ماہ رمضان ،عبادت اور اس کے اصل تقاضے

رمضان المبارک قرآن اور رحمتِ خداوندی کے جوش کا مہینہ ہے۔ شخصیت کی تہذیب و تربیت اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا حصہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’اس مہینے میں رحمت اور خیر و برکت کے خزانوں کی بارش ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، نفل کا ثواب فرض کے برابر، اور فرض کا ثواب ستّر فرائض کے برابر دیا جاتا ہے، اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے والوں اور رات کو نماز پڑھنے والوں کے سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
مولانا مودودیؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اُس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینے پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے ابھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں، اور اسلامی حس ُمردہ نظر آئے تو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقدر نہیں ہے۔‘‘
رمضان سعید میںہماری مسجدوں میں حاضری بڑھ جاتی ہے، سجدے طویل اور صدقہ و خیرات عام ہوجاتے ہیں، گھر گھر سے تلاوتِ کلام پاک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، لوگ خود اپنے لیے ہی افطار و سحر کا اہتمام کرتے نظر نہیں آتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی یہ نعمتیں بہم پہنچائیں۔ راستے میں جگہ جگہ لوگ دوڑ دوڑ کر افطار کراتے بھی نظر آتے ہیں۔ دن مقدس اور راتیں نورانی ہوجاتی ہیں۔ غرض ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی ماحول بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔ اور یہی اس مقدس اور عظیم مہینے کا تقاضا بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس عمل اور رویّے کے علاوہ ہمارا ایک اور رویہ بھی ہوتا ہے جو ہمیں اس ماہِ مبارک میں نظر آتا ہے۔ ہم رمضان کے آتے ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر پہلے سے زیادہ بدتہذیب ہوجاتے ہیں، معمولی معمولی باتوں پر سڑکوں پر لڑتے نظر آتے ہیں، پہلے سے زیادہ رشوت خور ہوجاتے ہیں کیونکہ عید کا ہدف پورا کرنا ہوتا ہے۔ غرض رمضان میں ظاہری اعمال تو بڑھ جاتے ہیں لیکن دین کے حقیقی تصور اور اس کے معنی و مفہوم سے یا تو ناآشنا ہوتے ہیں، اور آشنا ہوں بھی تو اس کی جھلک عملی زندگی میں نظر نہیں آتی۔ اس ماہِ مقدس سے ہمیں درگزر کرنے، دوسروں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور احسان کے معاملات کرنے، صبر اور شکر کے ساتھ دینے کا سبق ملتا ہے، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جذبۂ خیر خواہی، جذبۂ عفو و درگزر، محبت، لوگوں کی دلجوئی، بچوں سے شفقت و نرمی، تکلیفوں اور اذیتوں کو برداشت کرنے، دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے جیسے اخلاقی اوصاف کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمیں اگر رمضان کی گہماگہمی دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ رمضان میں کھانے پینے اور کپڑے اور شاپنگ کے پس منظر میں ہوتی ہے۔ ہم عام دنوں میں تو اپنے ملازمین اور رشتہ داروں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرتے بلکہ صرف خودغرض بن کر اپنے لیے آسانیاں تلاش کرتے ہیں، اور پھر رمضان میں بھی ہماری یہی روش برقرار رہتی ہے۔ جب کہ یہ مہینہ تربیت کا مہینہ ہے، یہ ماہِ مبارک آپ کو سکھاتا ہے کہ آپ کس طرح پورے سال اللہ کے مطلوب بندے بن کر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے، معاشرے کو خوبصورت بنانے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے بن سکتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ملک میں ہر سال رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے، مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے، ہم سے ہی تعلق رکھنے والے گراں فروش، عوام کی جیبیں کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ امسال بھی ماہِ مقدس کے آغاز سے پہلے یہ صورتِ حال ہے۔ اشیائے خورونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے عام آدمی کو مزید مشکلات اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ ادارہ شماریات نے ایک ہفتے کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اُن کے مطابق رمضان سے پہلے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھنے میں تیزی آگئی ہے اور 20 سے زائد اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وطنِ عزیز میں ہرسال ذخیرہ اندوز رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مزید مہنگائی کرنے کا منظم منصوبہ بناتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مصنوعی قلت پیدا کرکے خفیہ گوداموں میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور ہفتہ بازاروں میں ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزوں کو ذخیرہ کرلیا جاتا ہے، تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے ان اشیاء کو مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سبزیوں کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آڑھتیوں نے سبزیوں، پھلوں سمیت متعدد اشیا کو ذخیرہ کرکے گوداموں میں رکھا ہوا ہے۔زیادہ منافع کمانے کے لیے آڑھتی کسانوں کو سبزیوں کی خریداری کے لیے پیشگی میں رقم ادا کردیتے ہیں تاکہ صرف 30 فیصد مال سبزی منڈی پہنچ پائے جبکہ باقی 70 فیصد گوداموں میں ذخیرہ کرلیا جائے۔
اس ساری صورت حال میں ریاست کا وجود کہیں نظر نہیں آتا، جب کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ ریاست اتنی طاقتور ہے کہ اس سے کوئی لڑنہیں سکتا، لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ ’’طاقت ور ریاست‘‘ ان ظالموں کے خلاف کوئی کارروائی کرتی اور ان سے لڑتی نظر نہیں آتی۔ عمران خان کی نئی حکومت کے آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ صورت حال بتدریج بہتر ہوگی، لیکن حالات بد سے بدتر اور حکومت کے بس سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ عوام حکومت کی غلط اور بے سمت معاشی پالیسی سے پریشان اور بدحال ہیں،عوام پر ناقابلِ برداشت بوجھ بڑھتا جارہا ہے، غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے عوام دو وقت کے پیٹ بھر کھانے سے بھی محروم ہیں۔ معلوم نہیں اس ملک کے حالات بدلیں گے بھی یا نہیں؟ اور بدلیں گے تو کیسے بدلیں گے؟ کوئی راستہ سُجھائی نہیں دیتا اور نہ ہی کوئی راستہ دکھانے والا نظر آتا ہے۔ ان بدترین حالات میں ایک اور رمضان کا نصیب ہونا… اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے! رمضان المبارک معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی فساد سے نجات کے پیغام کا مہینہ ہے۔ یہ تبدیلی، انقلاب اور جدوجہد کا مہینہ ہے۔ اس کے اصل پیغام اور عبادت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اپنے ظاہری اعمال کے ساتھ اپنے باطن کو بھی دینِ مبین کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے، اور ریاست اور حکومت کو بھی اسلام اور رمضان کے پیغام کے تابع بنانے کے لیے اجتماعی جدوجہد کو تیز کیا جائے، تاکہ طاغوت کے نظام کا خاتمہ ہوسکے اور رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے پاکستان کے حقیقی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ اسی میں امتِ مسلمہ، عالم اسلام اور ہماری بقا پنہاں ہے اور یہی نجات کا راستہ بھی ہے.