گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی پولیس کی طرف سے اخبارات میں ایک عجیب اشتہار شائع ہورہا ہے ’’اشتہار شو رو غوغا‘‘۔ اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی روزنامہ ڈان میں بھی شائع ہوا جو تھانہ عیدگاہ کے افسر کی طرف سے تھا۔ کئی اردو اخبارات میں بھی ایک ڈی ایس پی صاحب کی طرف سے یہ اشتہار غوغا شائع ہوا ہے۔ اب چونکہ اشتہارات پولیس کی طرف سے ہیں چنانچہ ایف آئی آر کی طرح زبان بھی ویسی ہی استعمال کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ اشتہارات کا مضمون کسی ’’دہ جماعت پاس ڈائرکٹ حولدار‘‘ نے تیار کیا ہو۔ یہ غوغائی اشتہارات برائے تلاشِ گمشدہ ہیں۔ یہ افراد گمشدہ ہیں یا کسی جرم میں ملوث ہیں، یہ الگ بحث ہے۔ اشتہار میں ان کی ’’عمری‘‘ دی گئی ہے جس کو آسانی سے ’’عمر‘‘ لکھا جاسکتا تھا، لیکن یہ شاید پولیس کی اصطلاح ہے۔ اشتہار پڑھنے والوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان کے بارے میں کسی کو علم ہو تو مطلع کریں، تاکہ ’’تکمیلہ تفتیش‘‘ کیا جاسکے۔ تکمیلِ تفتیش لکھنے میں کیا ہرج تھا؟ لیکن یہ کیسے پتا چلتا کہ یہ غوغا پولیس کی طرف سے ہے!
سوال یہ ہے کہ یہ ’’اشتہار غوغا‘‘ کیا بلا ہے، اور گمشدہ افراد کے لیے اس اصطلاح کا مطلب کیا ہے، اور یہ کس کی ایجاد ہے؟ کوئی بتارہا تھا کہ اب تو پولیس میں پڑھے لکھے لوگ بھی آگئے ہیں۔ اشتہار تو بجائے خود شور و غوغا ہوتا ہے۔ شور کا مطلب تو سب کو معلوم ہے، بچوں سے لے کر ارکانِ پارلیمان تک کو غوغا کا مفہوم بھی واضح ہے، اور یہ عموماً شور کے ساتھ آتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ لغت کے مطابق غوغا عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: ٹڈی کا ہجوم۔ شکر ہے کہ پاکستان ٹڈی دل کے حملے سے محفوظ ہے۔ گندم انسانی ٹڈی غائب کردیتی ہے۔ اس کا ایک مطلب ہے: آدمیوں کا مجمع۔ اردو میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اہلِ فارس نے اسے بہ معنیٰ شور، فریاد و فغاں کے استعمال کیا ہے۔ اردو میں غل، غپاڑہ، ہلڑ۔ اور یہ کام کرنے والا غوغائی کہلاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غوغائی کا اطلاق ارکانِ اسمبلی پر بھی ہو۔ غوغائی کا ایک مطلب واہی، بے ہودہ، بے سلیقہ، جھوٹا، دروغ گو بھی ہے۔ علاوہ ازیں ایک قسم کے پرند کا نام جس کو ڈومنی بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ ہر وقت پھدکتی رہتی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ کہ ’’اشتہار شوروغوغا‘‘ پر ان میں سے کس مطلب کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیا یہ پولیس کا شور و غوغا ہے اور مطلب ہے: فریاد و فغاں۔ مگر کس سے؟ شوروغوغا کی مٹی پلید کرنے کے بجائے سیدھا سیدھا اشتہار دیا ہوتا ’’برائے گمشدہ‘‘۔ لیکن اس کے لیے تو پتا نہیں کتنے اشتہارات دینے پڑیں، اور وہ بھی اُن کو جن کا کچھ کچھ ہاتھ گمشدگی میں ہوتا ہے۔
