کتاب : سوانحِ سرسیّد
ایک باز دید
مصنف : شافع قدوائی
صفحات : 150، قیمت200 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلس ترقی ادب
نر سنگھ داس گارڈن، کلب روڈ لاہور
فون : 042-99200856-99200857
ای میل : maglista2014@gmail.com
ویب گاہ : www.mtalahore.com
یہ ایک مختصر اور اہم کتاب ہے جو حیاتِ سرسیّد پر تحریر کی گئی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی رقم طراز ہیں:
’’برعظیم کے مسلم اکابرین میں سرسیّد (1898-1817ء) ہمارے علمی و فکری حلقوں میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی نثری تحریروں اور تعلیمی و تہذیبی کاوشوں کا تنوع حیرت انگیز ہے۔ 2017ء میں ان کی ولادت پر دو سو برس ہونے کو آئے تو اس مناسبت سے بہت سے علمی اداروں نے ان کی دو صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا اور ان پر کئی عمدہ کتابیں منظرعام پر آئیں۔ انہی میں ایک کتاب ’’سوانح سرسیّد: ایک بازدید‘‘ بھی ہے جو ڈاکٹر شافع قدوائی (پ:28جون 1960ء) کے قلم سے نکلی۔ اپنے عمدہ لوازمے اور قیمتی معلومات کے باعث مجلس کے اربابِ نظر نے بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اسے اپنے اشاعتی پروگرام میں شامل کیا۔
ڈاکٹر شافع قدوائی اگرچہ ابلاغیات (ترسیلِ عامہ) کے استاد ہیں مگر ان کی علمی تگ و تاز کا میدان بڑا وسیع ہے۔ وہ اُردو ادب، فکشن اور مابعد جدید فکریات سے بڑی سنجیدگی سے وابستہ ہیں۔ تجسس اور تفحص ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ایک ممتاز علمی خانوادے کا فرد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے متعدد قابل قدر علمی و اکتشافی خصوصیات ورثے میں پائی ہیں۔ وہ اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بڑی سہولت اور سلیقے سے اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔ پیش نظر کتاب میں انہوں نے سرسیّد کے سوانح سے تعرض کیا ہے اور اس باب میں بعض مسلّمات سے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے سرسید کے رسالے ’’علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ کو بڑی دِقّتِ نظر سے کھنگالا ہے اور اس کے فائلوں میں پائی جانے والی نادر معلومات کی روشنی میں بعض اہم انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ’’حیاتِ جاوید‘‘ (حالی) کے بعض بیانات کی تصحیح کی ہے بلکہ ’’سرسیّد درونِ خانہ‘‘ کے مؤلف افتخار عالم کے بعض خیالات سے بھی اختلاف کیا ہے۔ نیز ’’حیاتِ جاوید‘‘ کے ایک اہم ماخذ یعنی حیاتِ سرسیّد کے مصنف منشی سراج الدین کے ضمن میں بھی سیر حاصل معلومات فراہم کی ہیں۔ سرسیّد پر اُردو کی یہ اوّلین سوانح حاجی محمد اسماعیل رئیس دتاولی کے ایما پر لکھی گئی مگر بہ وجوہ شائع نہ ہوسکی تھی۔
سرسیّد پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب وہ تمام سائنسی اور انسانی علوم کو طالب علموں کی اپنی مادری زبان میں پڑھائے جانے کے حق میں تھے، مگر بعدازاں اُنہوں نے ان علوم کی تحصیل کے لیے انگریزی زبان بطور ذریعہ تعلیم کی وکالت کرنا شروع کردی۔ یہ مؤخرالذکر مؤقف ہمارے ہاں ان کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ زور پکڑتا گیا۔ نتیجتاً ہم آج تک… قریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود… انگریزی زبان (گو کہ اس کا جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی اور اُردو زبانوں کی طرح ایک بڑی علمی زبان ہونا برحق ہے) کے استعمار سے نجات حاصل نہیں کرسکے۔ اس ضمن میں پیشِ نظر کتاب میں فاضل مصنف نے سرسّید کے مؤقف کی جزوی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی ذہنی تحفظ کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ سرسیّد کی یہ فکر نوآبادیاتی طرزِ فکر کی چغلی کھاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک زبان اور ثقافت کی سطح پر محکومی کو تسلیم کرنا بلکہ اسے کامیابی کی اوّلین شرط گردانا محلِ نظر ہے۔
’’سوانح سرسیّد: ایک بازدید‘‘ مطالعاتِ سرسیّد کے باب میں ایک معروضی اور مدلل علمی اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر شافع قدوائی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی اس عمدہ تالیف کو مجلس ترقی ادب کے زیراہتمام شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی‘‘۔
