خودفریبی کا شکار رہنما

پاکستان اور پاکستانی معاشرہ جس شدید قسم کی بے یقینی، بے اعتباری اور بداعتمادی کے بحران کی گرفت میں ہے۔ اس بحران کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک بڑا سبب رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے والوں کا خبطِ عظمت کے مرض میں مبتلا ہونا ہے۔ اس مرض کا شکار کوئی فرد ہو، کوئی جماعت ہو، یا گروہ… وہ خود بھی نقصان اٹھاتا ہے اور پورے سماج کو بھی بگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے بھی بدتر تصویر، باخبر اخبار نویس اپنے کالموں کے ذریعے دکھارہے ہیں، ہمارے قومی امراض کی اصل جڑ یہی ہے، اور اب سنبھلنے کے لیے مزید تاخیر کی گنجائش بھی نہیں رہی ہے۔ جو جتنا بڑا منصب دار ہے اُس پر اتنی ہی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ہادیٔ برحق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت اور پوری انسانیت کو اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے خوداحتسابی کی تعلیم دی ہے۔ جو اس پر عمل نہیں کرتے وہ خودفریبی کا شکار ہوکر خود بھی برباد ہوجاتے ہیں اور دوسروں کی بربادی کا بھی ذریعہ بنتے ہیں، تاریخ اس کی شاہد ہے۔
اس مرض کو ابتدا ہی میں بڑھنے سے نہ روکا جاسکے تو پھر یہ کینسر کے مرض کی طرح پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس کی ابتدا اپنے مخالفین کے خلاف سوقیانہ زبان کے استعمال سے ہوتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے دروغ گوئی، کذب و افترا اور دریدہ دہنی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ کہنا تو درست نہیں ہوگا کہ ہماری سیاست میں اس کا آغاز جناب عمران خان یا تحریک انصاف نے کیا ہے، البتہ جناب عمران خان نے ماضی کے سیاست دانوں کے انفرادی عمل کو ادارہ جاتی عمل میں ڈھالنے کا ’’ورلڈ کپ‘‘ جیت لیا ہے۔ اب اس میدان میں دور دور تک کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے۔ قبل ازیں یہ ورلڈ کپ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے قبضے میں تھا۔ ملکی سیاست میں اس کھیل کا آغاز بھٹو (مرحوم) نے کیا۔ ویسے تو اسکندر مرزا نے سب سے پہلے اپنے اُن سیاسی مخالفین کے خلاف بدزبانی کی تھی جو اُن سے 1956ء کے دستور کے نافذ ہونے کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق بروقت انتخابات کا مطالبہ کررہے تھے۔ سرِعام بدزبانی کرنے والا پہلا شخص اسکندر مرزا (مرحوم) تھا۔ البتہ نجی محفلوں میں ان کے پیشرو گورنر ملک غلام محمد (مرحوم) بھی اپنے مخالفین کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ البتہ بھٹو نے اپنے محسن اسکندر مرزا کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو برے ناموں اور القاب سے پکارنے کی ریت ڈالی تھی، جیسے ائر مارشل اصغر خان (مرحوم) کو ’’آلو خان‘‘، میاں ممتاز دولتانہ (مرحوم) کو ’’چوہا‘‘، خان عبدالقیوم خان (مرحوم) کو ’’ڈبل بیرل خان‘‘، مولانا مودودی (مرحوم) کو ’’اچھرہ کا پوپ‘‘۔
دشنام طرازی اور گالم گلوچ کی سیاست نے ملک کو ہی ناقابلِ تلافی نقصان نہیں پہنچایا، خود اس قبیح فعل کے مرتکب بھی خسارے میں ہی رہے ہیں۔ جناب عمران خان اگر اس کا ادراک کرلیں تو اب بھی ملک کی سیاست کا صحیح رُخ پر ڈالا جانا ممکن ہے، بصورتِ دیگر سیاست میں ان کی خراب کارکردگی ان کی اسپورٹس مین کے طور پر کمائی ہوئی نیک نامی کو گرد آلود کردے گی۔
جناب عمران خان کے جذباتی نعروں اور دعووں کی حقیقت اب سب پر عیاں ہوچکی ہے، ان کی ناعاقبت اندیش پالیسی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک تاریخ کے جس شدید ترین معاشی بحران سے دوچار ہے، اس صورتِ حال سے ملک کو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کے بلیم گیم کے ذریعے نہیں نکالا جاسکتا ۔ زبان دراز بدزبانوں کی وجہ سے اس قوم کو بہت گہرے گھائو لگ چکے ہیں۔ اب بس بھی کرو، بہت خرابی ہوچکی ہے۔
