سری لنکا میں خودکش حملوں کے بعد عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔سری لنکا کے صدر میتھریپال سریسینا کے دفتر نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کی یقین دہانی کے لیے ایسے کسی بھی لباس پر پابندی ہے جو ‘چہرے کی شناخت میں رکاوٹ’پیدا کرے۔ لیکن ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ یہ مسلم خواتین کے خلاف تعصب ہے کیونکہ بعض خواتین کے لیے ایسا لباس مذہب کا لازمی جزو ہے۔
اس سے قبل سری لنکا کے علاوہ بھی دنیا میں کئی جگہوں پر برقع پرپابندیاں عائد ہے۔فرانس پہلا یورپی ملک ہے جہاں 2011 ءمیں برقعے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔چیلنج کیے جانے کے باوجود اس پابندی کو انسانی حقوق کے یورپی کورٹ نے جولائی 2014 ء میں برقرار رکھا۔ڈنمارک میں جب اگست 2018 ءمیں برقعے پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ وہاں کے قانون کے مطابق جو کوئی بھی ایسا لباس پہنتا ہے جس سے پورا چہرہ چھپ جائے تو اسے ایک ہزار کرونے یعنی 150 ڈالر سے زیادہ (157) کا جرمانہ ہو گا اور اگر دوبارہ ایسا کیا گیا تو جرمانہ دس گنا زیادہ ہو گا۔نیدرلینڈ کی پارلیمان نے جون 2018 ءمیں عوامی مقامات جیسے اسکول،اسپتال اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی جو پوری طرح سے چہرے کو ڈھانپ دے۔ اگر آپ سڑک پر ہیں تو اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔جرمنی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے نقاب غیر قانونی ہے۔ جرمنی کے ایوان زیریں نے ججوں، سرکاری ملازمین اور فوجیوں کے لیے جزوی پابندی کی منظوری دے رکھی ہے۔ جو خواتین نقاب کرتی ہیں انھیں بھی شناخت کے لیے اپنے چہرے سے نقاب ہٹانا ضروری ہے۔آسٹریا میں اسکول اور عدالت میں برقعے پر پابندی اکتوبر 2017 ءمیں عائد کی گئی تھی۔بیلجیئم میں برقعے پر جولائی 2011 ءمیں پابندی عائد کرنے کا قانون منظور ہوا۔ اس کے تحت پارک اور سڑک جیسے عوامی مقامات پر ایسے ہر لباس پر پابندی عائد کی گئی جس سے پہننے والے کی شناخت میں دشواری ہو۔ناروے میں جون 2018 ءمیں ایک بل منظور ہوا جس کے تحت تعلیمی ادارے میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔بلغاریہ کی پارلیمان نے 2016 ءمیں ایک بل منظور کیا جس کے تحت ان خواتین پر جرمانے اور سرکاری فوائد سے محروم کیے جانے کی بات کہی گئی جو عوامی مقامات پر برقعہ پہنیں۔لگزمبرگ میں بھی اسپتال، عدالت، اور سرکاری عمارتوں میں برقعے پر پابندی ہے۔اٹلی بھی اس میں شامل ہے جہاں بہت سے شہروں میں نقاب یا برقعے پر پابندی عائد ہے۔ ان شہروں میں نوارا بھی شامل ہے جس کا انتظام و انصرام تارکین وطن مخالف ناردرن لگ کے ہاتھوں میں ہے اور یہاں پابندی 2010 ءمیں عائد کی گئی تھی۔اسپین کے شہر بارسلونا میں مخصوص مقامات میں برقعے پر 2010 ءمیں پابندی لگائی گئی تھی اور کوئی میونسپل دفاتر، سرکاری بازار اور لائبریریوں میں برقعہ نہیں پہن سکتا۔چاڈ، گبون اور کیمرون کے شمالی علاقوں، نائیجر کے ڈیفا علاقے اور کانگو جمہوریہ میں برقعے پر 2015 ءمیں پابندی لگائی گئی تھی۔الجیریا میں سرکاری ملازمین پر نرقعہ پہننے پر اکتوبر 2018 ءسے پابندی ?عائد ہے۔چین کے سنکیانگ علاقے میں عوامی مقامات پر برقعہ یا نقاب پہننا یا غیر معمولی طور پر لمبی ڈاڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ (بی بی سی اردو)
