کیا موجودہ نظام کی اصلاح ممکن ہے؟۔

پاکستان میں سیاسی دانشوروں کی سطح پر یہ سوال موجود ہے اور اس پر مختلف حلقوں میں مباحث بھی ہوتے ہیں کہ کیا موجودہ نظام کی اصلاح ممکن ہے؟ کیونکہ اس تناظر میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ نظام درست نہیں ہوسکے گا اور یہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ اس میں اصلاح کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ نظام کی اصلاح ممکن ہے مگر اصل مسئلہ ہمارے سیاسی اور دیگر طبقات کا ہے جو بنیادی طور پر اصلاحِ احوال کے لیے تیار نہیں، وہ روایتی طرز کی سیاست کے حامی ہیں اور اسی سیاست کو بنیاد بناکر اپنے اقتدار اور طاقت کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہاں دوسرے طبقے کی رائے کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قیادت کہاں سے لائیں جو واقعی اصلاح چاہتی ہو؟کیونکہ جب سیاسی نظام میں اچھی قیادت کا تصور ممکن نہ ہو تو پھر تبدیلی کی خواہش بھی کمزور ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں بنیادی طور پر ایک بڑا بحران نظام کی درستی، شفافیت اور انصاف پر مبنی نظام کا ہے۔ ایک ایسا نظام جو عام آدمی میں اپنی ساکھ بھی قائم کرسکے اور ان کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا کرسکے۔ ہماری سیاسی اور سماجی جدوجہد عملی طور پر نظام کی درستی کے نعروں کے درمیان ہوتی ہے، اور ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نظام کی تبدیلی کو بنیاد بناکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کرتی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاست کا المیہ نظام کی تبدیلی کے مقابلے میں افراد، فرد یا خاندان کی ترقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی آزادی سے لے کر اب تک نظام کی تبدیلی کے نعروں کے درمیان ہی کھڑے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے لیے ایک بڑے ’’سیاسی ہتھیار‘‘ سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کے نعروں میں نظام تو نہیں بدلتا، البتہ ہماری سیاست عملاً ایک ایسے انتشار کے درمیان کھڑی ہے جہاں کوئی محفوظ راستہ ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنا ہوگی کہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگانا آسان ہوتا ہے، اور اس میں جب خوشنما نعرے، جذباتیت اور جوش پر پر مبنی سیاست کو بالادست کردیا جائے تو منزل اور دور ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نظام کی تبدیلی کا عمل ایک سنجیدہ بحث ہے، اوراس پر مختلف حوالوں یا پہلوئوں سے غوروفکر، تدبر اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب نظام کی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم پہلے سے موجود نظام کے مقابلے میں کیسا متبادل نظام چاہتے ہیں؟ یہ بحث کون کرے گا اور اس کا فیصلہ کہاں ہوگا کہ کیسا نظام ہونا چاہیے اور کون اس کو تبدیل کرنے کا حق بھی رکھتا ہے اور ذمہ دار بھی ہے۔ نظام کی تبدیلی کا عمل ایک متبادل نظام کی مرہونِ منت ہوتا ہے اور اس میں مختلف نوعیت کے ماہرین کی مشاورت، حمایت اور مدد درکار ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس میں اچھے ماہرین کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کوئی سیاسی نظام قابل لوگوں کو باہر نکال کر چلایا جاتا ہے تو اس کا عملی نتیجہ قومی سیاست میں ایک بڑے بحران کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اس ملک میں قابل لوگوں کو دیوار سے لگانے کی روش نے معاشرے کو عملاً بانجھ بنادیا ہے اور ان قابل لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم اس سماج میں بوجھ ہیں یا اہلِ اقتدار کو ہماری ضرورت ہی نہیں ہے۔