سورۃ المومنون کے ترجمے میں ایک لفظ ’’دون‘‘ پڑھا۔ جملہ ہے ’’دون کی لی‘‘۔ کچھ ساتھیوں نے اس کا مطلب پوچھا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے الفاظ غریب ہوتے جارہے ہیں۔ دون نون غنہ کے ساتھ ’دوں‘ بھی ہے اور نون کے اعلان کے ساتھ بھی۔ ’’دون کی لینا‘‘ یا ’’دوں پر آنا‘‘ کا مطلب ہے: شیخی مارنا، ڈینگ کی لینا۔ اردو میں عام طور پر ’’ڈینگ مارنا‘‘ مستعمل ہے۔ ’’دون کی بات‘‘ یعنی شیخی کی بات۔ امیرؔ کا شعر ہے:
ایک دن آئے گی خزاں، دون کی کیسی یہ امیرؔ
چار دن باغ میں بے پر کی اڑا لے بلبل
یاد رہے کہ شاعر نے بلبل کو شیخی مارنے سے منع کیا ہے، اس کا اطلاق سیاست دانوں پر نہیں ہوتا، ویسے آپ کی مرضی ہے۔ ’’دون کی لینا‘‘ کا ایک مطلب ہے تعلی کرنا، خودستائی کرنا۔ امیرؔ کو شاید اس لفظ سے خاص دلچسپی تھی چنانچہ انہی کا ایک شعر ہے:
بس بس زبان روک لو، اتنا نہ بڑھ چلو
ہم چپ ہیں آپ دون کی سو بار لے چکے
دون بطور صفت مرکبات میں حقیر، کمینہ، ادنیٰ، پاجی، سفلہ، کم ہیچ، جیسے ’’دون ہمت‘‘ یعنی کم ہمت۔ آسمان کے حوالے سے بھی شاعروں نے اسے کم ہمت قرار دیا ہے، مثلاً یہ شعر:
فلک دوں نہیں اچھا ہے ستانا میرا
دور تیرا نہ رہے گا نہ زمانہ میرا
دون پرست، دون نواز: کنبے کی قدر یا پرورش کرنے والا۔ علاوہ ازیں اردو میں ہائے موحدہ بڑھاکر ’’بدوں‘‘ کہا جاتا ہے یعنی سوا، جز و،غیرہ وغیرہ۔
دوں میں اگر دال پر زبر ہو (بالفتح) تو یہ ہندی کا لفظ ہوگا جس کا مطلب ہے: آگ، شعلہ، لو۔ جنگلوں میں اس غرض سے آگ لگاتے ہیں کہ درختوں میں قوتِ نمو پیدا ہو۔ لیکن آسٹریلیا اور کچھ دیگر ممالک میں جانے کس غرض سے آگ لگائی گئی کہ قابو سے باہر ہوگئی۔ اس پر بھی ایک شعر برداشت کرلیں:
شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے
دَوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا
دون بروزن خون کا مطلب ہے: گھاٹی، درہ کوہ، پہاڑ کی تلہٹی، دامنِ کوہ جیسے دہرہ دون، یوپی کا ایک شہر۔ اس کو ڈیرہ دون بھی کہتے ہیں۔
رفاہی کو ہمارے بہت سے بھائی رفاعی کردیتے ہیں لیکن سنڈے میگزین میں کوئی صاحب ن الف ہیں، انہوں نے نئی راہ نکالی ہے اور اسے ’’رفائی‘‘ کردیا ہے۔ ممکن ہے یہ کمپوزر کا کارنامہ ہو، لیکن تحقیق کے مطابق یہ کارنامہ مصنف ہی کا ہے۔
اردو زبان میں مذکر و مونث اسماء کے متعلق غیر اہلِ زبان کو شاید سب سے بڑھ کر دشواری پیش آتی ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان کو ’’صاحبہ‘‘ کہہ دیا گیا، اور دوسری طرف سے وزیراعظم کو مونث بنادیا گیا جو فی الوقت مرد ہیں۔ بلاول زرداری نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ ان کی اردو کمزور ہے۔ کمزور تو ان کی سندھی بھی ہے کہ ساری عمر انگریزی پڑھتے رہے۔ لیکن یہ رعایت وہ عمران خان کو دینے پر تیار نہیں، حالانکہ اردو ان کی بھی مادری زبان نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ، لیکن اب تو اہلِ زبان بھی عوام کو مونث واحد کہنے لگے ہیں۔ یہ بحث پھر کبھی سہی کہ کیا عورت کو صاحب کہا جاسکتا ہے، کیونکہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی ایک کتاب میں عورت کے لیے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فی الوقت یہ کتاب ہمارے سامنے نہیں ہے، اس لیے مزید کچھ نہیں کہتے۔