؤرخ اردو زبان و ادب کو میسر آجائے جو نیک نیتی، غیر جانب داری اور کامل اہلیت کے ساتھ جالبی صاحب کے اس خواب کو ان ہی کے معیار کے مطابق پورا کرسکے۔
یہاں ایک جملۂ معترضہ، بلکہ جو میری معروضات کا اختتامی معروضہ ہے، یہ ہے کہ ہم جو بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ تعزیتی جلسے منعقد کرلیتے ہیں، اور جالبی صاحب کے لیے بھی تعزیتی تقریبات کا ایک سلسلہ سارے ملک میں دیکھنے سننے میں آرہا ہے، ان جلسوں اور تقریبات کے بعد کیا ہوگا؟ ان جلسوں میں جو جذبات بیان ہوتے ہیں، اپنائیت اور محبت و عقیدت کی جو باتیں کہی سنی جاتی ہیں، افسوس وہ سب ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ ہماری قوم میں یہ عزم و حوصلہ کیوں پیدا نہیں ہوسکا کہ ہم اپنے محسنین کی یادیں منانے کے علاوہ ایسے مثبت کام کریں یا ایسے منصوبے بنائیں کہ ہمارے مرحومین کے نامکمل کام مکمل کیے جاسکیں؟جالبی صاحب ایک بڑا کام کرتے ہوئے رخصت ہوئے، جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہے اپنے اس زیر تکمیل کام کو مکمل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ میرے علم میں ہے کہ جالبی صاحب اپنی تاریخ کی پانچویں جلد کی تصنیف میں مصروف تھے اور جیسے ہی انھوں نے اس تاریخ کی چوتھی جلد کو ناشر کے سپرد کیا تھا، وہ پانچویں جلد لکھنے میں مصروف ہوگئے تھے جس کے لیے وہ اپنی یادداشتیں یا نوٹس اس تاریخ کے لکھنے کے دوران شروع ہی سے جمع کرتے رہے تھے۔ اب وہ نوٹس یقیناً جالبی صاحب کے کاغذات میں شاید بطور ابتدائی مسودہ محفوظ ہوں گے۔کاش ان نوٹس کو ملاحظہ کیا جائے، اور اگر وہ یادداشتیں یا نوٹس کسی طرح، چاہے جس صورت میں بھی ہوں، مرتب و شائع کیے جائیں تو یقیناً ہمیشہ استفادے میں آتے رہیں گے ، جیسا کہ ہمارے بعض اکابر علم و تحقیق کی یادداشتوں کے چند مجموعے ان کے انتقال کے بعد مرتب ہوکر یا بعینہٖ عکسی طور پر شائع ہوچکے ہیں۔ پھر جالبی صاحب کے منتشر کاغذات اور ان کے نام موصولہ خطوط بھی نہایت احتیاط کے ساتھ یکجا کرنا اور انھیں مرتب کرکے شائع کرنا ایک بڑا کام اور واقعتاً جالبی صاحب کی اور ساتھ ہی علم و ادب کی ایک بڑی خدمت کے مترادف ہوگا۔ ورنہ ابھی ایک اندوہناک المیہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ کوئی پندرہ سال قبل اردو کے نہایت وقیع اور ممتاز محقق مشفق خواجہ اسی شہر میں فوت ہوئے تو ان کے نادر و نایاب مسودات، منتشر کاغذات، دستاویزات اور مشاہیر کے خطوط جو مرتب ہوکر شائع ہوجانے چاہیے تھے، ان کے ایک عزیز کی خودپسندی اور انانیت کی بھینٹ چڑھ گئے کہ کوئی اور نہیں، خود مشفق خواجہ کے نام پر قائم ادارہ اور ان کا کتب خانہ بھی ان سے محروم رہا۔ ان موصوف کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ تنہا اس ذخیرے کی دیکھ بھال کریں گے اور مرتب کرکے شائع کریں گے، لیکن محض کالموں کے ایک دو مجموعوں کی اشاعت کے سوا کچھ نہ ہوا، اور نہیں معلوم وہ نادر و نایاب اور قیمتی ذخیرہ اب کہاں اور کس حال میں ہے؟ ایسا المیہ متعدد اکابر علم و تحقیق کے ذخائر کے ساتھ ان کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ ایسے کچھ قیمتی اور نادر ذخائر کراچی یونیورسٹی کے اس کے سنہرے دور میں کتب خانے میں بھی آئے، لیکن اب ان سب ہی کی حالت ہمیشہ کی بے توجہی کے سبب ناگفتہ بہ اور نہایت افسوس ناک ہے۔ اس حوالے سے، اب ہمیں جالبی صاحب کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر خاور جمیل صاحب سے یہ امید رہے گی کہ وہ جالبی صاحب کے ذخیرۂ کتب کی حفاظت کے انتظام، بطور ’’ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ سینٹر‘‘ کے قیام اور جامعہ کراچی میں اس کے کتب خانے کی تعمیرکے نہایت قابل تعریف اقدام کی طرح، جالبی صاحب کے نامکمل کاموں کی تکمیل اور ان کے منتشر ذخیرۂ کاغذات و مسودات اور مشاہیر کے خطوط وغیرہ کی حفاظت اور انھیں بہ اعتبار امکان مرتب و شائع کرنے کا اہتمام بھی کریں گے، کہ وہ اہل بھی ہیں اور صاحبِ وسیلہ بھی ہیں۔ ان سے یہ گزارش ہے کہ جالبی صاحب کی ہرطرح کی باقیات قوم کی ایک امانت ہے جو مناسب صورت میں قوم کو واپس ملنی چاہیے۔