پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر اور سابق کپتان یونس خان کا کہنا ہے کہ ’’اگر مجھے میری موجودہ بیوی نے دوسری شادی کرنے کی اجازت دی تو میں دوسری شادی سے پہلے تھیلیسیمیا معلوم کرنے کا ٹیسٹ ضرور کروائوں گا ۔ گزشتہ دس سال سے تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کی تکالیف دیکھ رہا ہوں، اکثر ان کا درد محسوس کرکے راتوں کو نیند نہیں آتی‘‘۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں انٹرنیشنل تھیلیسیمیا ڈے 2019ء کے حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس کا انعقاد عمیر ثنا فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ اس موقع پر ملک کے مایہ ناز بون میرو ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر ڈاکٹر طاہر شمسی، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد، معروف دینی اسکالر حاجی حنیف طیب، ارسلان فاؤنڈیشن کے سیکریٹری جنرل اور نامور ماہر امراضِ خون ڈاکٹر ثاقب انصاری کے علاوہ دیگر افراد موجود تھے۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے کہا کہ تھیلیسیمیا کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، جس طرح پولیو کے خاتمے کی جدوجہد شروع کی گئی ہے اسی طرح تھیلیسیمیا کے خاتمے کے لیے بھی سرکاری سطح پر مہم شروع کی جائے۔ ملک میں 8 فیصد آبادی تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہے۔ پاکستان میں سالانہ 27 لاکھ خون کی تھیلیوں کی ضرورت پڑتی ہے جس میں 60 فیصد تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کو درکار ہوتی ہیں۔15ارب روپے سالانہ تھیلیسیمیاکا شکار بچوں کے علاج معالجے پر خرچ ہوتے ہیں۔ انسدادِ تھیلیسیمیا کا قانون بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، تھیلیسیمیا بل پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال چھ ہزار بچے تھیلیسیمیا کا مرض لے کر پیدا ہورہے ہیں۔ عمیر ثناء فاؤنڈیشن گزشتہ 15سال سے تھیلیسیمیا کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھا کہ تھیلیسیمیا کا ملک میں تیزی سے پھیلنا تشویش ناک ہے۔ اس مرض کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شادی سے قبل تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن پندرہ سال سے تھیلیسیمیا کے مرض سے آگاہی اور اس کے خاتمے کی کوشش کررہی ہے، ہم نے معاشرے میں بڑے پیمانے پر تھیلیسیمیا آگاہی مہم چلاکر اس بات کی کوشش کی ہے کہ آنے والی نسل کو اس مرض سے محفوظ بنایا جائے۔ ہم پاکستان کو تھیلیسیمیا سے پاک کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں اور معاشرے کے تمام طبقات اس مرض کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو تھیلیسیمیا سے محفوظ بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں تھیلیسیمیا کے انسداد کے حوالے سے بل منظور ہوا، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ برسوں گزرنے کے باوجود اس بل پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔
روزہ انسانی قوتِ مدافعت کو توانا کرتا ہے
روزہ انسانی قوتِ مدافعت کے نظام کو بہت حد تک توانا کرتا ہے۔ روزہ رکھنے سے وزن میں کمی اور فشارِ خون (بلڈ پریشر) بھی معمول پر رہتا ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریض معالج کے مشورے سے روزہ رکھیں، کیونکہ اس مرض میں روزہ رکھنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض دوپہر میں شدید تھکادینے والے کاموں سے گریز کریں، جبکہ روزہ داروں کو تلی ہوئی اشیا سے مکمل پرہیزکرنا چاہیے۔ یہ بات جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے پوائزن کنٹرول کے قومی مرکز کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جمال آرا نے گزشتہ جمعہ کو ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) جامعہ کراچی کے سیمینار روم میں انتالیسویں عوامی آگاہی پروگرام کے تحت ’’رمضان اور صحت کے مسائل‘‘ کے موضوع پر اپنے خطاب کے دوران کہی۔ لیکچر کا انعقاد ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ ورچوئل ایجوکیشنل پروگرام برائے پاکستان کے باہمی تعاون سے ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر جمال آرا نے کہا کہ روزے کے جہاں فوائد ہیں وہیں پر ذیابیطس، گردے اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد کو اپنے معالج کے مشورے کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بیمار افراد کو تقریباً تین مہینے پہلے اپنے معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر جمال آرا کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی مرض کی مینجمنٹ کے حوالے سے آگاہی دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قرآنی تعلیم کے مطابق بھی بیمار و لاغر افراد، مسافروں، حاملہ خواتین اور خواتین کو اُن کے مخصوص ایّام میں روزہ رکھنا نہیں چاہیے۔ روزہ داروں کے لیے تلی ہوئی روغنی اشیا بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہیں جن سے گریز لازمی ہے۔ تاہم روزہ وزن گھٹانے، برداشت پیدا کرنے اور زندگی میں نظم وضبط کے لیے نہایت بہترین نسخہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں غذائی نظم وضبط بقیہ مہینے اپناکر غذائی عادات و اطوار میں مثبت تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تاہم انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ ذیابیطس کے مریض اگر روزے رکھ رہے ہیں تو اپنے معالج سے ضرور رابطہ کریں، اور شوگر لیول پر خاص نظر رکھیں، جبکہ ادویہ کے استعمال میں بھی احتیاط کریں۔
زرافہ کو معدومی کا شکار جانور قرار دینے پر غور
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ میں زرافہ کی بڑھتی نسل کُشی کے پیش نظر اسے معدوم ہوتی نسل کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کیا جارہا ہے، اور عین ممکن ہے کہ جلد زرافہ کو اس فہرست میں شامل کرلیا جائے۔ افریقا میں پائے جانے والے لمبی گردن کے حامل معصوم اور بے ضرر جانور زرافہ کی کھال اور گوشت کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے بے دردی سے شکار کیا جارہا ہے جس کی روک تھام کے لیے حفاظتی اقدامات میں بھی خاصے جھول ہیں۔ امریکہ فوری طور پر اپنے ملک میں زرافہ کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر بھی غور کررہا ہے۔ امریکی ادارے فش اینڈ وائلڈ لائف سروس کا زرافہ کو معدوم جانوروں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ اب آخری مرحلے میں ہے۔ چند برسوں سے زرافہ کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور 1980ء سے اب تک 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ فطرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والا ادارہ آئی یو سی این پہلے ہی زرافہ کو معدومی کے شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کرچکا ہے۔ واضح رہے کہ زرافہ زمین پر رہنے والے جانوروں میں سب سے لمبا جانور ہے۔ نر زرافہ کی لمبائی پانچ میٹر، جب کہ مادہ اس سے تھوڑی چھوٹی ہوتی ہے۔ زرافے کا وزن ایک ہزار پونڈ اور ان کی مدتِ حیات 20 سے 30 سال تک ہوتی ہے ۔ دنیا بھر میں اب یہ جانور محض 90 ہزار کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