الحمد للہ، ثم الحمد للہ! پوری پنجاب اسمبلی میں اس پر اتفاق، یک جہتی اور یکسوئی تھی، ورنہ عام حالات میں تو قومی اسمبلی ہو، یا سینیٹ، یا صوبائی اسمبلیاں… مچھلی منڈی کا منظر ہی پیش کرتی ہیں، سوائے ایک موقع کے کہ جب ارکانِ اسمبلی کے معاوضوں اور الائونسوں میں اضافوں کا معاملہ زیر بحث ہو۔ ماضی میں ایسے ہر موقع پر ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی ایک زبان اور ایک آواز پائے گئے ہیں۔ اس کے سوا تو ایوان میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں کھینچا تانی اور باہم طعن و تشنیع کی یہ کیفیت معمول رہتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی… اور جب کبھی گرما گرمی زیادہ ہوجائے تو بات گالم گلوچ اور ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جانا بھی بعید از قیاس نہیں۔ لیکن پیر 29 اپریل کو پیش کی گئی اس قرارداد میں معاملات ہی ایسے اٹھائے گئے تھے کہ کوئی مسلمان ان پر خاموش نہیں رہ سکتا۔
اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کی زیر صدارت اجلاس جاری تھا کہ صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر نے کھڑے ہوکر انہیں متوجہ کیا کہ وہ بعض اسلام دشمن اور ختمِ نبوت پر ڈاکا ڈالنے والی سرگرمیوں کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں، معاملے کی اہمیت اور فوری نوعیت کے پیش نظر ایوان کے قواعد و ضوابط کو معطل کرکے انہیں یہ قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسپیکر نے ایوان کے سامنے معاملہ رکھا اور اجازت ملنے پر قواعد و ضوابط معطل کرکے صوبائی وزیر کو قرارداد پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ جناب حافظ عمار یاسر نے جو قرارداد ایوان کے سامنے پیش کی اُس میں کہا گیا تھا کہ ’’چنیوٹ میں ختمِ نبوت کے حوالے سے کسی بھی پروگرام کو منعقد کرانے پر پولیس ایف آئی آر درج کرکے منتظمین کو پریشان کرتی ہے، منتظمین اپنے پروگرام کے حوالے سے نہ کوئی اشتہار پرنٹ کرا سکتے ہیں اور نہ اس حوالے سے تشہیر کرسکتے ہیں، یہ ایوان اس کی بھی شدید مذمت کرتا ہے کہ پاکستان میں او لیول میں پڑھائی جانے والی ایک کتاب ’’اسلام بلیف اینڈ پریکٹسز‘‘ جس کی مصنفہ یاسمین ملک ہے، اس کتاب میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان کے بارے میں گستاخیاں کی گئی ہیں کہ معاذ اللہ ان میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان تھا۔ حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سنگین تہمت لگائی گئی ہے، یہ ایوان اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ملک بھر میں فرقہ واریت کے خاتمے اور باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے کچھ غیر ملکی عناصر بیرونی ممالک کی شہہ پر اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہے، سوشل میڈیا نے بھی شرانگیزیاں پھیلانے کی انتہا کردی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں کسی بھی مسلمان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کی پیش کردہ یہ قرارداد ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اس قرارداد کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں دو مختلف معاملات پر تشویش ناک صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ پہلا معاملہ ملک کی بظاہر مظلوم مگر عملاً منہ زور اور عالمی طاقتوں کی منہ چڑھی اقلیت کا ہے جس نے کچھ عرصہ قبل تک ملک میں ’’ربوہ‘‘ کے نام سے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کررکھی تھی۔ اب اگرچہ ’’ربوہ‘‘ کا نام بدل کر اس کا قدیمی نام ’’چناب نگر‘‘ رکھ دیا گیا ہے، مگر عملاً ابھی تک اس کی حیثیت ریاست در ریاست ہی کی ہے، بلکہ اس قرارداد کے متن کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ راز کھلتا ہے کہ ’’چناب نگر‘‘ چنیوٹ نامی جس ضلع میں واقع ہے اس پورے ضلع میں اب تک بظاہر ’’مظلوم اقلیت‘‘ کی حکمرانی ہے، اور منہ زوری کا یہ عالم ہے کہ اس پورے ضلع میں ختمِ نبوت کے حوالے سے کسی پروگرام کا انعقاد تقریباً ناممکن قرار پا چکا ہے، کیونکہ قرارداد ہی کے مطابق ایسا کوئی پروگرام منعقد کرنے والوں کو اشتہار تک چھاپنے یا کسی دوسرے ذریعے سے پروگرام کی تشہیر کرنے کی اجازت ضلعی انتظامیہ کی طرف سے نہیں دی جاتی، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ختمِ نبوت کے حوالے سے پروگرام کا انتظام کرنے والوں کے خلاف پولیس مقدمات درج کرکے انہیں پریشان کرتی ہے۔ ریاست کے اندر ریاست کی اس سے بہتر کوئی دوسری مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
