ایک ماہ کے دوران کراچی کی دو جامعات کے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ اقراء یونیورسٹی کے ایک استاد پر طلبہ و طالبات کو اخلاق باختہ اور فحش تصاویر پر مبنی اسائنمنٹس دینے کا معاملہ ہے، تو دوسرا واقعہ کراچی یونیورسٹی کے دو اساتذہ پر طالبات کو مبینہ جنسی ہراساں کرنے کا اسکینڈل۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جامعات میں پاکستان تحریک انصاف سے منسلک لوگوں کے نام کسی نہ کسی طرح جڑ رہے ہیں۔ اقراء یونیورسٹی کا معاملہ تو بالکل واضح ہے، کیونکہ اقراء یونیورسٹی پی ٹی آئی رہنما جنید لاکھانی کی ہے، جن کے خلاف معاملہ سندھ ہائی کورٹ جا چکا، اور یونیورسٹی انتظامیہ سے لے کر مذکورہ ٹیچر تک سب عدالت میں لائن حاضر ہونے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں اسکینڈل کے لیے متحرک تہماس علی خان اپنا تعارف پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر کروا رہا ہے، سوشل میڈیا اور خود تہماس علی خان کی فیس بک پروفائل سے اس کا پی ٹی آئی سے تعلق بہت واضح ہورہا ہے۔اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی اسکینڈل میں پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی ارسلان تاج گھمن غیر معمولی طور پر فعال ہے، جو میڈیا نمائندوں سے لے کر سوشل میڈیا گروپ تک جامعہ کراچی کے خلاف خبریں ذاتی دلچسپی کے ساتھ نہ صرف شیئر کررہا ہے بلکہ میڈیا نمائندوں کو فرمائشی پروگرامات پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے۔کراچی میں ہیڈ آفس رکھنے والا ایک قومی ٹی وی چینل جامعہ کراچی کے خلاف بھرپور مہم چلا رہا ہے، جسے کچھ ہی عرصہ قبل جعلی اور جھوٹی خبریں چلانے پر باقاعدہ معافی مانگنا پڑی اور جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مذکورہ ٹی وی چینل کے اعلیٰ حکام کے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین سے روابط کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔
سوچنے کی بات تو ہے کہ مارننگ کی طالبات کے ساتھ ایوننگ کے پی ٹی آئی کارکن کا کھڑا ہونا اور مہم چلانا، پی ٹی آئی ایم پی اے کا غیر معمولی دلچسپی دکھانا اور کچھ ہی عرصے قبل اقراء یونیورسٹی کا معاملہ سامنے آنا… آخر ماجرا کیا ہوسکتا ہے…!جامعہ کے اندرونی مفاد پرست عناصر، سیاسی کارکن سے رہنما تک کی غیر معمولی سرگرمیاں، اور مفاد پرست مخصوص میڈیا ٹولے کی پیمرا قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رپورٹنگ… کہیں سرکاری جامعات کو بدنام کرکے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے کاروبار کو دن دونی رات چوگنی ترقی اور منافع بخش کاروبار فراہم کرنے کا مذموم ایجنڈا تو نہیں…؟
بلال احمد
میڈیا کے نائیوں کے ہاتھوں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان کا قتل
ڈاکٹر اجمل خان طبعی موت نہیں مرے بلکہ ان کے قتل میں گھٹیا ذہنیت، ریٹنگ کے خبط میں مبتلا اور کچی آبادیوں سے پڑھ لکھ کر ڈیفنس کلفٹن وغیرہ میں شفٹ ہونے والے بڑے عہدوں کے وہ چھوٹے لوگ ہیں جو کچھ میرٹ اور زیادہ چاپلوسی و لابی کے نتیجے میں اہم ابلاغی گھروں پہ قابض ہیں اور ہمارے آپ کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔
لاپتا افراد سمیت حقیقی مسائل پہ منہ میں گوند رکھنے والے میڈیا کو استاد ہی ملے ہیں کہ ان کی عزتیں اچھالی جائیں، اس سے بڑھ کر پستی کیا ہوگی؟
گزشتہ برس جب ایک چینل کے باشرع ڈائریکٹر نے جامعہ کراچی کے ایک استاد کے خلاف جنسی ہراسگی کا جھوٹا واقعہ نشر کیا اور بھرپور مہم چلائی۔ {یاد رہے پھر اس چینل کو پیمرا نے نوٹس دیا، جرمانہ ہوا، انہوں نے عدالت سے معافی مانگی اور بیورو چیف قربانی کی بکری بنی۔
تب کچھ دوستوں کے ساتھ مرحوم ڈاکٹر اجمل سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر اجمل دیانت دار، قابل اور سنجیدہ مزاج وائس چانسلر اور سائنس دان تھے، لیکن میڈیا کے رویّے سے خاصے شاکی تھے۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ کیسی غلیظ مہم ہمارے میڈیا گھر چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس حوالے سے وہ بے انتہا دبائو میں تھے۔ میڈیا کی جارحانہ مہم نے اُن جیسے حقیقی نفیس آدمی کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا تھا۔
یہی کچھ حالیہ دنوں میں بعض ابلاغی گھروں کے ایجنڈے اور ذاتی مفادات کو لے کر چلنے والے صحافیوں نے جامعہ کراچی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اسامہ کے ساتھ کیا۔ مخصوص نظریاتی پس منظر اور جامعہ کراچی سے ذاتی پرخاش رکھنے والے صحافی اس میں ملوث ہوئے اور اس معاملے کو گھٹیا انداز سے اچھالا۔ ڈاکٹر اسامہ کو ملوث کرنے اور جامعہ کراچی کے خلاف ایک بار پھر غلیظ لوگوں کی مہم نے ڈاکٹر اجمل کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ساری زندگی درس و تدریس سے جڑے رہنے والے استاد کو ہم سب نے مل کر مار دیا، قتل کردیا، اور اب ان کی لاش نوچنے گدھ آیا چاہتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک چینل کے باشرع اعلیٰ ترین دو افسروں سے سوال ہے کہ جب گزشتہ سال ایک سیاست دان نے اپنی دوسری اہلیہ کو بے دردی سے قتل کرکے خودکشی کی تو آپ کے چینل نے اس خبر کا بلیک آئوٹ کیوں کیا؟
جواب میں دے دیتا ہوں، کیونکہ وہ خاتون اس چینل کے ایک اور اعلیٰ افسر کی والدہ تھیں، تو ان کی ’’عزت‘‘ کے پیش نظر اس حوالے سے خبریں چلیں نہ پیکیج، فالو اپ ہوئے نہ پروگرام۔ مختلف چینلز میں بیٹھے پست ذہنیت کے اعلیٰ افسران کی خدمت میں بس اتنی سی عرض ہے کہ عزت صرف آپ لوگوں کی نہیں ہوتی، بلکہ ڈاکٹر اجمل مرحوم اور ڈاکٹر اسامہ کی بھی ہے، بلکہ آپ سے لاکھ درجے زیادہ ہے۔ پیمانہ ایک رکھیں ورنہ لوگ چوراہوں میں روک کر آپ کی ہماری عزت اتاریں گے۔
فیض اللہ خان