’’اب جب کہ مارک زکر برگ (فیس بُک مالک)آن لائن کمیونٹی کو متحد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ آف لائن دنیا کے حالیہ واقعات ’تہذیبوں کے تصادم‘ میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ بہت سے سیاست دان، ماہرین، عام لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی، داعش کا عروج، بریگزٹ کا بحران اور یورپی یونین میں عدم استحکام کا سبب مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا تصادم ہے۔ مغرب کی جانب سے مسلمان قوموں پر انسانی حقوق جبراً مسلط کرنے کی کوششوں کا بُرا نتیجہ نکلا، اسلامی دنیا سے پُرتشدد ردعمل سامنے آیا۔ مسلمان تارکینِ وطن اور دہشت گرد حملوں نے یورپی ووٹرز کے بین الثقافتی ہم آہنگی کے خواب تتربتر کردیے۔ وہ مقامی شناختوں کے حوالے سے متعصب ہوگئے۔ نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے مطابق انسانیت ہمیشہ سے مختلف تہذیبوں میں پروان چڑھی ہے، ان تہذیبوں کے نمائندوں نے دنیا کو غیر مصالحانہ نظر سے دیکھا ہے۔ ان ناموافق نظریات نے تہذیبوں میں تصادم کو ناگزیر بنادیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فطری چناؤ کے قوانین کے تحت بہت سی انواع اپنی بقا کے لیے لڑتی رہی ہیں۔ لہٰذا پوری تاریخ میں تہذیبیں باہم جنگوں سے گزری ہیں ، اور باقی رہ جانے والی تہذیب نے فتح کے گیت گائے ہیں۔ جو لبرل سیاست دان اور انجینئر اس تلخ حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے سیاسی اثرات دوررس ہیں۔ اس کے حامی یقین رکھتے ہیں کہ ’مسلمان دنیا‘ اور مغرب میں مصالحت کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ مسلم ریاستیں کبھی بھی مغربی اقدار نہیں اپنائیں گی، اور مغربی ممالک کبھی بھی مسلمان اقلیتوں کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ کو شام اور عراق کے تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں داخلے سے روکنا چاہیے اور یورپی یونین کوکثیرالثقافتی خودفریبی سے نکل جانا چاہیے اور اپنی مغربی شناخت کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کیونکہ بالآخر فطری چناؤ کی آزمائشوں سے گزر کر ایک ہی تہذیب کو باقی اور غالب رہنا ہے۔ اگرچہ نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کو قبولِ عام حاصل ہے۔ مگر یہ نظریہ گمراہ کُن ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی یقیناً انقلابی خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر یہ خطرہ مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ عالمی ’تہذیب‘ کو درپیش ہوگا۔‘‘
(21 Lessons for 21st Century, Yuval Noah Harari, Chapter Civilization)
مذکورہ اقتباس میں تہذیب کی تعریف اور تاریخ جن گمراہیوں میں الجھی ہوئی ہیں، وہ آخری پانچ صدیوں پر پھیلی ہیں۔ اس کا آغاز بدترین احسان فراموشی سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عظیم علمی وسائنسی خدمات اور کارناموں پر تاریخی نقب لگائی گئی۔ علمی وتہذیبی احسانات کا صلہ صلیبی دہشت گردی اور یورپ سے جبری انخلا کی صورت میں سامنے آیا۔ یورپ نے اسلامی تہذیب کی درخشاں روایات پر جعلی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کی بنیادیں قرطبہ، اشبیلیہ، اور غرناطہ کے علمی مراکز میں صدیوں قبل رکھی جاچکی تھیں۔ مختصر یہ کہ صرف اسلام نہیں، مذہب مجموعی طور پر یورپ سے دیس نکالا گیا۔کاغذ اور چھاپے خانے کی ایجادات اور فراوانی نے فکروفلسفے کی رفتار بے مثل بنادی۔ معاملات کلیسا سے بادشاہتوں اور قومی ریاستوں کی حاکمیتِ اعلیٰ تک گئے۔ اطالوی فلسفی میکیاولی نے قوم اور وطن پرستی میں یورپ کے ٹکڑے کیے۔ ماہرِ حیاتیات چارلس ڈارون نے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا۔ انسانی تہذیب قوم پرستی سے نسل پرستی کی بدترین صورت اختیار کرگئی۔ گورے بندروں کی اعلیٰ نسل قرار دیے گئے۔ جرمن اور سامی النسل درجہ بندی نے ہٹلر اور مسولینی جیسے سفاک حکمرانوں کی راہ ہموار کی۔ برطانوی سامراج نے بدترین نوآبادیاتی دنیا تخلیق کی۔ ہر جانب تہذیب زوال پذیر ہوئی۔ امریکی استعمار نے بچی کھچی تہذیب ٹیکنالوجی میں جھونک دی۔ آج جس تہذیب کی تعریف وتوصیف پروفیسر ہراری مذکورہ اقتباس میں فرما رہے ہیں، اُس کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ تہذیب آن لائن دنیا میں پائی جاتی ہے، اور انسانوں سے اُن کی روح کے بعد اُن کے دل ودماغ، اُن کے اجسام، اور اُن کی توجہ تک چھین لینا چاہتی ہے۔ یہ ہے وہ تہذیب جس کی کوئی زمینی حقیقت موجود نہیں، اور اس کی کوئی وجودی افادیت نہیں۔
معرکۂ خیر و شر ازل سے برپا ہے۔ مذکورہ ’عالمی آن لائن تہذیب‘ جاہلیتِ خالصہ کی جدید ترین صورت ہے۔
قابیل سے قومِ نوح، اور مصری فراعنہ سے ابوجہل تک، اور پوپ اربن دوم سے فرانسس بیکن، اور ڈارون سے نوح ہراری تک یہ جاہلیتِ خالصہ مسلسل اسلام سے متحارب رہی ہے۔ مجددِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام اور جاہلیت کے اس تصادم کی نوعیت اور کیفیت مدلل پیرائے میں بیان کی ہے۔ ’’تجدید احیائے دین‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جاہلیتِ خالصہ کہتی ہے، کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامۂ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کارفرما نہیں ہے۔ یونہی بن گیا ہے، یونہی چل رہا ہے، اور یونہی بے نتیجہ ختم ہوجائے گا۔ اس کا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے، جو دوسری چیزوں کی طرح شاید اتفاق سے یہاں پیدا ہوگیا ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اس کو کس نے پیدا کیا اور کس لیے پیدا کیا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے، کچھ قویٰ اور کچھ آلات رکھتا ہے، جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور اپنے گردوپیش زمین کے دامن پر بہت سا سامان پھیلا ہوا دیکھتا ہے جن پر یہ اپنے ان قویٰ اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشوں کی تکمیل کرسکتا ہے، لہٰذا اس کی زندگی کا مقصد اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعتِ حیوانی کے مطالبات پورے کرے، اور اس کی انسانی استعدادوں کا مصرف اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے بہتر سے بہتر ذرائع فراہم کرے۔ انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہیں ہے جہاں سے اسے اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو، لہٰذا اسے اپنے گردو پیش کے آثار و احوال سے اور اپنی تاریخ کے تجربات سے خود ہی ایک قانون عمل اخذ کرنا چاہیے۔ بظاہر کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو، اس لیے انسان بجائے خود ایک غیر ذمے دار ہستی ہے، اور اگر یہ جواب دہ ہے بھی تو آپ اپنے ہی سامنے ہے، یا پھر اُس اقتدار کے سامنے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہوکر افراد پر مستولی ہوجائے۔