انتظار حسین نے روزنامہ ڈان 30 مئی 2010ء میں اپنے تبصرے میں لکھا:
’’اس کتاب میں پروفیسر قدوائی نے خصوصی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جدیدیت کے امکانات کے متلاشی کے طور پر سرسیّد کے رول کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سرسیّد نے ہر لحظہ تبدیل پذیر معاشرتی حقائق کو سمجھنے کے لیے ایک جدید رویّے کی آبیاری پر خاصی محنت کی، اور انہوں نے روایت پسندی اور ظلمت پسندی کو رد کرتے ہوئے تجسّس کے جذبے کی تائید کی‘‘۔
پروفیسر ریاض الرحمن شروانی کی رائے ہے:
’’ہمارے نزدیک اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ سرسیّد کی صحافتی زندگی اور اس میدان میں اُن کے کارناموں سے اتنی شرح وبسط اور اس ژرف نگاہی سے پہلی مرتبہ بحث کی گئی ہے۔ اس وقت علی گڑھ میں سرسیّد پر جو اہلِ علم و قلم کام کررہے ہیں انہوں نے نئی نئی راہیں تلاش کی ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی نے اس میں جرنلزم کا اضافہ کیا ہے‘‘۔
پروفیسر صغیر افراہیم مدیر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کی برعظیم کے علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔ “Aligarh’s First Generation Muslim Solidarity with British” کے مصنف پروفیسر ڈیوڈ لیلی ولڈ نے اس کتاب میں شامل ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے تفصیلی مطالعے کو سرسیّد شناسی کی سب سے اہم کوشش قرار دیا ہے۔ معروف افسانہ نگار انتظار حسین نے پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار Dawn میں اس کتاب پر ایک کالم لکھا۔ دی ہندو، دی انڈین ایکسپریس، دی پائنیر اور مسلم بُک ریویو (لندن) میں اس کتاب پر توصیفی تبصرے شائع کیے گئے۔ اردو میں بھی متعدد اہم ادیبوں نے اس کتاب پر اظہارِ خیال کیا۔ پروفیسر ریاض الرحمن شروانی نے ’’کانفرنس گزٹ‘‘ میں تبصرہ لکھا اور محقق ڈاکٹر صفدر امام قادری نے رسالہ ’’آمد‘‘ میں اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھا‘‘۔
مجلس ترقی ادب نے اپنے حسین اسلوب میں سفید کاغذ پر مجلّد طبع کی ہے۔ یہ کتاب جرمنی اور بھارت سے انگریزی میں طبع ہوئی، اس کا عنوان ہے:
Forging Bond with Modernism: An Assessment of Sir Syed’s periodicals Cementing Ethics with Modernism: An Appraisal of Sir Syed Ahmed Khan’s Writings
اس کتاب کا اردو ترجمہ تہذیب الاخلاق میں دو سال تک چھپتا رہا ہے۔
شافع قدوائی حبیب احمد قدوائی کے صاحبزادے ہیں، ان کی والدہ حمیرا خاتون بنتِ مولانا عبدالماجد دریا بادی ہیں۔ یہ ایک علمی خانوادہ ہے۔
لسانیاتِ مسعود
کتاب : لسانیاتِ مسعود
مصنف : ڈاکٹر مسعود حسین خان
ترتیب و تدوین : ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری/ ندیم حسن
صفحات : 240
ناشر : دارالنوادر، الحمد مارکیٹ، اردوبازار لاہور
فون : 042-37300501/0300-8898639
ڈسٹری بیوٹرز : کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمد مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور
فون نمبر : 042-37320318
فیکس : 042-37239884
فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار لاہور
فون : 021-32212991/32629724
موجودہ علمی دنیا میں لسانیات پر تحقیق کا بازار گرم ہے، ضروری ہے کہ اردو میں بھی اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر بادشاہ صاحب نے مسعود حسین خان کے مقالات اس کتاب میں جمع کردیے ہیں۔ ڈاکٹر بادشاہ / ندیم حسن لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر مسعود حسین 28 جنوری 1919ء کو قائم گنج میں مظفر حسین خان کے ہاں، جمن خان کی حویلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی تین چار برس کے ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ انہیں لے کر محلہ پتورہ چلی آئیں، لیکن محض دو سال بعد وہ بھی چل بسیں۔ ابتدائی تعلیم پتورہ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد 1927ء تا 1933ء جامعہ ملیہ میں زیرتعلیم رہے۔ اسی دوران میں محمود حسین خان جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بحیثیت ریڈر تعینات کیے گئے تو وہ اپنے ساتھ مسعود حسین خان کو بھی لے گئے۔ جہاں آرمنی ٹولہ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ سے انہوں نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ڈھاکہ میں داخلہ لیا۔ 