جب ہم جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور منصفانہ و شفاف نظام کی بات کرتے ہیں تو بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اصل لڑائی یا جنگ اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ ہمیں کیسے نظام کو بدلنا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے نظام کی تبدیلی کے تناظر میں اہلِ دانش کی سطح پر جو کام کرنا تھا وہ ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ ناکامی کسی ایک فریق یا جماعت کی نہیں بلکہ اصولی طور پر سبھی اس حالیہ صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں۔ بنیادی خرابی کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے کہ ہم نظام کی تبدیلی کے عمل میں نظام سے زیادہ اپنے ذاتی مفاد اور بالادستی کو فوقیت دیتے ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی نظام اداروں کے مقابلے میں افراد یا فرد کو مضبوط کرے گا تو خرابی ہی پیدا ہوگی۔ اس سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے جو ہوم ورک یا حکمت عملی درکار ہے اس کا فقدان نظر آتا ہے۔
نظام کی تبدیلی کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج روایتی ’’اسٹیٹس کو‘‘ قوتوں اور حقیقی تبدیلی کے خواہش مند فریقین کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ جنگ فطری ہوتی ہے اور جو بھی گروپ زیادہ طاقت میں ہوتا ہے وہی اپنی بالادستی کو قائم بھی رکھتا ہے۔ کیونکہ طاقتور فریقین کبھی بھی ایسی تبدیلی کے حق میں نہیں ہوں گے جو اجتماعی ترقی کا روپ دھارے۔ ان کی سوچ اور فکر محدود ہوتی ہے، اور یہ طاقتور لوگ اپنے حمایت یافتہ طاقتور عناصر کی ترقی تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم ملک میں موجود طاقتور سیاسی، انتظامی، قانونی اورعسکری طبقات کو دیکھیں اور اُن کی طرف سے ہونے والی فیصلہ سازی کے عمل کو دیکھیں تو ہمیں ان کی سوچ، فکر اور فیصلہ سازی میں ایک طبقاتی تقسیم اور طبقات کی بنیاد پر فیصلے غالب نظر آتے ہیں۔ یہ سوچ و فکر معاشرے میں مختلف فریقین کے درمیان خلیج پیدا کرتی ہے، اور یہ تقسیم امیر، غریب یا کمزور اور طاقتور کے درمیان ہوتی ہے۔ اس تقسیم کو ختم کرنا اہم چیلنج ہوتا ہے، اور یہ کام فکری، علمی اور سیاسی بنیاد پر ہونے والی سیاسی اور سماجی جدوجہد سے جڑا ہوتا ہے، اور اسی کام کی بنیاد پر طاقتور لوگوں کو کمزور طبقات کی حمایت پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو بنیاد بناکر ہم تبدیلی کے خواب دیکھتے ہیں وہ بھی بہت جلد اپنی سوچ میں تبدیلی لاکر اسی روایتی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے خلاف یہ لوگ کسی دور میں عملی طور پر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
جب ہم نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس سے عام آدمی کی مراد کیا ہوتی ہے؟ کسی بھی نظام کی ساکھ اُس کا عام طبقہ ہی ہوتا ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر نظام کو کامیاب یا ناکام بنایا جاتا ہے۔ عام لوگوں کا مقدمہ بہت سادہ ہوتا ہے اور وہ اس مسئلے پر کسی بڑے سیاسی فلسفے یا فکری مغالطوں کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا بڑا مقدمہ بنیادی حقوق اور ضرورتیں ہوتی ہیں۔ یہ وہ حقوق ہیں جو ان کو آئینِ پاکستان آرٹیکل 8 سے 28 کے درمیان حاصل ہیں۔ ان میں صحت، تعلیم، روزگار، نقل وحمل، تحفظ، ماحول، انصاف، آزادیٔ اظہار، تنظیم سازی کا حق، ووٹ کا حق جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جو عمرانی یا سماجی معاہدہ ہے وہ بھی ان ہی نکات کے درمیان موجود ہے۔ اگر ان نکات پر منصفانہ بنیادوں پر عمل نہ ہو تو پھر ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے، اورکیسے ایک دوسرے پر اعتماد کیا جائے گا!