ہمیں بد زبان رہنمائوں نے بگاڑ کی جس نہج پر پہنچادیا ہے اُس سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ ریاست کو آئین کی منشا اور روح کے مطابق چلانے کے لیے اندازِ حکمرانی میں سنجیدگی اور شائستگی اختیار کی جائے۔ پارلیمنٹ ہو یا پارلیمنٹ سے باہر، اظہارِ خیال کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں سب ہی کو حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی سے پاک اچھی حکمرانی قائم کرنا مطلوب ہے تو سارے سیاست دانوں اور تمام ریاستی اداروں کو بانیِ پاکستان قائداعظمؒ کو بہ حیثیت سیاست دان اور بہ حیثیت ریاست کے سربراہ کے رول ماڈل بنانا ہوگا۔ ان کی پوری سیاسی زندگی میں اپنے شدید ترین سیاسی حریفوں کی طرف سے کیے گئے حملوں کے جواب میں سخت سے سخت ایک یہ جملہ مولانا ابوالکلام آزاد (مرحوم) کے بارے میں ملتا ہے، وہ بھی صرف ایک بار جب اُن سے کسی نے سوال کیا تھا کہ کانگریس نے مولانا ابوالکلام آزاد کو اپنا صدر بناکر ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ جس کے جواب میں قائداعظم نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے کانگریس نے ایسا کیا ہے، وہ تو ’’شو بوائے‘‘ ہیں (یعنی دکھاوے کے صدر)۔ جب مولانا آزاد نے کانگریس کی صدارت سے ازخود استعفیٰ دے دیا تو پھر کسی نے سوال کیا تو قائداعظم کا جواب تھا: اب اس سوال کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ قوم کی رہنمائی کے منصب پر فائز راست باز رہنما ہمیشہ ’’بولنے سے پہلے تولنے‘‘ کے مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں، اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں ہی نہیں، اپنے ذاتی دشمنوں تک کو مخاطب کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں حد درجہ احتیاط کرتے ہیں، خاص طور پر اُن کی زبان سے کوئی ایسا لفظ سننے کو نہیں ملتا جس سے خواتین کی تضحیک کا ادنیٰ سا بھی شائبہ پیدا ہوتا ہو۔
مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے مقابلے میں اُس وقت کی حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار بننے پر راضی کیا جس میں جیل میں مقید جماعت اسلامی کی قیادت بھی شامل تھی۔ سرکاری امیدوار کی ہمنوائی کرنے والے علماء نے جنرل ایوب خان کی حمایت کے لیے مادرِ ملّت کے خاتون ہونے کو جواز بنایا تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیع (مرحوم) اور کئی دیگر علماء نے، جو عملی سیاست سے الگ ہوچکے تھے، مادرِ ملّت کی اخلاقی حمایت کی اور اُن علماء کے مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا جو مادرِ ملّت کی مخالفت کے لیے اُن کے خاتون ہونے کو جواز بنا رہے تھے۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے مادرِ ملّت کو حزبِ اختلاف کی طرف سے مشترکہ امیدوار نامزد کرنے کی جیل سے تائید کی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مولانا مودودیؒ سمیت جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو رہائی ملی تو مولانا مودودیؒ نے سب سے پہلے مادرِ ملّت کی حمایت میں کراچی میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ جنرل ایوب خان کے پلّے مرد ہونے کی تہمت کے سوا ہے، جس کو جواز بناکر یہ ایک غاصب حکمران کی حمایت کررہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفوں کو مخاطب کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتیں اور گالم گلوچ بند کریں۔ جو کام عدالتوں کا ہے اُسے اپنے ہاتھ میںنہ لیں، اور نہ وہ کام کریں جس سے مزید خرابی ہو۔ انہوں نے خوامخواہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو طنزیہ طور پر ’’بلاول صاحبہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرکے ایک اور ایسا ایشو اپنے سیاسی مخالفوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے جس سے ان کی جلدی جان نہیں چھوٹے گی۔ اس پر ہر طبقے کا شدید ردعمل بالکل فطری ہے۔ ایران میں دیے گئے غیر محتاط بیان کی وضاحت کی طرح اس کی بھی لاکھ وضاحتیں ان کے ترجمان کرتے رہیں، بلاول بھٹو زرداری کو صاحبہ کہنے پر گھر گھر خواتین ان کے اس جملے کو اپنی تضحیک قرار دے رہی ہیں۔
