معروف برطانوی جریدے اینڈی پینڈنٹ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ 2010ء کی نسبت 2018ء تک نوجوانوں اور نابالغوں میں خودکشی کے واقعات میں 67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سماجی اور سماجی سائٹس کے برطانوی ماہرین نے نابالغوں کی اموات کا براہ راست ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے کہ اس میں طلبا و طالبات اور نوجوان اپنی یاسیت اور گھریلو ڈپریشن کے سبب خود کو ناکام عاشق اور انتہائی غمزدہ محسوس کرتے ہیں اور سوشل سائٹس پر پیغامات اور تصاویر سمیت دیگر عناصر کے سبب خودکشی کرلیتے ہیں۔ کئی سماجی ماہرین نے بتایا ہے کہ خود کو دوسروں کی نسبت اچھا اور خوب صورت دکھائی دینے میں ناکام بچے یاسیت اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر منفی تبصروں نے بھی نوجوانوں اور بچوں میںخودکشی کے رجحانات پیدا کرنے میں مدد دی ہے۔
ڈیلی میل آن لائن کے مطابق برطانوی ہیلتھ سروس نے تصدیق کی ہے کہ سوشل سائٹس پر خود کو نقصان یا جسمانی زخم پہنچانے والی پوسٹوں کے زیر اثر زخمی ہونے والی لڑکیوں کی تعداد مسلسل تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا اندزہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2009ء میں خود کو جسمانی نقصان پہنچانے یا خودکشی کی کوشش کرنے والی لڑکیوں کی تعداد 7,327 تھی۔ سال 2017ء می یہ تعداد 13,463 رہی، جبکہ اگلے سال خودکشی کی کوشش میں زخمی ہونے والی لڑکیوں کی تعداد 14,876 سے بڑھ گئی ہے۔ ادھر آسٹریلیا سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ محض دو ہفتے کے مختصر دورانیے میں پانچ لڑکیوں نے خودکشی کی ہے اور اپنی خودکشیوں کا سبب سوشل سائٹس پر مخالف بچوں کے کمنٹس کو قرار دیا ہے۔ اس نئی افتاد کے بارے میں آسٹریلوی حکومت نے ماہرین کے ایک پینل کی مدد طلب کی ہے اور کہا ہے کہ سوشل سائٹس کے خود حس رجحانات کو کم کرنے کے لیے فوری تجاویز دیں۔ آسٹریلوی شہر پرتھ سے تعلق رکھنے والی اور موت کو گلے لگانے والی پانچویں لڑکی روشیل نے فیس بک پر مخالف بچوں کے کمنٹس سے پریشان ہوکر خودکشی کی۔ اپنی اس حوالہ سے تحریر میں روشیل نے لکھا کہ اگر میں اس دنیا سے چلی جائوں تو یقینی اچھا ہوگا۔ آسٹریلوی حکومت نے بچوں میں سماجی رابطوں کی سائٹس کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں کے واقعات کی روک تھام کے لیے ویب سائٹ لانچ کی ہے اور اس حوالے سے اساتذہ اور والدین کو بچوں کے رویوں پر نظریں رکھنے کے لیے کہا ہے۔
برطانوی ادارے آفس آف نیشنل اسٹیلکس نے تصدیق کی ہے کہ 2018ء میں 192 کمسن نوجوانوں اور طلبا و طالبات نے خودکشی کرکے اپنی جانیں لے لی ہیں۔ جبکہ 2010ء میں یہی تعداد 110 تھی۔ ماہرین نے نابالغوں میں خودکشیوں کے حوالے سے سوشل سائٹس کے کردار کو اہم ترین قرار دیا ہے۔ سوشل سائٹس اور خودکشی کے باہمی تال میل کے تازہ منظرنامہ پر لیبر پارٹی کی شیڈو منسٹر باربراکیلی نے ایسے واقعات اور بچوں کی ہلاکت کو قومی اسکینڈل قرار دیا ہے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صرف لندن میں گزشتہ پانچ برسوں میں نوجوانوں میں خودکشی کا تناسب 107 فیصد بڑھ چکا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے یونیسیف نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ آئر لینڈ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سوشل سائٹس سے منسلک اموات والا ملک بن چکا ہے، جس سے گھبرا کر آئرش حکومت نے متعدد کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں جن میں نوجوانوں کو خودکشی سے بچانے کے لیے ان کی کائونسلنگ کی خاطر متعدد سافٹ ویئر اور ایپلی کیشنز تیار کروائی ہیں۔ ان کو ہنگامی طور پر بنوایا گیا ہے، تاکہ بچوں میں خودکشی کے جذبات کو ابھرنے سے روکا جاسکے ور ان کو بتایا جاسکے کہ وہ اکیلے نہیں، پورا معاشرہ ان کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔
