پریس کانفرنس میں پاک بھارت کشیدگی، پشتون تحفظ موومنٹ، ملک کے ماضی و حال کے واقعات پر تفصیلی گفتگو کی
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کے ذریعے پشتون تحفظ موومنٹ کو ایک پیغام دے دیا ہے اور جواب بھی مانگا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ کوئی ریاست سے لڑائی نہیں لڑسکتا۔ جواب یہ مانگا گیا کہ پی ٹی ایم ریاست پاکستان کا حصہ ہے یا افغانستان کا؟ منظور پشتین کا کون سا رشتہ دار قندھار میں بھارتی قونصلیٹ گیا؟ اسلام آباد دھرنے کے لیے پی ٹی ایم کو ’را‘ نے کتنے پیسے دیے؟ 8 مئی 2018ء کو جلال آباد میں طورخم ریلی کے لیے کتنے پیسے لیے اور وہ کہاں سے آئے؟ حوالہ ہنڈی کے ذریعے دبئی سے کتنا پیسہ آرہا ہے؟ 31 مارچ 2019ء کو ’این ڈی ایس‘ نے کتنے پیسے دیے اور وہ کیسے آپ تک پہنچے؟ پی ٹی ایم کا بلوچ علیحدگی پسندوں سے کیا تعلق ہے؟ ٹی ٹی پی اور آپ کا بیانیہ ایک ہی کیوں بنتا ہے؟ پی ٹی ایم سے کوئی اعلانِ جنگ نہیں، حکومت ان سے بات کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ بھاگ بھاگ کر امریکہ، افغانستان اور بلوچستان چلے جاتے ہیں۔ مسائل فاٹا میں ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہاں کیمپ لگائیں اور بولیں حکومت اور فوج آئے، پھر دیکھیں کون نہیں جاتا!
یہ پیغام بہت سخت ہے یا نرم؟ اور کیا یہ پیغام پیپلزپارٹی کے لیے بھی ہے؟ اس بارے میں آراء کا اظہار اور تجزیہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا۔ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کہ فاٹا میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، افغانستان میں طالبان کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات ہونے والے ہیں، اور بھارت ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں گھنائونا کھیل کھیل رہا ہے، اس وجہ سے پاکستان کی جانب سے پیغام اور جواب بہت ضروری تھا۔ رہی بات تجزیے کی، تو اس کے لیے کچھ انتظار بہتر رہے گا۔ سردست میجر جنرل آصف غفور نے اپنی اہم ترین پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اُسے ہی وضاحت کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔ پریس کانفرنس میں پاک بھارت کشیدگی، پشتون تحفظ موومنٹ، ملک کے ماضی و حال کے واقعات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ پی ٹی ایم سے کہا گیا کہ جن لوگوں کو آپ ورغلا رہے ہیں اُن کے دکھوں کا احساس ہے، اگر آرمی چیف نے پہلے دن پیار سے بات کرنے کی ہدایت نہ کی ہوتی تو ان سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں، اب ہر کام قانون کے تحت ہوگا، آپ نے جتنی آزادی لینی تھی وہ لے لی، آپ نے مسنگ پرسنز کی لسٹ دے دی ہے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو افغانستان میں بیٹھی ہے اُس کی لسٹ ہمیں دے دیں، پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ مسنگ پرسنز کہاں گئے۔ پاک بھارت کشیدگی پر بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے مسلسل جھوٹ بولا گیا، اس کے باوجود ہم نے لفظی اشتعال انگیزی کا بھی جواب نہیں دیا، بھارت کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا رویہ تبدیل کرنا ہے۔ جس رویّے میں تبدیلی بھارت چاہتا ہے وہ نہیں ہوسکتی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ 26 فروری کو بھارت نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ہم نے جواب بھی دیا، اس واقعے کو دو ماہ ہوگئے لیکن بھارت کی جانب سے اَن گنت جھوٹ بولے گئے۔ پلوامہ میں واقعہ ہوا، اور یہ پولیس کے خلاف پہلا واقعہ نہیں تھا، اس جیسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے، ہم نے بھارت سے کہا کہ اگر کوئی ثبوت ہیں تو پیش کیے جائیں۔ انہوں نے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بالاکوٹ کا آپ نے ڈراما رچایا، ہم نے کاؤنٹر اسٹرائیک کی۔ آپ نے رات میں حملہ کیا، ہم نے دن میں جواب دیا۔ 28 فروری کو بھارت میزائل فائر کرنے کی تیاری کررہا تھا، بھارت اپنے میڈیا کو بتائے ہم نے کیا جواب دیا۔ اُس رات ایل او سی پر کیا ہوا، ہماری فائر پلاٹون نے اُن کی گن پوزیشن کو کیسے نشانہ بنایا، کتنی گن پوزیشن شفٹ کرنا پڑیں، کتنے فوجی مارے گئے؟ یہ باتیں بھارت میڈیا کو بتائے۔ بھارت میں الیکشن چل رہے ہیں، اس میں بہت باتیں ہوتی ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم نے دیوالی پر ایٹم بم چلانے کے لیے نہیں رکھا، جب ملکی دفاع کی بات ہو تو ہم ہر قسم کی صلاحیت استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر دل ہے تو بھارت اپنی صلاحیت آزما لے، لیکن پہلے نوشہرہ کی اسٹرائیک کا تجربہ یاد رکھے۔ یہ 1971ء ہے، نہ وہ فوج اور نہ وہ حالات… اگر 1971ء میں ہمارا آج کا میڈیا ہوتا تو بھارت کی سازشوں کو بے نقاب کرسکتا۔
پریس کانفرنس میں امریکہ بھی ان کا مخاطب تھا کہ نائن الیون سے لے کر آج تک پاکستان نے کائنیٹک آپریشن کیے، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں، القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی وغیرہ ہم نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کائنیٹک آپریشن کیا۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا کسی قسم کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے، ریاست بہت عرصے پہلے فیصلہ کرچکی تھی کہ اپنے معاشرے کو شدت پسندی سے پاک کرنا ہے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک فیصلے سے بھی آگاہ کردیا کہ حکومت نے تمام مدرسوں کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ تمام علمائے کرام مدرسوں کو مین اسٹریم میں لانے پر متفق ہیں۔ ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ 1947ء میں ملک بھر میں مدرسوں کی تعداد 247 تھی جو 1980ء کی دہائی میں ڈھائی ہزار سے زائد ہوگئی، اور جب سے اب تک یہ مدرسے 30 ہزار سے اوپر ہوگئے ہیں، ان میں 2.5 ملین بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، یہ مدرسے پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں سے جو عسکریت پسندی کی طرف راغب ہیں ان کی تعداد 10 فیصد ہے، باقی 90 فیصد مدرسے ویلفیئر کے کام کررہے ہیں جس پر حکومت اور اداروں کی نظر ہے کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیس ہزار سے زائد مدرسوں میں تین قسم کے مدرسے ہیں، ہم نے ان مدرسوں کی اسکیننگ کی ہے، تشدد کی طرف اکسانے والے مدرسوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے، اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے 30 ہزار مدرسوں میں سب کے سب عسکریت پسند نہیں، جب کہ جامعہ رشیدیہ کے ایک طالب علم نے فوج میں کمیشن حاصل کرلیا ہے، وہ میرٹ پر پورا اترتا ہے، لیکن یہ بہت کم ہیں۔ سوچنے کی بات ہے جب 30 ہزار مدرسوں سے یہ بچے باہر آتے ہیں تو ان کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہوتے ہیں! جب یہ دین کی تعلیم لے رہے ہیں تو دین کی ہی تعلیم کی ملازمت لے سکتے ہیں کیا ان بچوں کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر بنیں، یا فوج میں آئیں! یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے نصاب میں درس نظامی کے ساتھ دوسرے ہم عصر مضمون ہوں۔ اس لیے فیصلہ کیا ہے کہ ان مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان بچوں کے پاس کیرئیر کے اتنے مواقع ہوں گے جتنے دوسرے نجی اور سرکاری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے پاس ہوتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل دیا کہ خارجہ پالیسی دینی ہے تو اس حوالے سے بیانیہ وزیرخارجہ کو دینا چاہیے، اور اگر انتہاپسندی سے متعلق پالیسی بیان دینا ہے تو وہ وزیر داخلہ دے، لیکن وزیراعظم اگر آئی ایس پی آر سے پالیسی بیان دلوائیں گے تو وہ ادارہ متنازع ہوگا، اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ادارے متنازع ہوں۔ ہمیں گرفتاری کی دھمکیوں سے نہیں ڈرا سکتے، ہم جیل جانے کو تیار ہیں، لیکن ہم 18 ویں ترمیم، ملٹری کورٹس، جمہوریت، آزادیٔ اظہار اور صدارتی نظام پر اپنا اصولی مؤقف نہیں بدلیں گے، آپ کو جو کرنا ہے کرلیں، ہم نے ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں، لہٰذا آپ کی دھمکیوں اور نیب گردی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