مایوسی گناہ ہے، مایوسی عذاب ہے، مایوسی مرض ہے، اور آج ہمارا معاشرہ اسی مایوسی کا شکار ہے۔ قوم کو اس حالتِ یاس سے نہ نکالا گیا تو اس کا اپاہج پن مستقل ہوجائے گا، اور ابھی اگر وہ کچھ کرنے کے قابل ہے تو آئندہ کسی قابل نہیں رہے گی۔
مایوسی ایک خاص حد سے زیادہ ہوجائے تو یہ اس مرض کے لیے دوا بھی بن سکتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے کہا ہے کہ مایوسی کا مثبت پہلو بھی ہے کہ اس میں دعوتِ فکر ہوتی ہے کہ وہ کیا حالات ہیں جو مایوس کررہے ہیں، اور ان حالات کی تشخیص ہوجائے تو تبدیلیِ حالات کے لیے معاشرے میں عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ لوگ متحرک اور فعال ہوجاتے ہیں۔
انفرادی زندگی میں آدمی مایوسی کے آگے آسانی سے ہار نہیں مانتا، وہ اس سے نجات پانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرتا ہے۔ مرزا غالب کچھ نہیں کرسکتے تھے تو انہوں نے اپنی مایوسی کو اشعار کا رنگ دیا، اور یہی حال دوسرے کئی شاعروں کا ہے۔ دراصل مایوسی انسانی زندگی کا حصہ ہے اور ایک فطری چیز ہے۔ لیکن انسان کی فطرت میں یاس کے ساتھ امید کی روشنی اور طاقت بھی رکھ دی گئی ہے۔ ہم اپنی انفرادی زندگی میں ناکامیوں کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑتے، امیدوں کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ لیکن معاشرتی طور پر مایوسی طاری ہوجائے تو امید کی روشنی اور طاقت خودبخود پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے انسانوں کا ایک ایسا گروہ موجود ہونا چاہیے جو مایوسی کو امید میں بدل دے، اور ایک نصب العین اس طرح سے پیش کرے کہ معاشرے کو نئے سرے سے متحرک کردے۔ ورنہ مایوسی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، فرد اور معاشرے کو غلط اور تخریبی راستوں پر لے جاتی ہے۔ اس لیے ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی حالتِ یاس پر قابو پانا سیکھنا چاہیے۔ مایوسی سے نجات کا طریقہ کیا ہے؟ یہ کہ آپ اپنی روش کا احتساب کریں، اپنی غلطیاں معلوم کریں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے وہ بار بار انہی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے اسی لیے کہا تھا کہ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ جو طریقے بڑی امیدوں کے ساتھ اختیار کیے گئے تھے اور ان کے نتیجے میں کچھ ہاتھ نہیں آیا، ان طور طریقوں اور ان راہوں پر مزید چلتے رہنا مایوسی کے تحت الثریٰ کی جانب سفر ہے۔ اگر آپ انفرادی طور پر مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہیں تو اپنی غلطیوں سے آگاہی حاصل کیجیے اور آئندہ کے لیے ان سے باز رہنے کا عہد کیجیے، اور اگر آپ قوم ہیں تو قومی حیثیت میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اُن کا خود بھی احساس کیجیے اور دوسروں کو بھی احساس کرائیے۔ سب مل کر عہد کریںکہ اب ہم یہ غلطیاں نہیںکریں گے۔ اس طرح ایک نئی راہ روشن ہوگی اور امیدوں کے نئے چراغ جگمگانے لگیں گے۔
عام طور سے مایوسی کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سوچ میں لچک نہیں رکھتے اور سوچ کو حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ غیر لچک دار اور جامد سوچ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی بہت جوش و جذبات پیدا کرے گی مگر آخر میں مکمل مایوسی پیدا کرے گی۔ اس لیے سوچ میں ضدی پن نہ آنے دیجیے اور وقت کے ساتھ سوچ کا ارتقا ہونا چاہیے، یہی ذاتی طور پر بھی فائدہ دے گا اور قومی ضرورت بھی اس سے پوری ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ میں ہر قدم پر اپنی سوچ کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت کا احساس رہے اور اس کی اہلیت بھی رہے، اس سے مایوسی کا شیطان آپ پر قابو حاصل نہیں کرسکے گا۔
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں اور خرابیِ حالات کے لیے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور اُن کے خلاف کہہ سن کر، یا لکھ پڑھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، لیکن یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا اور اپنا رویہ ٹھیک کرنا چاہیے، ورنہ دوسروں پر الزام دھرنے سے ہمیں حاصل کچھ نہیں ہوگا اور ہماری مایوسی بڑھے گی۔