الوداع، نصرت نصراللہ، الوداع !۔
جب میں کراچی میں اترا تو ستّرویں عشرے کا ابتدائی دور تھا۔ بھٹو کا زمانہ شروع ہوچکا تھا۔ اردو کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل چکا تھا۔ اس شہر نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پھر میں اس شہر کا ہوکر رہ گیا۔ یہاں کی ادبی فضائوں کا میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ یہ مگر ایک الگ دنیا تھی۔ نظریاتی اور باعمل لوگوں کی خوشگوار دنیا۔ نصرت نصراللہ سنا ہے اسلامی جمعیت طلبہ میں رہا تھا۔ اس نے انگریزی میں ماسٹر کررکھا تھا۔ ایک نہایت باذوق اور نفیس مزاج پایا تھا۔ اُن دنوں مارننگ نیوز کے نام سے ایک روزنامہ ہوا کرتا تھا جو ملک ٹوٹنے سے پہلے ڈھاکا سے بھی نکلا کرتا تھا، یہ اس کا حصہ تھا۔ خاندانی وجاہت بھی ایسی تھی کہ رشک کرسکتا ہے۔ عمر قریشی، نصرت کے ماموں تھے۔ عمر قریشی جیسی انگریزی کس نے بولنا ہے یا لکھنا ہے! کرکٹ کے کمنٹیٹر، بھٹو کے دوست اور کلاس فیلو۔ میرے بھی دوست اس لیے کہ انہوں نے اپنی کتاب دیتے ہوئے اس پر یہی لکھا تھا۔ وہ غالباً 9 بھائی تھے، جن میں دو ایک سے میں ملا ہوں۔ وہ بھی الگ سے اپنی اپنی جگہ ادارہ تھے۔ ان کی جیسا کہ مجھے یاد ہے کہ صرف ایک بہن تھی جو نصرت کی والدہ تھیں۔ تدریس اور صحافت دونوں پیشوں سے وابستہ رہیں۔ ایک شاندار عورت تھیں۔ ان کے والد یعنی عمر قریشی کے والد، متحدہ ہندوستان میں پوسٹ ماسٹر جنرل تھے۔ مگر نصرت بالکل قلندر آدمی تھا۔ ادب اور صحافت میں ڈوبا ہوا۔ ایک دن میں نصرت کے دفتر پہنچا تو یہ ایک مشہور اداکارہ کی تصویر کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے یا جسم کو نہیں، اس کی ایڑیوں کو۔ مجھے دیکھ کر چونکا۔ کہنے لگا: نہیں پتا ہے کہ ان ایڑیوں کی انشورنس اتنے لاکھ(آج کے کروڑوں) میں ہوئی ہے، میں دیکھ رہا ہوں اس میں کیا خوبی ہے۔ مجھے اپنے استاد یاد آئے خواجہ احمد دین، جنہیں ہم بابا جی کہتے تھے، وہ میرے استاد بھی تھے، ہمسائے بھی اور رشتے دار بھی۔ بچپن ہمارا اُن کے پاس گزرا۔ اُن کی پوتی، مَیں اور ہمارے ایک عزیز ہم تینوں اکٹھے اُن سے پڑھا کرتے تھے۔ کمال کے استاد تھے۔ بالکل گھر کا ماحول تھا، مگر بڑا سخت گیر ماحول۔ ایک دن ایک نسوانی چہرے کی تصویر ہمیں پکڑا کر سوال کیا کہ بتائو اس میں کیا چیز خوبصورت ہے، یا کیا بات اسے خوبصورت بناتی ہے آنکھ، ہونٹ، ماتھا یا کچھ اور؟ ہم ایک ایک چیز کو پرکھنے کے لیے باقی حصوں کو ڈھانپ کر جائزہ لیتے، پھر الگ بتاتے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کی ابتدائی تعلیم ہم نے ایسے ہی اساتذہ سے ایسے سخت گیر، بے تکلف، گھریلو ماحول میں حاصل کی ہے۔ لگتا تھا نصرت نصراللہ بھی ایسی تربیت سے گزرا تھا۔ خالص اسلامی ذہن، مگر ادب اور فنونِ لطیفہ کا بہترین تربیت یافتہ۔ کراچی میں عرض کیا ناں کہ ایک پوری نسل تھی۔ بتا چکا ہوں کہ جب میں کراچی پہنچا تو سب سے پہلے منورحسن، دوست محمد فیضی اور دو چار اور دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہاں کی جماعت اسلامی بھی بڑی مزیدار تھی۔ مجھے اس میں مولویانہ انداز کے بجائے ایک ایسا تہذیبی ماحول نظر آیا جو تقسیم کے وقت لاہور کے مسلم لیگیوں میں ہوگا۔ نورانی میاں کی جمعیت العلمائے پاکستان بھی اپنا ہی دلچسپ انداز رکھتی تھی۔ جماعت تو پورے شہر پر چھائی ہوئی تھی۔ صحافیوں میں بھی اس کی ایک شاندار آواز تھی جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ مگر پھر میں ایک دوسری دنیا میں چلا جائوں گا۔ جدید صورتِ حال میں ایک دین دار شخص کو کیا طریقہ اپنانا چاہیے یہ میں نے اپنے ہم عصروں میں نصرت نصراللہ جیسوں سے سیکھا، اور اپنے سینئرز میں میجر ابن الحسن جیسوں سے۔ میری رگ رگ میں اُن سے صحبتوں کی پرچھائیاں ہچکولے کھاتی ہیں۔ میری ایک دوسری دنیا بھی تھی، خالص ادب کی دنیا۔ مجھے یہ سب ایک بحرِ رواںکا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ کیا عمدہ تہذیب تھی، کیا دین دار ماحول تھا، اور کیا اعتدال پسندانہ بلکہ آزادانہ طرزِعمل تھا۔ کیا کچھ یاد آرہا ہے نصرت نصراللہ کے بہانے۔ نصرت بعد میں پی پی ایل میں چلے گئے، پھر کراچی پورٹ ٹرسٹ میں۔ مگر صحافت سے ان کا رابطہ برقرار رہا۔ وہ مسلسل لکھتے رہے۔ دوست احباب سے ملتے رہے۔ ایک بار کسی امیرالبحر سے میری ملاقات طے تھی۔ حاضر ہوگیا کہ آخر نصرت کا حکم تھا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بلیوں کا دلدادہ بھی ہے، کیونکہ ان کا باس بھی یہ شوق رکھتا تھا۔ دونوں کی بلیاں الگ مزاج رکھتی تھیں۔ امیرالبحر کی بلی ڈسپلن کی پابند کہ کہاں کھانا پینا ہے اور کہاں دوسرے حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونا ہے۔ نصرت کی بلی شاید نئی نئی تھی، ان کی بات کا لحاظ نہیں کرتی تھی۔ رات بھی خراب ہوجاتی اور بھیگ بھی جاتی۔ نصرت کو ذرا ملال نہ تھا۔ وہ مزے لے لے کر یہ سب بتا رہا تھا۔ مجھے لگا کہ اس کے اندر کا ڈھانچہ زندہ تھا جسے آدمی کا باپ کہا گیا ہے۔ یہ بچہ جب تک زندہ ہے فن کار اور تخلیق کار بھی اُس وقت تک سانس لیتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں جب وہ بیمار ہوا تو اس کی دوبلیوں نے گھر کے اندر آنے سے انکار کردیا۔ نصرت سے پوچھا تو اس نے کہا: شاید انہیں خبر ہوگئی ہے کہ میں اب لوٹ کر نہیں آئوں گا۔ ادریس بختیار، قیصر محمود خدا سب کو سلامت رکھے… کس کس سے افسوس کروں! ایک چراغ اور بجھ گیا ہے۔ اور نصیر سلیمی نے بھی مجھے اس کی خبر نہ دی۔ پہلے ہی اندھیرا ہوتا جارہا ہے۔ دنیا میں روشنیاں پھیلانے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔ میں یہاں بیٹھ کر اُن دنوں کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں مجھے بنانے میں کتنے ہنرمندوں نے کام کیا ہوگا۔ کیا میں آنے والوں میں وہ ہنر منتقل کرسکا؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ الوداع، نصرت نصراللہ، الوداع ! میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے!
(سجاد میر۔ 92نیوز۔ 29اپریل2019ء)