صدر اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن سردار طاہر محمود سے فرائیڈے اسپیشل کے لیے انٹرویو
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کیا ہے، اور اس تنظیم کے مقاصد کیا ہیں، اس کا دائرۂ کار کہاں تک ہے؟
سردار طاہر محمود: پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں خاصا عمل دخل ہوگیا ہے، یہ شعبہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں ملک میں لاکھوں اسٹیٹ ایجنٹ ملک کی معاشی سرحدوں کے محافظ ہیں، وہیں یہ شعبہ پاکستان میں لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کررہا ہے مگر بدقسمتی سے یہ شعبہ حکومت کی سرپرستی سے محروم ہے، اور اس سے وابستہ افراد کا معاشرے میں وہ مقام نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہمیں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور اس سے وابستہ افراد یعنی ایک عام اسٹیٹ ایجنٹ کو بھی وہ مقام دلانا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ پہلے سے ملک بھر میں موجود اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشنز مقامی سطح پر مقامی شہری انتظامی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور بزنس سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتی ہیں، مگر حکومتی پالیسی اور قانون سازی کے لیے رئیل اسٹیٹ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا حکومتی سطح پر ہم نے رابطے اور مشاورت کے عمل کے ذریعے مسائل کا قانونی حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اور حکومت جو بھی پالیسی ہماری مشاورت کے ساتھ بنائے گی وہی قابلِ عمل ہوگی اور حکومت کے محاصل بھی بڑھ جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پراپرٹی کے کاروبار کو ایک قانونی شکل بھی دی جانی چاہیے، تاکہ اس کی خریدو فروخت بھی ریگولر ہو، جیسا کہ یورپ میں ہے جہاں کوئی بھی جائداد رئیلٹرز کے بغیر خریدو فروخت نہیں کی جاسکتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کے لیے یونیورسٹی کی سطح اور مقامی سطح پر ایسوسی ایشنز کی مدد کے ساتھ ڈپلومہ کورسز کا آغاز ہونا چاہیے، اور اس کے لائسنس کا ایک تعلیمی معیار ہونا چاہیے۔ ہم منتخب ہوکر مستحق افراد کے لیے ویلفیئر فنڈ قائم کریں گے جس کے ذریعے اپنے شعبے سے وابستہ افراد کے بچوں کے لیے تعلیمی وظائف بھی شروع کریں گے، اور جس کے پاس بھی لائسنس ہوگا اُسے رئیلٹرز کے شعبے میں کنسلٹنٹ کے حقوق دلانے ہیں۔ ملک بھر میں اس وقت پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ تمام کے تمام افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تاکہ اس شعبے کو درپیش مسائل کے حل کی عملی کوشش کامیاب طریقے سے کی جائے، اور مثبت نتائج بھی حاصل کیے جائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: فیڈریشن کی ایک عکاسی آپ کی ہے، ہمیں یہ بتائیے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے، ایک رائے یہ ہے کہ ٹیکس تو ہر شخص دینا چاہتا ہے لیکن جائز ٹیکس لینے کے لیے کوئی بھی حکومت عملی طور پر کوئی میکانزم نہیں بنا سکی، آپ کی رائے کیا ہے؟
سردار طاہر محمود: آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ ٹیکس دیے بغیر کوئی ملک اور ریاست ترقی نہیں کرسکتی، اس پر ہم بھی متفق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ٹیکس دیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنا اور کیسے دیا جائے؟ شرح کیا ہونی چاہیے؟ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر برسوں سے بحث ہورہی ہے اور مستقبل میں بھی یہ بحث جاری رہے گی۔ آپ دیکھیں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے کاروباری اداروں پر چھاپے مار کر موجودہ ٹیکس دہندگان کو ہی نچوڑنے کی کوشش کررہا ہے، جس سے تاجر برادری میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور حکومتی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر ایف بی آر کو کسی تاجر یا صنعت کار کے خلاف ٹیکس سے متعلق کوئی شکایت ہے تو پہلے ایسوسی ایشن اور متعلقہ مارکیٹ کی یونین کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ مشترکہ کوششوں سے ٹیکس شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے بجائے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی کرے۔ ہم ملک میں ٹیکس نیٹ کے حامی ہیں لیکن حکومت ٹیکس کے نفاذ سے قبل مارکیٹ کی اصل صورت حال کو بھی مدنظر رکھے۔ یہ نجی شعبہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنا ہوا ہے، اس لیے اس شعبے پر جی ایس ٹی جیسا ٹیکس نافذ کرنے کے بجائے اسے ریلیف دیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت تو ہر چیز پر جہاں وہ سمجھتی ہے ٹیکس لگانا چاہتی ہے، اب تو موبائل فون کارڈ پر بھی دوبارہ ٹیکس بحال کردیا گیا ہے، اور آپ ریلیف مانگ رہے ہیں! یہ کیسے ممکن ہوگا؟ یہ بتائیے کہ آپ کی نظر میں ملک میں ٹیکس کلچر کیسا ہونا چاہیے؟