جنرل ایوب خان نے بھی مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران ایک غیر مہذب جملہ کہا تھا جس سے وہ مرتے دَم تک جان نہیں چھڑا پائے تھے، حالانکہ ایوب خان کے اعلیٰ دماغ ترجمانوں نے بھی اسی طرح کی وضاحتیں پیش کی تھیں جیسی وضاحتیں نئی مشیر اطلاعات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور وزیراعظم کے ترجمان جناب ندیم افضل چن میڈیا کے سامنے دے رہے ہیں۔
جناب وزیراعظم نے ایران کی سرزمین پر ایران کے صدر کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے تئیں کتنی ہی درست بات کی ہو، مگر بحیثیت وزیراعظم پاکستان انہیں اپنے منصب کا ادراک ہونا چاہیے تھا، اور یہ کہ کیا بات کس طرح اور کس جگہ کہنی چاہیے۔ صحیح بات کہنے کے لیے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری اور لازمی ہوتا ہے جتنی کہ بات کے صحیح ہونے کی شرط ضروری ہوتی ہے۔ ایران میں دیے گئے ان کے مؤقف کو ان کے سیاسی مخالف ہی غلط اور غیر محتاط قرار نہیں دے رہے ہیں بلکہ وہ بھی اس سے دلبرداشتہ ہوئے ہیں جو برسوں سے کسی لالچ کے بغیر ان کی جدوجہد میں شریک تبدیلی کے نعرے کے سحر میں مبتلا تھے۔ ایران میں دیے گئے بیان کو بنیاد بناکر عالمی سطح پر پاکستان کی سلامتی کی دشمن قوتیں پاکستان کی مشکلات میں جس طرح اضافہ کررہی ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا وزیراعظم کے ترجمانوں کی وضاحتوں کو کوئی وقعت دے رہا ہے اور نہ ہی تسلیم کررہا ہے۔ پاکستان اس وقت عالمی طاقت وروں کے دبائو کی وجہ سے جن خطرات سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لیے جہاں معیشت کا پہیہ چلنا ازحد ضروری ہے وہیں امورِ مملکت کو آئین کی منشا اور روح کے مطابق چلانا بھی ناگزیر ہوگیا ہے جو ملک کے چاروں صوبوںکو باہم جوڑے رکھنے والی واحد قوت ’’آئین پاکستان‘‘ ہے۔ ریفرنڈم کے ذریعے اس سے چھیڑچھاڑ نہ کرنا قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ اگر ریفرنڈم کے ذریعے 1973ء کے آئین کو صدارتی نظام میں بدلنا اتنا ہی آسان ہوتا تو آئین میں اس مقصد کے لیے ریفرنڈم کی ترمیم منظور کرانے والے ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) اقتدار سے محروم ہونے سے پہلے کرا چکے ہوتے، اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف بھی آئین میں صدارتی نظام کی تبدیلی کرنے سے نہ چوکتے۔ شاید آج کے وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کو یہ علم نہ ہو مگر اُن کے والد محترم (جو نامور قانون دان تھے) کو ضرور معلوم تھا کہ آج کے طاقت ور حکمرانوں کی طرح اُس وقت کے طاقت ور وزیراعظم (جن کی قیادت میں 1973ء میں قوم کو یہ متفقہ آئین نصیب ہوا تھا) بھٹو مرحوم کی بھی شدید خواہش تھی کہ وہ فرانس کی طرح کا نظامِ حکومت لے آئیں جس میں صدر مملکت کا منصب تمام اختیارات کا منبع ہوتا ہے اور وزیراعظم کو نامزد کرنے کا اختیار بھی صدر کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک ایکسپرٹ کو باہر سے بلایا تھا جو اُن کی توقعات کے مطابق کام نہیں کرپایا تھا، جس کے بعد بھٹو مرحوم نے ایک اعلیٰ سطحی وفد جس کی قیادت اُس وقت کے وزیراعظم کے نہایت بااعتماد وفاقی سیکریٹری نے کی تھی، فرانس بھیجا تھا جس کے ذمے فرانس کے دستور کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرنا تھا کہ 1973ء کے دستور کو فرانس کے صدارتی طرزِ حکومت کی طرح کا کس طرح سے بنایا جائے۔ آئین میں ساتویں ترمیم ریفرنڈم کرانے کے مقصد کے لیے منظور کرائی گئی تھی۔ اس رپورٹ کا ابتدائی مسودہ ڈاکٹر انوار حسین صدیقی نے تیار کیا تھا۔
