خوش اخلاق، نفیس طبع، بے باک، نصرت نصراللہ

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

(انشا اللہ خان انشا)
انگریزی صحافت اور پبلک ریلیشن کے شعبے میں اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ صاف ستھرے کردار کی وجہ سے ہر حلقے میں احترام کی نظر سے دیکھے جانے والے نصرت نصراللہ بھی بروز جمعہ 27 اپریل 2019ء کو 72 سال کی عمر میں اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔
جانا تو ہم سب کو ہے مگر خوش قسمت، خوش نصیب اور قابلِ رشک ہوتے ہیں نصرت نصراللہ جیسے لوگ، جن کی جدائی کے غم کی کسک انہیں بھی نمناک کردیتی ہے جو اُن کے نقطۂ نظر سے مختلف سوچ اور نظریات رکھتے ہیں۔ نصرت نصراللہ نے پانچ عشرے سے زائد عرصے تک انگریزی صحافت کی، اور برسوں تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دونوں جگہ اپنی پیشہ ورانہ قابلیت و صلاحیت کا گہرا نقش چھوڑا ہے۔ انگریزی ادب اور صحافت سے دلچسپی انہیں ورثے میں ملی۔ ان کے والد مرحوم کا تعلق ہندوستان کے صوبے مدراس سے تھا جہاں کے مزدوروں کے بارے میں بھی مشہور تھا کہ وہ انگریزی فرفر بولتے ہیں۔ ان کے والد تعلیم یافتہ گھرانے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ان کی والدہ (مرحومہ) کشمیری نژاد اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
نصرت نصراللہ کے نانا متحدہ ہندوستان کے پوسٹ ماسٹر جنرل جیسے بڑے اعلیٰ منصب پر فائز رہے تھے۔ نصرت کے ماموں عمر قریشی (مرحوم) (جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے کلاس فیلو اور ذاتی دوست تھے) اپنے وقت کے بہترین انگریزی لکھنے اور بولنے والے تھے۔ انگریزی میں کرکٹ کی کمنٹری کرنے میں تو کوئی دوسرا ان کا ہمسر تھا ہی نہیں (عمر قریشی کے بیٹے حنیف قریشی جو لندن میں مقیم ہیں، کا شمار انگریزی کے مقبول ناول نگاروں میں ہوتا ہے)۔ پبلک ریلیشن کے شعبے میں بھی عمر قریشی بڑا نام تھا، اس شعبے میں آنے والوں کے لیے اُن کی حیثیت رول ماڈل کی سی تھی۔ نصرت نصراللہ اپنے ماموں عمر قریشی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ممکن ہے صحافت میں وہ اپنے ماموں سے انسپائر ہوکر آئے ہوں، ویسے نصرت کی والدہ بھی انگریزی کی تدریس اور صحافت سے وابستہ رہیں۔ نصرت نصراللہ نے 15 جنوری 1947ء کو بھارت کے مشہور صنعتی شہر ’’پونا‘‘ میں آنکھ کھولی، جہاں ان کے والد بہ سلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آکر کراچی میں آباد ہوگیا۔ نصرت نصراللہ نے ساٹھ کے عشرے میں جامعہ کراچی سے انگریزی میں امتیازی پوزیشن میں ایم اے کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز روزنامہ ’’لیڈر‘‘ کے اسٹاف رپورٹر کے طور پر کیا تھا۔ ’’لیڈر‘‘ میں کالم لکھنا تو زمانۂ طالب علمی میں ہی شروع کردیا تھا۔ روزنامہ ’’لیڈر‘‘ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل سرگرم رہنما، گجراتی اور انگریزی کے معروف صحافی اور دانشور فخر ماتری نے نکالا تھا جنہوں نے بمبئی سے کراچی آکر سب سے پہلے گجراتی میں روزنامہ ’’ملت‘‘ نکالا اور بعدازاں روزنامہ ’’حریت‘‘ نکالا تھا۔ روزنامہ حریت کو اردو صحافت کا رجحان ساز اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے اب یہ اخبار موجود نہیں ہے۔ روزنامہ ’’لیڈر‘‘ بھی درویش منش، بے باک، جرأت مند صحافی منظرالحسن المعروف منظر بھائی (مرحوم) کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ روزنامہ ’’لیڈر‘‘ تھا تو شام کا اخبار، مگر اپنے ایڈیٹر کی ساکھ کی وجہ سے انگریزی صحافت میں آنے والے نوجوان صحافیوں کے لیے بڑی کشش رکھتا تھا، اور اس میں کیا شک ہے کہ انگریزی صحافت میں دلچسپی رکھنے والے نوآموز صحافیوں کے لیے ’’لیڈر‘‘ اخبار کی حیثیت عملی تربیت گاہ کی تھی۔ نصرت نصراللہ کی شخصیت پر ’’لیڈر‘‘ کے ایڈیٹر کا گہرا اثر تھا۔ وہ بھی ان کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ نصرت نصراللہ بھی ان کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک اسی طرح جڑے رہے جیسے بچہ اپنے حقیقی باپ سے جڑے رہنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔
نصرت نصراللہ ایک دردمند دل رکھنے والے بڑی خوبیوں کے مالک شخص تھے۔ اپنے دوستوں اور جاننے والوں کی خبر گیری رکھنا، خوشی و غمی میں شریک ہونا، کبھی کسی مشکل گھڑی میں کوئی ان کے ساتھ کھڑا رہا ہو اُسے یاد رکھنا، اس کی غیر موجودگی میں دوستوں کی محفل میں بار بار اس کا تذکرہ کرنا، اُن کی ایسی خوبی تھی جو ہمارے معاشرے میں ناپید ہوتی جارہی ہے۔ نصرت نصر اللہ روزنامہ مارننگ نیوز میں میگزین انچارج تھے۔ اس میں ایک مضمون چھپا (جو پہلی بار شائع نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے کہیں اور شائع ہوچکا تھا، تب توکسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا) تو ایک طبقے نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اخبار کی اشاعت پر عارضی پابندی لگ گئی۔ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک گیا۔ اس موقع پر جناب ادریس بختیار نے نصرت نصراللہ کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے مواد جمع کرکے دیا تھا جو نصرت نصراللہ کو عدالت میں اپنے دفاع میں کام آیا تھا۔ عدالت نے اخبار بھی بحال کردیا اور نصرت نصراللہ کو سرخرو کردیا۔ ادریس بختیار کے اس حُسنِ سلوک کو نصرت نصراللہ کبھی نہیں بھولے۔ دوستوں کی محفل میں کئی بار اس کا تذکرہ کرتے تھے، حالانکہ وہ خود دوستوں کی مشکل گھڑی میں اسی طرح کی مدد کرتے رہتے تھے۔ کوئی صحافی بے روزگار ہوجاتا تو کوشش کرکے کسی دوسرے اخبار میں اس کو لگواتے۔ خود ادریس بختیار بے روزگار ہوئے تھے تو ان کو منظر صاحب کے پاس لے کر گئے اور ’’لیڈر‘‘ میں ان کو جاب دلوائی۔
نصرت نصراللہ طبعاً بامروت مگر بے باک آدمی تھے۔ الفاظ کو چبا کر بات خود کرتے تھے اور نہ ہی انہیں ایسے لوگ پسند تھے۔ اگرچہ ان کی پسند و ناپسند کے معیار بڑے کڑے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ وصف بڑی فیاضی کے ساتھ عطا کیا تھا کہ وہ کسی کی دل آزاری خود کرتے تھے اور نہ ہی یہ پسند کرتے کہ دوستوں کی مجلس میں کوئی اس کی برائی یا غیبت کرے۔ بشری کمزوریوں سے کوئی انسان مبرا نہیں ہوتا۔ نصرت بھائی بعض اوقات زودرنج بھی ہوجاتے اور اپنے قریبی دوستوں سے ناراض ہوجاتے، مگر یہ ناراضی وقتی ہوتی تھی۔ ضیا زبیری کو اس کا خاصا تجربہ ہے۔ اُن کا زمانۂ طالب علمی سے نصرت نصراللہ کے گھر آنا جانا تھا جہاں وہ دن بھر کرکٹ کھیلتے۔ نصرت کی والدہ بھی ضیا زبیری کو بڑا عزیز رکھتی تھیں۔
نصرت خوش اخلاق، نفیس طبع، باذوق انسان تھے جو مذہب پر عملاً کاربند تھے۔ جمالیات کا ذوق بھی ان کا بڑا اعلیٰ تھا۔
قلم کی حرمت کی پاسداری کے امین، بااصول اور باکردار ایڈیٹرز کی صحبت نے ان کی صلاحیتوں کو جِلا بھی بخشی اور کردار سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ نصرت نصراللہ کو ان بلند کردار ایڈیٹرز اور اخبار نویسوں سے فیض حاصل کرنے کے وافر مواقع میسر رہے جنہوں نے قلم کی حرمت کی خاطر ذاتی مفاد کو تج دینے میں کبھی کوئی دریغ نہیں کیا۔ نصرت نصراللہ ’’لیڈر‘‘ سے روزنامہ ’’مارننگ نیوز‘‘ سے وابستہ ہوئے تو وہاں انہیں سلطان احمد (مرحوم) جیسے ایڈیٹر کی سرپرستی حاصل رہی۔ نصرت نصراللہ نے زمانۂ طالب علمی کے علاوہ کبھی سیاست کے موضوع پر نہیں لکھا، اس کے باوجود وہ ایک مقبول کالم نگار کے طور پر جانے اور مانے جاتے تھے۔ ادب، کلچر، آرٹ، سماجیات اور فلم ان کی کالم نگاری کے خصوصی موضوعات رہے۔ مارننگ نیوز کے بعد وہ پی پی ایل (پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ) کے شعبہ تعلقاتِ عامہ سے منسلک ہوگئے تھے۔ پی پی ایل سے ریٹائر ہونے کے بعد چند سال کراچی پورٹ ٹرسٹ سے بھی وابستہ رہے، البتہ کالم نگاری کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ’’ڈان‘‘ میں کالم نگاری انتقال سے کچھ عرصے قبل تک جاری رہی۔ انتقال سے ایک ہفتے قبل انہوں نے اپنی اہلیہ مرحومہ ڈاکٹر شاہدہ کی پہلی برسی کے حوالے سے روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں ایک مختصر سا دعائیہ میسج شائع کرایا اور اپنے قریبی دوستوں کو واٹس ایپ کیا۔ وہ اپنی بیگم کے انتقال کے بعد اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ دونوں میں مثالی محبت تھی۔ دل کے مریض تو وہ 1994ء سے تھے، جب ان کو شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا تو معلوم ہوا کہ ان کا دل صرف 50 فیصد کام کررہا ہے، وہ ڈاکٹر اظہر فاروقی کے زیر علاج تھے۔ ڈاکٹر اظہر فاروقی کی خصوصی توجہ کی بدولت دل کے شدید عارضے کے باوجود صحت مند آدمی کی طرح نارمل زندگی گزار رہے تھے۔ بیگم کے انتقال کے بعد سے اُن کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تھی۔ کم ہی گھر سے باہر نکلتے تھے، البتہ اپنے جگری دوست ضیا زبیری سے رابطے میں رہتے تھے۔ ضیا زبیری نے ہی دوستوں کو ان کے انتقال کی خبر دی۔ اللہ ضیا زبیری کو صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے، وہ دوستوں کو ایک دوسرے کی خوشی و غمی کی بروقت اطلاع کردیتے ہیں اور کوئی مشترکہ دوست باہر سے آئے تو مل بیٹھنے کا اہتمام بھی کھانے کی میز پر کرلیتے ہیں۔
نصرت نصراللہ کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا، ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی۔ ان میں ہر طبقۂ فکر اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ان کے قریبی دوستوں کی فہرست بھی اتنی طویل ہے کہ یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس ناچیز کا تعارف ساٹھ کے عشرے میں برادر محترم ہمایوں عزیز نے کرایا تھا۔ ہمایوں عزیز کے بارے میں ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ میرا ایسا دوست ہے جو مجھے ملے یا نہ ملے مگر وہ ہر وقت میرے دل کے قریب رہتا ہے۔ ہمایوں عزیز ان کے یونیورسٹی کے دوستوں میں سے تھے، ان سے ان کی محلہ داری بھی تھی۔ میرا ان سے جب تعارف ہوا اُس وقت وہ جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے منتخب اسپیکر تھے۔
وہ دبنگ قسم کے اسپیکر مشہور تھے۔ طلبہ یونین کسی تنظیم کی بھی ہو، اسپیکر منتخب ہونے کے بعد جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر قواعد و ضوابط کے مطابق طلبہ یونین کی کونسل کو چلاتا تھا۔ طلبہ یونین پر پابندی لگاکر جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے بڑا ظلم کیا۔ تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی اور تشدد کی حوصلہ شکنی تو ضروری تھی، مگر طلبہ یونینز پر پابندی لگا کر وہ نرسری ختم کردی گئی جہاں مستقبل کی قیادت نشوونما پاتی تھی۔ نصرت نصراللہ کبھی باقاعدہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تو نہیں رہے مگر طلبہ سیاست میں وہ جمعیت کے ہم رکاب رہے۔ اسپیکر شپ کا انتخاب بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل سے جیتا تھا۔ انہیں جمعیت کے قریب لانے میں ہمایوں عزیز کی کاوشوں کا دخل تھا۔ ہمایوں عزیز اُس زمانے میں گرومندر کے قریب رہتے تھے، جب کہ نصرت نصراللہ گرومندر کے قریب خداداد کالونی سے متصل معاشی طور پر آسودہ حال، پڑھے لکھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بستی شکارپور کالونی میں رہتے تھے۔ اسی گلی میں حکیم محمد سعید (شہید) کی رہائش بھی تھی۔ نصرت نصراللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے، البتہ ان سے دو سال چھوٹی بہن شائستہ اور پندرہ سال چھوٹے بھائی رشاد نصراللہ جو معروف بینکر ہیں، ان کے بہنوئی عامر علی شریف پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ ائر وائس مارشل ہیں، وہ ڈی جی سول ایوی ایشن بھی رہے۔ اللہ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