سردار طاہر محمود: ہماری نظر میں ٹیکس عدل کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے۔ حکومت کو بھی فائدہ پہنچے اور ٹیکس دینے والا بھی پریشان نہ ہو اور اسے بوجھ نہ سمجھے۔ ٹیکس بوجھ بنے گا تو کسی کا بھی بھلا نہیں ہوگا۔ ابھی حال ہی میں محترم چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکومتِ پاکستان قانون بنادے کہ ہر بالغ پر ٹیکس لگے گا، جسے ٹیکس سے استثنیٰ چاہیے، وہ درخواست دے کر حاصل کرلے۔ اس کیس میں اٹارنی جنرل نے وفاق کی نمائندگی کی اور عدالت کو بتایا کہ موبائل کارڈ ٹیکس کٹوتی پر حکم امتناع برقرار رہا تو حکومت ٹیکس آمدن کے 40 فیصد سے محروم ہوجائے گی، فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ پانی، اور فون سے بات کرنے پر تو ٹیکس لگ چکا ہے، اب ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے، سپریم کورٹ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف مدات پر عائد کیے گئے ہیں۔ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں پر ہی سالانہ بجٹ کا دارومدار ہوتا ہے، المیہ یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر اور اسی طرح مختلف اشیاء پر عائد کیے گئے ٹیکس اور ڈیوٹیوں کی جی ایس ٹی کی صورت میں تو لازمی اور جبری وصولی ہوجاتی ہے، حکومتوں نے بھی جبری ٹیکس وصولی کے نظام کو ہی ٹیکسوں کی وصولی کا مجرب نسخہ سمجھ لیا ہے۔ اگر حکومت مختلف طبقات کے ذرائع آمدن و وسائل کی مکمل جانچ پڑتال کرکے ٹیکس نیٹ کا دائرہ متعین کرے اور پھر ٹیکس نیٹ میں آنے والے ہر فرد اور ہر ادارے سے واجب الادا ٹیکس کی وصولی یقینی بنائے تو اسے بجٹ میں متعینہ اہداف پورے کرنے کے لیے آئے روز ضمنی میزانیے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے کہا کہ مہنگائی ہے، لہٰذا دو کے بجائے ایک روٹی کھائی جائے؟
سردار طاہر محمود: یہ ایک ایسی بات ہے جسے عوام کی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ عام آدمی معیشت کی باریکیوں کو نہیں سمجھتا، اسے سب سے پہلے اپنی روٹی روزی کی ضرورت، پھر اپنی اور خاندان کی صحت اور تعلیم کی فکر ہوتی ہے، جو حکومتی کارکردگی سے بے چینی اور تشویش میں بدل رہی ہے۔ روپے کی قیمت میں ہوش گم کردینے والی کمی، بجلی اور پیٹرولیم کے نرخوں میں پے در پے اضافے نے عوام کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا۔ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف ’’دو روٹیاں نہ کھائیں، ایک کھالیں‘‘ جیسے مشورے دینا عوام کی بے بسی کا مذاق اڑانا ہے۔ فرانس کی ملکہ نے بھی بھوکے عوام کو روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیا اور اُس کے انجام کی تاریخ گواہ ہے۔ عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے تو پانچ سال پورے کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں ہوسکتا-
فرائیڈے اسپیشل: ملک کے ٹیکس نظام سے متعلق اپنی رائے دیں اور تجویز بھی پیش کریں۔
سردار طاہر محمود: ٹیکس دو طرح کا ہوتا ہے، پہلی قسم تو ڈائریکٹ ٹیکس ہے جس میں آپ کسی شہری یا کاروباری ادارے سے اُس کی ذاتی آمدنی کے حساب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک جائز اور قانونی طریقہ ہے، لیکن اس ٹیکس کے زمرے میں عام طور پر خوشحال، طاقتور اور مراعات یافتہ طبقے آتے ہیں، وہ ٹیکس حکام پر اثرانداز ہوجاتے ہیں جس کی بہت سی شکلیں ہوتی ہیں۔ دوسری قسم Indirect tax یا بالواسطہ ٹیکس کی ہے جو کہ ٹیکس کی ظالمانہ ترین شکل ہے۔ یہ ٹیکس امیروں کے بجائے غریبوں پر لاگو ہوجاتا ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ ٹیکس ریونیو میں ڈائریکٹ ٹیکس مجموعی ٹیکس کا 20 فیصد ہے، جبکہ باقی 80 فیصد غریب عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارا ٹیکس جمع کرنے کا نظام انتہائی پیچیدہ اور فرسودہ ہے، جس میں ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ٹیکس چوری اور رشوت ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ اگر ہم اپنے ٹیکس قوانین کے تناظر میں دیکھیں تو صورت حال واضح نظر آنے لگتی ہے۔ اِن ڈائریکٹ ٹیکس اُس وقت لگایا جاتا ہے جب آپ اصل ٹیکس دہندگان سے مطلوبہ وصولی کرنے میں ناکام رہتے ہیں، مگر آپ کو اپنا سالانہ ٹیکس ہدف پورا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا حکومت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ پیسہ کہاں سے وصول کیا جارہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ناکہ لگاکر ہر گزرنے والے راہ گیر کی جیب سے جتنے پیسے ہیں وہ گن پوائنٹ پر چھین لیے جائیں۔ یہی ہمارا ٹیکس نظام ہے، یہی ہماری ٹیکس پالیسی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: تحریک انصاف نے تو دعویٰ کیا تھا کہ ٹیکس دوگنا جمع کریں گے، کیا یہ دعویٰ حقیقی ہے؟
سردار طاہر محمود: اپنی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم ٹیکس ریونیو کو 4000 ارب سے 8000 ارب یعنی دوگنا کردیں گے۔ اب اطلاعات ہیں کہ موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ٹیکس کا پرانا ہدف بھی پورا نہیں ہوسکا۔ پچھلے 6 ماہ میں 2000 ارب روپے کے بجائے صرف 1750ارب حاصل ہوسکے۔ اب حکمران کہہ رہے ہیں کہ وہ نیا FBR لے کر آئیں گے۔ ہمارا خدشہ یہ ہے کہ نئے سسٹم یا نئے چہروں کے لانے سے فرق نہیں پڑے گا۔