1939ء میں اینگلو عربک کالج سے بی اے کرنے کے بعد علی گڑھ کے شعبہ تاریخ میں داخلہ لیا لیکن پروفیسر مجیب کی ترغیب پر شعبۂ اردو میں منتقل ہوگئے، جہاں پروفیسر رشید احمد صدیقی اور پروفیسر آلِ احمد سرور ان کے خاص اساتذہ تھے۔ 1945ء میں علی گڑھ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہیں بحثیت اردو لیکچرر کے تقرر ہوگیا۔ 1948ء میں اُن کا پی ایچ ڈی مقالے کا پہلا ایڈیشن ’’تاریخِ زبانِ اردو‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ 1950ء میں اسکول آف اورینٹل اینڈ آفریکن اسٹڈیز (SOAS) لندن سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ لیا اور پروفیسر فرتھ کی شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ کچھ اختلافات کی وجہ سے جلد ہی پیرس منتقل ہوگئے اور وہاں سے ’’ڈی لِٹ‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔
1959ء میں خاندان سمیت امریکہ چلے گئے، وہاں سے فیلو شپ ختم ہونے پر 1960ء میں واپس علی گڑھ آگئے، 1962ء میں ان کا تقرر بحیثیت صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی میں کیا گیا۔ 1973ء میں جامعہ اردو علی گڑھ کے شیخ الجامعہ مقرر ہوئے۔ 1973ء میں وائس چانسلر جامعہ ملیہ نئی دہلی مقرر ہوئے۔ علی گڑھ سے شروع ہونے والا ملازمت کا یہ سفر 1981ء میں علی گڑھ پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ مسعود حسین خان کی ادبی خدمات کی کئی ایک جہتیں ہیں جن میں تحقیق، تنقید، لسانیات، ادب، لغت نویسی اور تخلیقی خدمات سرفہرست ہیں۔ موجودہ دور کے ماہرینِ لسانیات میں ان کا نام اور خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے مطالعے کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ 1948ء میں ان کا مقالہ کتابی صورت میں ’’مقدمہ تاریخ زبانِ اردو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کتاب کو نہ صرف ادبی حلقوں میںپذیرائی ملی بلکہ اسے مختلف جامعات کے نصابوں میں بھی شامل کیا گیا۔ ان کی دوسری اہم کتاب ’’اردوکا المیہ‘‘ ہے جسے ان کے شاگرد مرزا خلیل احمد بیگ نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں اُن کے ہماری زبان کے لیے لکھے گئے اداریے، اور ’’میرا سفر‘‘ میں شامل مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں، جو 1973ء میں شعبہ لسانیات مسلم یونیورسٹی نے شائع کیے۔ اس کتاب میں لگ بھگ اٹھائیس اداریے اور اُنیس مضامین شامل ہیں۔ صوتیات کے حوالے سے ان کی انگریزی کاوش کو مرزا خلیل احمد بیگ نے اردو میں ترجمہ کرکے ’’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے 1986ء میں شائع کیا۔ یہی مضمون 1989ء میں ’’اردو لفظ صوتی و تج صوتیاتی تجزیہ‘‘ کے نام سے مقالاتِ مسعود میں بھی شائع ہوا۔ اصل مقالہ کتابی شکل میں 67 صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ مقالاتِ مسعود میں اس کے صفحات کی تعداد 47 ہے۔ جنوری 1988ء میں انہوں نے ’’اردو زبان، تاریخ، تشکیل، تقدیر‘‘ کے عنوان سے علی گڑھ یونیورسٹی میں خطبہ دیا جو لسانی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر شعبہ لسانیات علی گڑھ نے 1988ء میں اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اسی طرح ’’اردو میں صوتیاتی خاکہ‘‘ مقالاتِ مسعود میں لسانی حوالے سے ایک اہم مضمون ہے۔ لسانی مباحث پر مشتمل ان کے دو مضامین ’’قومی یک جہتی اور ہندوستانی زبان‘‘، ’’لسانی چہ مگوئیاں‘‘ بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ مسعود حسین خان نے ہندوستان میں اردو کی لڑائی جس خوبی سے لڑی اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اردو کی لڑائی ہمیں دو محاذوں پر لڑنا ہوگی، سیاست کے میدان میں اور اپنے گھر کے آنگن میں۔ گھر کے آنگن کی لڑائی کو بنیادی سمجھتا ہوں، اس لیے کہ کسی بھی تہذیب کی اساس میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ 34 ’’اردو زبان تاریخ، تشکیل، تقدیر‘‘۔ شعبہ لسانیات، علی گڑھ 1988ء)
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’صوتیات‘‘، باب دوم ’’زبان کا ارتقاء‘‘، باب سوم ’’زبان، رسم الخط اور قواعد‘‘، باب چہارم ’’لغت نویسی‘‘، باب پنجم ’’تنقید‘‘۔
کتاب خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