۔’’پیس پروسیس‘‘ کا آخری نقش بھی مٹ جائے گا؟۔

امن کے جس عمل کو من موہن سنگھ ’’ایریورس ایبل‘‘ یعنی ناقابلِ واپسی کہا کرتے تھے، امن کی اس گاڑی کو اب ریورس گیئر لگ چکا ہے

گزشتہ دہائی پاکستان اور بھارت کے درمیان عارضی اور مصنوعی ہی سہی، مگر امن کے حوالے سے یادگار رہی تھی جب کرگل کی جنگ کا ایک بھرپور دور گزارنے کے بعد دونوں متحارب فریقوں نے اچانک گلے لگ کر سارے گِلے دور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حیرت انگیز حد تک یہ عمل بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف نے کیا تھا۔ واجپائی اپنا سخت گیر حلقہ پیچھے چھوڑ کر اور پرویزمشرف اپنا تلخ ماضی بھلاکر اس پُرخطر راہ پر چل پڑے تھے۔ واجپائی رخصت ہوئے تو کانگریس کے سکھ وزیراعظم من موہن سنگھ نے اس کام کوآگے بڑھانے کا بیڑہ اُٹھا لیا۔ یوں پاک بھارت پیس پروسیس رینگتا چلا گیا۔ اُس وقت بھی بہت سوں کا خیال تھا کہ خنجر پھینکے نہیں گئے بلکہ محض آستینوں میں لپیٹ کر چھپا دئیے گئے ہیں، جب بھی غلط فہمی کی ہوا کا پہلا جھونکا چل پڑا، یہ چمکتے دمکتے خنجر پھر ہاتھوں میں آجائیں گے۔ رجائیت پسند طبقہ اس خیال سے اتفاق کرنے کو تیار نہیں تھا، اس کی دلیل یہی تھی کہ وقت بدل چکا ہے اور دونوں ملک جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس لیے امن واحد راہ اور چارہ ہے۔ تجارتی ضرورتیں دونوں ملکوں کو امن کی راہ سے بھٹکنے نہیں دیں گی۔ یہ خیال قطعی غلط ثابت ہوا کہ وقت بدلنے سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ ذہن اور دل بدلے بغیر کچھ بھی نہیں بدلتا۔ نریندر مودی برسراقتدار آئے تو انہیں پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں ’’واجپائی‘‘ بننے کا مشور ہ دیا جاتا رہا، مگر وہ مودی ہی رہے۔ انہیں واجپائی اور من موہن دور کی علامتوں اور اصطلاحات سے چڑ محسوس ہونے لگی، اور مودی نے ڈپلومیسی کو بھول کر طاقت آزمائی کو ہتھیار اور شعار بنالیا۔ پاکستان اور بھارت نے جس کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان امن کا ماڈل بنانے کا عہد کیا تھا، وہی کشمیر جنگ کا میدان بن کررہ گیا۔
گزشتہ دہائی جس امن کے فروغ اور ترویج میں گزری تھی، موجودہ دہائی اسی امن کی علامتوں اور نشانیوں کو مٹانے میں صرف ہوئی۔ انہی نشانیوں میں سے ایک کنٹرول لائن پر ہونے والی آمد و رفت اور تجارت ہے۔ مودی اپنے پیش روئوں کی اس نشانی اور پیس پروسیس کے نقش کو نقش برآب بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بھارتی وزارتِ داخلہ نے ایک حکم نامے کے ذریعے کنٹرول لائن پر تجارت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس پابندی کے جواز کے لیے تجارت کےغلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا اور غلط استعمال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے دہشت گردوں کی منتقلی، منشیات اور اشیا کی اسمگلنگ اور غیر قانونی کرنسی کے استعمال کی بات کی گئی ہے۔ کنٹرول لائن پر دو مقامات چکوٹھی اور تیتری نوٹ سے تجارت کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتِ پاکستان نے کنٹرول لائن پر تجارت کےغلط استعمال کے بھارتی الزامات کو مسترد کیا ہے۔ بھارت کا پہلا الزام ہی اس لحاظ سے بے معنی ہے کہ تجارتی ٹرکوں میں دہشت گردوں کو کس طرح منتقل کیا جا سکتا ہے؟