قرارداد میں پیش کیا گیا دوسرا معاملہ او لیول کے نصاب میں پڑھائی جانے والی ایک کتاب ’’اسلام بلیف اینڈ پریکٹسز‘‘ (Islam Belief and Practices) کا ہے جس کے بارے میں قرارداد کے محرک صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی شان میں کھلم کھلا گستاخیاں کی گئی ہیں، ان کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور ان کے خلاف سنگین تہمت طرازیاں کی گئی ہے۔ اسی طرح قرارداد میں سوشل میڈیا کی انتہا پسندی اور شرانگیزیوں کی بھی مذمت کرتے ہوئے انہیں ناقابلِ قبول ٹھیرایا گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے ایوان نے اتفاقِ رائے سے اس قرارداد کی منظوری دے کر ان معاملات میں ملوث عناصر کی مذمت کا اظہار کردیا ہے، مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں، بلکہ اپنے اندر شدید نوعیت کی سنگینی لیے ہوئے ہے۔ یہ قرارداد حزبِ اختلاف کے کسی رکن کی طرف سے پیش کی جاتی تو اس کا معقول جواز ہوسکتا تھا، مگر حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ قرارداد صوبائی کابینہ کے ایک اہم رکن کی طرف سے پیش کی گئی ہے، جو گویا اس بات کا اظہار ہے کہ صوبائی حکومت اور کابینہ اتنی بے بس اور بے اختیار ہیں کہ اپنے صوبے کے ایک ضلع کی انتظامیہ اور پولیس کے آگے بے بس ہیں۔ ورنہ تو سیدھا سا معاملہ تھا کہ اگر وزیر موصوف ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو اپنے دائرۂ کار سے باہر سمجھتے تھے تو وہ متعلقہ وزیر یعنی وزیر داخلہ اور وزیر قانون کو متوجہ کرتے کہ ضلع میں جاری اس لاقانونیت کو رکوائیں۔ اگر معاملہ کسی وجہ سے یہاں بھی حل نہ ہوتا تو وہ اپنے وزیراعلیٰ صاحب کو اپنے اختیارات استعمال کرکے اس ریاست در ریاست کی کیفیت کو ختم کرانے پر آمادہ کرتے۔
یہی معاملہ او لیول کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کتاب اور سوشل میڈیا کی شرانگیزیوں کا بھی ہے۔ جب آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ہماری دینی اقدار کی توہین اور معاشرے میں انتشار کا باعث بن رہی ہے اور ناقابلِ قبول ہے تو آخر آپ کی حکومت اور اس کے قوانین کس مرض کی دوا ہیں؟ انہیں حرکت میں لائیے اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں تعلیم کے نام پر ان صریحاً غیر اسلامی اور ناقابلِ قبول باتوں پر مشتمل اس کتاب کو نہ صرف نصاب سے خارج کرایئے بلکہ اس کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کروایئے کہ یہ معاشرے میں انتشار و افتراق اور اشتعال پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ مگر آپ ہیں کہ اپنے اقتدار و اختیار کو استعمال کرنے کے بجائے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرکے گویا بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں! حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ایسی قراردادوں کی ایک سفارش کے سوا کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی، اور ایوان کی ایسی بے شمار قراردادوں سے ایوان کی لائبریری کی الماریاں بھری پڑی ہیں جن پر عمل کی کبھی نوبت نہیں آئی۔ وزیر موصوف اگر قرارداد میں پیش کردہ نہایت حساس اور سنگین معاملات کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو اپنی حکومت کو حرکت میں لائیں اور ان ناقابلِ قبول معاملات کو رکوائیں، ورنہ کھل کر اپنی حکومت کی بے بسی کا اعتراف کریں، اور محض اعتراف ہی نہ کریں بلکہ وزارت کو ٹھوکر مار کر کابینہ سے باہر آ کر ان معاملات کی اصلاح کے لیے ٹھوس جدوجہد اور واضح لائحہ عمل کا اعلان کریں، معاشرے میں موجود خیر کی تمام قوتیں اُن کے شانہ بشانہ ہوں گی اور پشت پناہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔ لیکن اقتدار اور اختیار کے ایوانوں میں بھی رہنا، وزارت کے مزے بھی لینا اور سیکولر اور دین دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں اور من مانیوں کے خلاف واویلا بھی کرنا قطعی بے معنی اور لاحاصل ہے۔