عمران خان کی ’’لاپتا‘‘ حکومت

سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کی سول حکومت کو کچھ کرنا ہی نہیں ہے تو کسی جمہوری تجربے، انتخابات کے نظام اور حکومت کے قیام کی ضرورت ہی کیا ہے؟

اب تک تو مسئلہ صرف ’’لاپتا افراد‘‘ کا تھا، مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی ’’لاپتا‘‘ ہوگئی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور کی تازہ ترین پریس کانفرنس ہے۔
انہوں نے اپنی نیوز کانفرنس میں منظور پشتین اور ان کی پی ٹی ایم پر بات کی، بلکہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ملک کے دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں لایا جائے گا اور مدارس کا نصاب بدلا جائے گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے عسکری پہلوئوں پر بھی گفتگو کی اور فرمایا کہ East اور West کی Conectivity اہم ہے۔ اس سے مبصرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی مفادات وجود میں آجائیں تو دونوں ملکوں کے مابین جنگ کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ تمام موضوعات ایسے ہیں جن پر ملک کے منتخب وزیراعظم اور منتخب حکومت کو قوم، ملک اور ریاست کا مؤقف یا بیانیہ پیش کرنا چاہیے، مگر اس حوالے سے عمران خان اور اُن کی حکومت کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ یہی عمران خان اور اُن کی حکومت کے لاپتا ہونے کا عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کی سول حکومت کو کچھ کرنا ہی نہیں ہے تو کسی جمہوری تجربے، انتخابات کے نظام اور حکومت کے قیام کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن مشکل تو یہ بھی ہے کہ جرنیلوں نے بار بار اقتدار پر قبضہ کیا ہے مگر تمام فوجی حکومتیں بھی بُری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، مگر جب وہ ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک میں پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا۔ جنرل یحییٰ کے دور میں تو ملک ہی دو ٹکڑے ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاسی انتشار کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کیا مگر اُن کا گیارہ سالہ دورِ حکومت بھی ملک کو سیاسی اور جمہوری استحکام مہیا نہ کرسکا۔ جنرل پرویزمشرف نے پورا ملک ہی امریکہ کے ہاتھ فروخت کردیا تھا اور پوری قوم کو کرائے کی قوم میں ڈھال دیا تھا۔ میاں نوازشریف سے اسٹیبلشمنٹ کو بجا طور پر یہ شکایت تھی کہ وہ بھارت کے اتحادی کا کردار ادا کررہے ہیں اور امریکہ کے لیے بھی وہ نرم چارہ بنے ہوئے ہیں۔ مگر عمران خان ہوں یا اُن کی جماعت یا اُن کا اقتدار… ہر چیز پر اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ انہیں بھی پس منظر میں دھکیل رہی ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان اور اُن کی پارٹی کو اس پر کوئی اعتراض ہے نہ پریشانی۔ اس سلسلے میں عمران خان کا نعرہ ہے ’’اسٹیبلشمنٹ جو دے دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘۔
منظور پشتین اور ان کی پی ٹی ایم کا مسئلہ بڑا اور سنگین ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے پاس منظور پشتین کی غداری کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر اسے پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسے چاہیے کہ وہ یہ ثبوت عدالت میں پیش کرے۔ قوم ہر چیز برداشت کرسکتی ہے مگر ملک سے غداری برداشت نہیں کرسکتی۔ لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا ریکارڈ اچھا نہیں۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تھا تو بریگیڈیئر ہارون نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ الطاف حسین کراچی کو جناح پور بنانے کی سازش کررہے ہیں، اور قانون نافذ کرنے والوں نے ایک نقشہ برآمد کرلیا ہے۔ مگر بجائے اس کے کہ الطاف حسین اور اُن کی جماعت کی غداری کو ثابت کیا جاتا، اُلٹا بریگیڈیئر ہارون کو کراچی سے واپس بلالیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ظالم سے مظلوم بن گئے۔ پھر الطاف حسین نے دلّی جاکر پاکستان کے خلاف تقریر کی اور کہا کہ اگر میں قیام پاکستان کے وقت ووٹ ڈالنے کے قابل ہوتا تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتا۔ یہ تقریر الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ چلانے کے حوالے سے Fit Case تھا، مگر اسٹیبلشمنٹ نے خود کچھ کیا نہ کسی سیاسی حکومت پر کچھ کرنے کے لیے دبائو ڈالا۔ الطاف حسین 20 سال تک لندن میں بیٹھ کر کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری اور پُرتشدد ہڑتالیں کراتے رہے مگر پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں نے نہ الطاف حسین کی راہ روکی، نہ اس سلسلے میں برطانیہ سے احتجاج کیا۔ البتہ جب الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دینی شروع کیں تو اسٹیبلشمنٹ کو معلوم ہوا کہ الطاف حسین کو کراچی کی سیاست سے ’’Minus‘‘ ہوجانا چاہیے۔ اس تناظر میں قوم کا اندیشہ یہ ہے کہ کہیں منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے سلسلے میں بھی تاریخ اپنے آپ کو نہ دہرائے۔
جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی مرکزی دھارے میں ہیں، اور انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بلاشبہ دینی مدارس کے نصاب کو تبدیل ہونا چاہیے، مگر یہ کام دینی ادارے خود کریں گے۔ آخر جن اداروں کو ریاست نے بنایا ہی نہیں وہ ان میں مداخلت کا حق کہاں سے خرید لائی ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ جس حکمران طبقے سے ملک کے اسکول، کالج اور جامعات نہیں چل رہیں وہ اب دینی مدارس کو چلانے کی بات کررہے ہیں۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ ان ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکول بھیجے جو اسکولوں سے باہر پڑے رُل رہے ہیں۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنائے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس آچکی ہیں جن کے مطابق ہمارے پانچویں جماعت کے طلبہ اردو، سندھی اور انگریزی پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی ریاضی کی اہلیت صفر ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں نقل ’’کلچر‘‘ بن گئی ہے۔ ہمارے ملک کی کوئی جامعہ دنیا کی تین سو جامعات میں بھی شامل نہیں ہوپاتی۔ جو حکمران طبقہ جدید تعلیم کے ادارے نہیں چلا پارہا اُس کے بارے میں بجا طور پر یہ خیال کیا جائے گا کہ مدارس اُس کے ہاتھ لگ گئے تو وہ مدارس، ان کے طلبہ اور تعلیمی معیار کا بھی بیڑہ غرق کردے گا۔ ملک کے دینی مدارس میں ’’جدید علوم‘‘ پڑھانے کی بات ہورہی ہے تو پھر صوبے سمیت ملک کے تمام جدید تعلیمی اداروں میں ’’دینی علوم‘‘ پڑھانے کی بات بھی ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ جدید تعلیمی اداروں کے طلبہ میں نہ دینی شعور ہوتا ہے نہ دینی حمیت۔ آخر صرف دینی مدارس کے طلبہ کی شخصیتوں ہی کو تو ’’متوازن‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ جدید تعلیمی اداروں کے طلبہ کی شخصیت کو بھی ’’متوازن‘‘ ہونا چاہیے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب امریکہ کے دبائو پر دینی مدارس کو ’’ناکارہ‘‘ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کے سلسلے میں بجا طور پر قومی جذبات و احساسات کی پوری طرح ترجمانی کی ہے۔ امریکہ پاکستان کو بھارت کی کالونی بنانے کے لیے کوشاں ہے، اور اس منصوبے کی ہر سطح پر مزاحمت کی ضرورت ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے بجا طور پر بھارت کو بتایا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر بھارت ایٹمی جنگ چاہتا ہے اور مودی کے بیان کے مطابق اُس نے اپنے ایٹم بم دیوالی کے لیے نہیں بنائے تو پھر پاکستان بھی بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ کے لیے تیار ہے اور اس نے بھی ایٹم بم عید کے لیے تیار نہیں کیے۔ لیکن ہمیں بھارت کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کا کوئی جواز نہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ’’خسارے کی تجارت‘‘ سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ پاک بھارت تجارت کو دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔ جس طرح ہمیں بھارت کے ساتھ ’’سیاسی مساوات‘‘ درکار ہے، اسی طرح ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کے حوالے سے معاشی اور مالی مساوات بھی درکار ہے۔