کنٹرول لائن پر بس سروس اور تجارت گزشتہ دہائی میں جنرل پرویزمشرف اور واجپائی اور من موہن سنگھ کے ادوار میں شروع ہونے والے پیس پروسیس کی آخری اور کمزور علامتوں میں شامل ہیں۔ یہ پیس پروسیس اب چراغ ِسحر کی طرح ٹمٹما رہا ہے۔افراد کے افراد سے روابط سمیت اُس دور کے سجنے والے تمام میلے ٹھیلے اب ختم ہوچکے ہیں۔ امن عمل کے نام پر جمنے والی محفلیں اب خواب و خیال ہوچکی ہیں، اور وہ جلسہ گاہیں اور ہوٹل اب بے رونق ہوچکے ہیں جہاں کبھی دونوں طرف کے چیدہ اور چنیدہ لوگ مل کر امن کے نام پر دھمالیں ڈالا کرتے تھے۔ اب ان سب کواڑوں پر تالے اور جالے پڑچکے ہیں، اور ان منڈیروں پر اُلّو بول رہے ہیں۔ امن اور دوستی کی بات کرنا اب اتنا ہی مشکل ہوچکا ہے جو ماضی کا خاصہ رہا تھا۔ اب امن کے گیتوں اور آشائوں کی جگہ جنگ کے گیتوں اور رزمیہ ترانوں نے لے لی ہے۔ یوں امن کے جس عمل کو من موہن سنگھ ’’ایریورس ایبل‘‘ یعنی ناقابلِ واپسی کہا کرتے تھے، امن کی اس گاڑی کو اب ریورس گیئر لگ چکا ہے۔کنٹرول لائن پر بس سروس اور تجارت کے لیے بھارت اس بنا پر آمادہ ہوا تھا کہ اس سے مسئلہ کشمیر پر کشیدگی کم اور نارملسی پیدا ہوگی۔ آمد و رفت اور تجارت کے عمل میں مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور شدت دبتی چلی جائے گی۔ بسوں اور ٹرکوں کے شور میں آزادی کے نعرے سنائی نہیں دیں گے، اور یوں خطے کی سیاست اور حالات کا ایک نیا باب رقم ہونا شروع ہوگا۔ پاکستان اور کشمیریوں کے لیے بھی اس میں اطمینان کا یہ پہلو تھا کہ اس سے وادیٔ کشمیر کے عوام کو پاکستان اور آزادکشمیرکے ساتھ روابط کا موقع میسرآرہا تھا۔ ایک ایسی کھڑکی کھل رہی تھی جو مدتوں پہلے بند ہوچکی تھی، اور وادی کے عوام نے اس کے ردعمل میں بھارت کے ساتھ شیر وشکر ہوجانے کے بجائے اپنی دنیا بسانے کا راستہ اپنایا تھا۔ انہوں نے مظفر آباد راولپنڈی روڈ بند ہونے کے انتقام میں خود کو امرتسر اور دہلی سے ذہنی طور پر دور کرلیا تھا۔ وادی کے عوام کا فطری دھارا مغرب کی جانب پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور ایران کی جانب رہا ہے، مگر کشمیر پر بھارت کے قبضے نے فطرت کے اس بہائو میں رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد کشمیری عوام نے خود کو بھارتی دھارے میں شامل کرنے کے بجائے اپنی تہذیب، ثقافت، نظریاتی اساس، شناخت کے تحفظ اور اس کی انفرادیت کے تحفظ کا راستہ اپنایا تھا۔ اس طرح بھارت نے کشمیریوں کے لیے تازہ ہوا کی اس کھڑکی اور روزن کو نیم دلی سے قبول کیا ہے۔ اب نریندر مودی اس کھڑکی کو مکمل طور بند کرنا چاہتا ہے تاکہ کشمیریوں کو دم گھونٹ کر مار دیا جائے۔ پاکستان کو اس کوشش کوناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ سری نگر مظفر آباد بس سروس اور تجارت کوئی انقلاب نہیں، نہ اس کے ثمرات عام کشمیری تک پہنچ رہے ہیں، مگر یہ وادی کے محبوس عوام کے لیے امید کی ایک کرن ہے، اور اس کے نفسیاتی اثرات عملی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