اسلام کہتا ہے، یہ سارا عالمِ ہست و بود جو ہمارے گردو پیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جزو ہم خود ہیں، دراصل ایک بادشاہ کی سلطنت ہے۔ اُسی نے اسے بنایا ہے، وہی اس کا مالک ہے، اور وہی اس کا واحد حاکم ہے۔ اس سلطنت میں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ سب کے سب تابع فرمان ہیں اور اختیارات بالکلیہ اسی ایک مالک و فرماں روا کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان اس مملکت میں پیدائشی رعیت ہے۔ یعنی رعیت ہونا یا نہ ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں، بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جسے ابتدا سے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے آئے ہیں۔ اس نظریے کی بنیاد پر تمام واقعاتِ عالم کی مکمل توجیہ ہوتی ہے، کائنات کے تمام آثار کی پوری تعبیر ملتی ہے، اور کسی مشاہدے یا تجربے سے یہ نظریہ ٹوٹتا نہیں… اس کے بعد تمدن کی تفصیلی صورت جو اِس بنیاد پر بنتی ہے اس کا سارا نقشہ دنیا کے دوسروں نقشوں سے بدلا ہوا ہوتا ہے۔ طہارت، لباس، خوراک، طرزِ زندگی، معاشرتی رسوم، مجلسی طریقے، انسان اور انسان کے تعلق کی مختلف شکلیں، لین دین کے معاملات، دولت کی تقسیم، مملکت کا انتظام، حکومت کی تشکیل، امیر کی حیثیت، شوریٰ کا طریقہ، سول سروس کی تنظیم، قانون کے اصول، جنگ و صلح کے معاملات تک اس تمدن کا طور و طریق اپنی ایک مستقل شان رکھتا ہے، اور ہر ہر جُز میں ایک واضح خطِ امتیاز اسے دوسرے تمدنوں سے الگ کرتا ہے۔‘‘
قرآن حکیم اس باب میں واضح کرتا ہے کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور بے شک باطل کو مٹنا ہی ہے۔‘‘(سورہ اسراء، 81)
’’اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔‘‘(سورہ انفال، 39)
یہ واضح ہے کہ انسانی تاریخ میں مجموعی طور پر دو ہی تہذیبیں متصادم رہی ہیں، اور آج بھی ہیں، جیسا کہ پروفیسر ہراری نے کہا ہے کہ ’’اسلامی بنیاد پرستی یقیناً انقلابی خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر یہ خطرہ مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ عالمی ’تہذیب‘ کو درپیش ہوگا‘‘۔ لہٰذا اب تہذیب کی بقا کا انحصار اسلامی تہذیب کی بقامیں ہے۔ تہذیبوں کے تصادم میں احیائے تہذیب یعنی احیائے اسلام کی حکمت عملی کیا ہو؟ ظاہر ہے یہ داخلی اصلاح کا معاملہ ہے، اور اسے سمجھنے کے لیے خطبہ حجۃ الوداع نسخۂ کیمیا ہے۔
اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ لوگو! بے شک تمہارا رب ایک اللہ ہے۔
عربی کو عجمی، اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔
امورِ جاہلیت میں سے ہر چیزآج میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔
تم سب آدم کی اولاد ہو، اورآدم مٹی سے تھے۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، سب مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔
جاہلیت کے تمام دعوے باطل کردئیے گئے۔
اب تمہارے خون، عزتیں، اور اموال ایک دوسرے پرحرام کردئیے گئے۔
میرے بعد گمراہی میں پڑکرایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگنا۔
اگر کوئی حبشی بھی تم پرحاکم بنادیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق چلے تواس کی اطاعت کرنا۔
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
تمہارا عورتوں پراور عورتوں کا تم پر حق ہے۔
غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔
کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھام لو،کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔‘‘
پھراس عظیم الشان اجتماع کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’کیا میں نے تم تک اللہ رب العزت کا پیغام پہنچادیا؟
جواب آیا ’’جی ہاں اللہ کے رسولؐ، آپ نے پہنچادیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’اے اللہ گواہ رہنا!‘‘
آیتِ قرآنی کا نزول ہوا… رب العزت نے فرمایا ’’آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی، اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا۔‘‘
یہ تھا خطبہ حجتہ الوداع، جس نے انسانی رویوں میں انقلاب برپا کیا، اور تا قیامت یہی نسخہ انقلابِ عالم رہے گا، احیائے تہذیب کاکوئی دوسرا رستہ نہیں۔