ڈاکٹر صدیقی کو بھٹو مرحوم کی خواہش پر وفد میں شامل کیا گیا تھا، وہ اگرچہ بھٹو صاحب کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے لیکن بھٹو صاحب نے سول سروس میں جو اصلاحات کی تھیں اس کو انہوں نے پسند کیا تھا اور اس کی تائید بھی کی تھی۔ ڈاکٹر انوار حسین صدیقی ’’نیپا‘‘ کراچی کے ڈائریکٹر، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج لاہور کے وائس پرنسپل، جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد کے ڈی جی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آبادکے وائس چانسلر، اور غیر ملکی جامعات میں تدریس کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جس وقت وہ فرانس گئے تھے اُس وقت وہ لاہور میں سول سروس کے اعلیٰ ترین تربیتی ادارے ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ فرانس سے واپسی پر وفد سے وزیراعظم بھٹو نے طویل نشست کی تھی اور ہدایت کی تھی کہ جلد ازجلد رپورٹ تیار کرکے دیں تاکہ میں ریفرنڈم کے ذریعے اُسے آئین کا حصہ بنائوں۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ فرانس جانے والے وفد میں شامل دیگر ارکان میں سے اس وقت ڈاکٹر انوار حسین صدیقی کے علاوہ کوئی حیات ہے یا نہیں؟
بھٹو نے ریفرنڈم کی آئینی ترمیم تو کسی دقت کے بغیر منظور اس وجہ سے کرا لی تھی کہ پوری حزبِ اختلاف نے 1977ء کے الیکشن کے نتائج کو مسترد کرکے اسمبلی کا حلف اٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس الیکشن میں ریاستی مشینری کے ذریعے منظم انداز میں دھاندلی کی گئی ہے۔ تاہم ریفرنڈم کرانے کی نوبت اس وجہ سے نہیں آسکی تھی کہ اُس وقت کے اٹارنی جنرل پاکستان غلام علی میمن مرحوم نے کئی قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد بھٹو کو یہ رائے دی تھی کہ وہ ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام لانے کا ارادہ ترک کردیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل نے غیر رسمی ملاقات میں اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس یعقوب علی خان (مرحوم) سے بھی مشاورت کی تھی۔ اُن کی رائے میں تو ساتویں آئینی ترمیم بھی اس وجہ سے متنازع ہوجائے گی کہ یہ اُس اسمبلی نے منظور کی ہے کہ جس کا پوری حزب اختلاف کے منتخب ارکان نے حلف اٹھانے سے ہی انکار کردیا اور ملک میں اس کے خلاف تحریک بھی چل رہی ہے۔ اب تو دو تہائی اکثریت سے کیا، 100 فیصد پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی آئین میں صدارتی نظام لانے کی تبدیلی ممکن نہیں ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح میں پارلیمانی نظام حکومت کو آئین کے اساسی خدوخال کا حصہ قرار دے چکی ہے۔
بندوق کی نوک پر اقتدار پر قبضہ کرنے والے غاصب حکمرانوں نے ملک پر کئی عشروں تک صدارتی نظام کے ذریعے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کا جو تجربہ کیا تھا اُس نے طبقاتی تقسیم کو گہرا کرنے‫، فرقہ واریت کے عذاب، کلاشنکوف کلچر کے فروغ، زبان اور نسل کی بنیاد پر علاقائی سیاست اور ملک کو دولخت کرنے کے سوا دیا کیا ہے کہ اب اس میں اسلامی صدارتی نظام کا لاحقہ لگا کر نئی بوتل میں پرانی شراب کے فیوض و برکات کا درس دیا جارہا ہے! قوم کی بدقسمتی تو دیکھیے، وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں خیبرپختون خوا کے گورنر فرمان علی شاہ نے حلف تو اُس آئین کے تحت اٹھایا ہے جس میں پارلیمانی نظام حکومت آئین کی اساس میں شامل ہے، وہ بھی ٹی وی پر آکر صدارتی نظام کے فیوض و برکات بیان کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خود وفاقی کابینہ میں نصف کے قریب غیر منتخب لوگوں کو شامل کرکے اور انہیں اہم وزارتیں سونپ کر عملاً ٹیکنو کریٹک صدارتی نظام کی طرف مراجعت شروع کردی ہے… اللہ خیر کرے۔