المیہ یہ ہے کہ جن طاقتور فریقین اور بالخصوص سیاسی قیادت کو نظام کو بدلنا تھا وہی نظام کو بدلنے کے اصل دشمن بن گئے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا عمل اصلاحات کے عمل سے جڑا ہوتا ہے، لیکن اوّل تو ہم اصلاحات کے قائل ہی نہیں ہیں، اور اگر ہمیں مجبوری میں اصلاحات یا قانون سازی کرنی پڑے تو یہ ہماری فکر کا عارضی عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرز کی اصلاحات یا قانون سازی پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ لاتعداد قانون سازیوں، پالیسیوں اور اداروں کے باوجود ہمارا نظام لوگوں کی بنیادی نوعیت کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ یہ جو ہم محض جمہوریت اور عام آدمی کی حمایت میں نعرے یا جذباتیت پیدا کرکے نظام کی تبدیلی کی دہائی دیتے ہیں، یہ ماسوائے خوش فہمی کے کچھ بھی نہیں ہے۔
نظام کی تبدیلی کے عمل کا اہم نکتہ قوم کے افراد اور بالخصوص کمزور طبقات کو ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔کیونکہ جب لوگوں کو سامنے رکھ کر نظام کی اصلاح کی جائے گی تو لوگ نظام کی تبدیلی کی اس بحث اور عمل میں خود کو شریک سمجھیں گے، اور ان میں نظام کے تناظر میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوگا۔ یہ جو ہم روزانہ کی بنیاد پر نظام سے جڑے مختلف مسائل پر ماتم کرتے ہیں اور جذباتیت پیدا کرکے لوگوں کو اور زیاد ہ مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کیونکہ مسائل کی گہرائی میں جاکر مسائل کو سمجھنا اوراس کا ادراک کرنا ہوگا۔ہمارا مسئلہ ایک ایسا نظام ہے جو عملی طور پر قانون کے دائرے میں رہ کر کام درست انداز میں نہیں کرپارہا۔ یہ نظام اپنے اندر بہت بڑی اصلاحات اور تبدیلی چاہتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہے، کیونکہ موجودہ نظام اپنی اہمیت کھوبیٹھا ہے اور لوگوں کو مزید کمزور کر رہا ہے۔
ماضی میں ایک نعرہ ہوتا تھا ’’چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘۔ اصولی طور پر ہماری جنگ اسی نعرے کے گرد گھوم رہی ہے۔ہم مصنوعی انداز سے چہرے بدل کر یا ان کو تبدیل کرکے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ نظام بدل رہا ہے،لیکن عملی طور پر نظام بدلتا نہیں ہے، کیونکہ ہم اقتدار کی سیاست میں ایسی اصلاحات کے قائل نہیں جو نظام کو مضبوط بناتی ہوں۔نظام کی تبدیلی میں سب سے زیادہ اہمیت سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے، لیکن سیاسی جماعتیں یہاں کہاں ہیں؟ وہ کیوں مضبوط نہیں؟ اورکیوں خاندانی سیاست کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں؟ اس کا تجزیہ کیے بغیر سیاسی جماعتوں کی فعالیت ممکن نہیں ہوگی۔کیونکہ نظام کی تبدیلی ایک بڑے سیاسی، سماجی دبائو کے تحت ہی ممکن ہوتی ہے۔ہمیں خاص طور پر اپنی نئی نسل کو یہ باور کروانا ہوگا اوران میں یہ سیاسی اور سماجی شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ اگر نظام کو حقیقی معنوں میں تبدیل ہونا ہے تو ان کی مدد، حمایت اور جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ اگریہ نظام تبدیل ہوگا تو اس کا براہِ راست فائدہ ترقی کے تناظر میں نئی نسل کو ہی ہوگا جن کے ہاتھ میں قوم کامستقبل ہے۔اس لیے تبدیلی کے عناصر کو ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد کو نئے سرے سے سمجھنا ہوگا، اوراسی بنیاد پر نئی سیاسی حکمت عملی درکار ہوگی جو ایک بڑی تبدیلی کا سبب بنے۔