یہ رپورٹ اس اعتبار سے بڑی المناک ہے کہ مادی تہذیب اور اس کی میڈیا نے انسانیت کو کس قابل رحم مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ چھوٹی بچیاں تک تلملا اٹھی ہیں اور زندگی سے آخری حد تک بیزاری کی راہ پر گامزن ہیں اس اعتبار سے اس وقت انسانیت بہت زیادہ رحم، توجہ اور ہمدردی کی مستحق ہے اور اس قابل ہے کہ اسے اسلام کے روحانی نظام سے آشنا کیا جائے، مسلمان اگر اس وقت انسانیت کے کام نہیں آئیں گے تو کب کام آئیں گے، لیکن مسلمانوں کا یہ المیہ خود کوئی کم المیہ نہیں ہے کہ بہترین تہذیب کا حامل ہونے کے باوجود وہ مغربی تہذیب کے سحر میں مبتلا ہیں اس سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں۔
(بحوالہ: محمد موسیٰ بھٹو۔ سلیقہ انسانیت کا بحران اور بچائو کی تدابیر)
اے خدا میری فریاد سن لے
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد!
یہ مشت خاک، یہ صرصر، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذت ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہو اے چمن میں خیمہ گل!
یہی ہے فصل بہاری؟ یہی ہے باد مراد؟
قصور وار، غریب الدیار ہوں، لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد!
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ، وہ تیرا جہان بے بنیاد!
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد!
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد!
-1 اے خدا میری فریاد اثر کرے یا نہ کرے، لیکن اسے سن تو لے۔ واضح رہے کہ میں داد کا طلبگار نہیں بلکہ ایسے جھنجھٹوں سے بالکل آزاد ہوں۔
-2ایک طرف خاک کی مٹھی یعنی انسان ہے۔ پھر اس کے لیے دنیا میں بلائوں اور مصیبتوں کے جھکڑ ہیں۔ آسمانوں کی پوری وسعت میں یہی جھکڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ میں کیا عرض کروں کہ تیرے شوق تخلیق کا یہ کرشمہ لطف و عنایت ہے یا قہر و غضب؟
-3بے شک بہار نے پھول پیدا کئے، لیکن باغ کی ہوا میں پھولوں کا خیمہ قائم نہ رہ سکا۔ چند ہی روز میں کلیاں پھوٹیں کھلیں اور مرجھا گئیں۔ اب تو ہی فرما کہ اسے فصل بہار کہیں یا اسے باد مراد سمجھیں؟
-4میں بے شک قصور وار پردیسی ہوں، جسے کہیں سے اٹھا کر یہاں بھیج دیا گیا، لیکن یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ دنیا کا ویرانہ تیرے فرشتے آباد نہ کرسکے۔ اسے میں نے ہی آباد کیا اور گل و گلزار بنایا۔
-5 یہ دنیا جو آنی و فانی ہے اور اسے پائیداری نصیب نہیں، میرے وجود سے پہلے ایک چٹیل میدان تھی۔ میری ہی محنت و جاں فشانی سے اس میں رونق اور چہل پہل پیدا ہوئی اور اسی لیے یہ مجھے دعائیں دے رہی ہے۔
-6میری طبیعت کو شروع سے خطرے پسند ہیں۔ میں بلائوں اور مصیبتوں میں خوش ہوتا ہوں۔ مجھے وہ باغ ہرگز پسند نہیں، جہاں کوئی شکاری گھات لگائے نہ بیٹھا ہو یعنی میں نے ہر قسم کے خطرات قبول کیے اور اس دنیا کی رونق کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
-7 عشق و عاشقی تیرے قدسیوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ انہیں کا کام ہے، جن کے حوصلے بلند اور ہمتیں ارجمند ہوں۔
اس نظم میں انسان کی سرگزشت محنت و مشقت بیان کرکے اس کی اشرفیت ثابت کی گئی ہے۔