ابو سعدی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی درج ذیل نصیحتیں ایسی ہیں جن کے استحضار سے دین و دنیا کی جملہ سعادتیں حاصل ہوسکتی ہیں۔
٭اگر تم نے نذر مانی ہو، اس کے مطابق (حالتِ گوشہ نشینی یا) قربان گاہ میں ہو، اس وقت تمہیں یاد آئے کہ تم پر تمہارے بھائی کا حق ہے، یا اُسے تم سے شکایت ہے تو حالتِ نذر کو ترک کرکے پہلے بھائی کے پاس جائو۔ اُس سے معافی تلافی کی صورت پیدا کرو، اس کے بعد قربان گاہ پر آئو۔
٭تم چاہتے ہوکہ لوگ تم سے جس طرح معاملہ کریں، جس حُسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئیں، تم بھی لوگوں سے ایسا ہی معاملہ کرو، کیونکہ سارے انبیا کی یہی تعلیم ہے (یعنی حُسنِ سلوک کی) اور اللہ کی رضا مندی کے حصول کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں۔
٭نیکی کے کام لوگوں کے دکھاوے کے لیے نہ کرو، ورنہ اللہ کے ہاں تمہارا نامہ اعمال خالی رہے گا۔ پہلے تم اپنی آنکھ کا شہتیر نکالو، اس کے بعد اپنے بھائی کی آنکھ میں موجود تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکو گے۔
٭اللہ تعالیٰ سے دل، جان اور عقل کی ساری توانائیوں کے ساتھ محبت کرو اور انسانوں سے اتنی محبت کرو جو اپنے ساتھ کی جاتی ہے۔
٭مال اور دل ایک ساتھ رہتے ہیں، جہاں تمہارا مال ہے وہیں تمہارا دل بھی ہے (یعنی اگر اللہ کے لیے مال خرچ کرنے کا جذبہ موجود ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دل میں سلامتی موجود ہے۔ اور دل اللہ کے ساتھ حاضر و موجود ہے)۔
عالمِ بے عمل کی مثال اندھے چراغ کی سی ہے، جس سے لوگ تو روشنی حاصل کرتے ہیں، لیکن وہ خود حالتِ اندھیرے میں رہتا ہے۔
٭یہ فکر نہ کرو کہ کیا کھائیں گے، کیا پئیں گے۔ نہ اپنے بدن کی پروا کرو کہ کیا پہنیں گے۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ وہ نہ بوتے ہیں، نہ کاٹتے ہیں اور نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ تو اس صورت میں بھی اللہ انہیں رزق پہنچاتا ہے۔ پہلے تم راست بازی اختیار کرو تو تمہیں بھی یہ ساری چیزیں حاصل ہوجائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو، کیونکہ کل کا دن اپنے لیے فکر کرے گا۔ آج کے لیے آج کا دن کافی ہے۔ غور کرو کہ تمہیں ان پرندوں کی نسبت بہت زیادہ قوت حاصل ہے۔
(”اصلاحِ نفس کا لائحہ عمل“۔ محمد موسیٰ بھٹو)
خدا سے ڈرنے والاکون ہے
من صبر علی البلاء و رضی بالقضاء و شکر النعماء و ذل لحکم القرآن۔
خدا سے ڈرنے والا وہ ہے جس نے بلائوں پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہا اور نعمتوں کا شکر ادا کیا اور قرآن کے حکم کے آگے جھک گیا۔
(حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی نصیحت وہب بن کیسان کو)
بندوں کے ساتھ جو کروگے وہی خدا تمہارے ساتھ کرے گا
جو حکم ضرورت مندوں اور کمزور لوگوں کے لیے اپنا دروزہ بند کرے گا تو اللہ اس کی حاجت اور اس کی ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کردے گا۔
(ترمذی)
میر انیس
میر انیس، میر حسن دہلوی صاحبِ ”سحر البیان“ کے پوتے تھے۔ فیض آباد میں 1220ھ بمطابق 1805ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان فیض آباد سے لکھنؤ چلا آیا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت لکھنؤ کے ماحول میں ہوئی، مگر انہوں نے اپنے دہلوی ہونے پر ہمیشہ فخر کیا اور زبان میں اہلِ دہلی کے مقلد رہے۔ اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے غزل گوئی کے تنگ میدان کو چھوڑ کر مرثیہ کی طرف توجہ کی اور اس میں منفرد مقام حاصل کیا۔ صفائی ِکلام، خوبیِ بیان، لطف ِمحاورہ، سوز و گداز اور رزم وبزم کے لیے ان کا کلام ممتاز ہے۔ مراثی کی چھ جلدیں علاوہ دیگر کلام کے یادگار چھوڑیں۔ 71برس کی عمر میں 9 دسمبر 1874ء کو انتقال کیا۔ انیس کی والدہ بھی عالم تھیں۔ فارسی پر عبور تھا اور عربی بھی جانتے تھے۔ طب، رمل، ہیئت، فلسفہ اور منطق سمجھتے تھے۔ تاریخ و حدیث کا مطالعہ تھا۔ معانی، بیان اور عروض سے کماحقہ واقف تھے۔ میر ببر علی انیس فی الواقع اردو مرثیہ کے امام ہیں۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
زبان زد اشعار
دردِ دل کچھ کہا نہیں جاتا
اب چپ بھی رہا نہیں جاتا
(قائمؔ چاند پوری)
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
(شیخ ابراہیم ذوقؔ دہلوی)
زبان سے جوشِ قومی دل میں پیدا ہو نہیں سکتا
اُبلنے سے کنواں وسعت میں دریا ہو نہیں سکتا
(پنڈت برج نارائن چکبستؔ)
(مرتبہ: ڈاکٹر حسن الدین احمد)