مایوسی کا ایک سبب فکر و عمل کا تضاد بھی ہے، جو صحیح فکر اپنائی گئی ہے اگر اس کے مطابق فرد اور قوم عمل نہ کریں اور یہ تضاد یوں ہی جاری رہے تو اس کا انجام مایوسی ہے۔ دراصل مایوسی کی جڑ بے عملی ہی ہے، اور جو بے عملی فکر سے محرومی کے سبب ہو اُس سے زیادہ خطرناک وہ بے عملی ہے جس کو فکرِ صحیح کا علم ہے، لیکن یہ علم قوتِ عمل کے لیے مہمیز نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ صحیح دماغی فکر سب کچھ نہیں ہے، قلب کا ایمان بھی ہونا چاہیے جو آمادۂ عمل کرے۔ ورنہ علم بے کار کا بوجھ ہے، اس سے عمل کی قوت سلب ہوجاتی ہے یا ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے مایوسی سے بچنے کے لیے ایمان کی اہمیت کو بھی سمجھنا ہوگا، اور دعا ایسی چیز ہے جو ایمان و ایقان کو زیادہ کرے گی اور مایوسی کے زہر کا تریاق ثابت ہوگی، اس دوا کی طاقت سے مدد لیجیے۔
مایوسی کے مختلف ردعمل ہوتے ہیں۔ ایک ردعمل یہ بھی ہوتا ہے کہ جو حالات ہیں اچھے نہیں ہیں، مگر انہی سے مصالحت کرلو۔ اس سے وقتی طور پر نئی سرگرمی پیدا ہوتی ہے، قومی زندگی میں سرسید پیدا ہوتے ہیں، ذاتی زندگی میں لوگ قلابازی کھا جاتے ہیں تاکہ مقامِ بلند حاصل کریں۔ لیکن یہ خودی کی موت ہوتی ہے، اور برصغیر کے مسلمانوں پر یہ موت وارد ہوچکی ہوتی اگر سرسید کے بعد اقبال پیدا نہ ہوتے، جو دلِ مسلم کے لیے زندہ تمنا کے طلب گار ہوئے۔ سرسید کی مایوسی نے بھی کام دکھایا، مگر یہ بہت پست سطح پر تھا۔ اقبال نے مایوس کن حالات میں خودی کو بلند کیا اور ہند و بیرونِ ہند کے مسلمانوں کو ایک بہت بڑا نصب العین مل گیا جو ایک بڑی جدوجہد کا عنوان ہوگیا۔ انفرادی زندگی میں بھی جب فرد مایوسی کے چیلنج کو قبول کرتا ہے تو مفلس و قلاش سے کروڑپتی ہوجاتا ہے، جاہل سے عالم ہوجاتا ہے۔ مایوسی خوابوں کی دنیا میں بھی لے جاتی ہے، فرد سوچنے لگتا ہے کہ لاٹری نکل آئے گی، قوم خیال کرتی ہے کہ ہم غلبہ اور خوشحالی حاصل کرلیں گے۔ خواب دراصل اچھے مستقبل کی تلاش ہیں، یہ تلاش جاری رہنی چاہیے لیکن صحیح بنیادوں پر۔ اور خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر تصورات کے ساتھ حقائق کی دنیا میں واپس آنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے کوئی خواب ہی نہیں ہیں اور آپ زمینی حقائق کے کیڑے بن کر زمین پر ہی رینگ رہے ہیں تو مستقبل چیونٹی کا ہے جسے کوئی بھی ظالم مسل دے گا اور شاہین کی پرواز آپ کے حصے میں نہیں آئے گی۔ اس لیے خواب ضرور دیکھیے، بغیر خواب کے کسی زندگی کو نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دنیا سے ٹکر لینے کی جرأت بھی ہونی چاہیے، یہ نہ ہو تو فرد اور قوموں کو مایوسی زندگی سے فرار سکھاتی ہے، اس فرار میں وہ اپنے اطراف ہونے والے واقعات سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، لیکن جو باہمت ہیں وہ حوصلہ نہیں ہارتے، نامساعد حالات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ اس ملک میں فراری ذہنیت کے لیے بہت سے مشغلے ہیں، ایک فرار یہ بھی ہے کہ آپ اپنے نصب العین سے دست کش ہوجائیں۔ مایوس کن حالات کی ایک نعمت غصہ ہے جو حالات سے بے خطر لڑجانے کی جرأت دیتا ہے۔ فلسطینی شاعر محمود درویش نے اس غصے کا اظہار اپنی نظم میں یوں کیا تھا:
اور کیوں یہ دنیا غلیظ اور مکروہ زندانوں سے بھری پڑی ہے
کیا اس لیے کہ جاگنے میں ہم دکھوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں
اور حسرت کے پھول ہمیں صرف خوابوں کی کتابوں میں ملیں؟
یہ غصہ فرد کو بھی طاقت دیتا ہے اور سماج کو بھی، کہ وہ خوابوں کے پھولوں سے حقیقت کی دنیا کو باغ و بہار بنادیں۔ لیکن یہ غصہ تخریبی بھی ہوتا ہے، اس سے تشدد کی تحریکیں جنم لیتی ہیں، اور انفرادی زندگی میں نوجوان جرائم پیشہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اپنے میں غصہ ضرور پیدا کیجیے، مگر ایسا غصہ جو آپ کو تخریب کے بجائے نئی تعمیر کی طرف لے جائے، ذہنی یا عملی آوارگی میں مبتلا نہ کرے۔ مایوسی کا ایک ردعمل یہ ہے کہ آدمی مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا، ماضی کی باتوں میں کھوکر اپنا جی بہلاتا ہے۔ خدارا ایسا نہ کیجیے۔ ماضی سے تعلق مضبوط رکھیے، لیکن نظر حال کے سنوارنے اور مستقبل کے بنانے پر ہو، اور یہ نہ ہو کہ آپ ماضی کے گیت گاتے رہیں اور ماضی میں مدفون ہوجائیں، اور اپنی بدحالی کے باوجود کہتے پھریں کہ ہم چو من دیگرے نیست ماپدرم سلطان بود۔
(11 تا 17 جولائی 2003ء)